اِکز اِقبال
کسی بھی معاشرے کی ترقی اور اس کی فکری بیداری کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہاں کے مذہبی اور فکری رہنما کس قدر ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر کسی قوم کے علماء اور خطبا اپنے فرائضِ منصبی کو دیانتداری اور حکمت کے ساتھ انجام دیں تو وہ قوم فکری و اخلاقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے، لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کریں تو معاشرہ زوال کی کھائی میں جا گرتا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرتی اور سماجی مسائل دن بدن پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے مذہبی پیشوا کوئی سنجیدگی نہیں دکھاتے۔ جمعے کے خطبات اور دیگر وعظ و نصیحت کے مواقع پر معاشرتی برائیوں، اخلاقی بگاڑ، سماجی بیداری اور عوامی مسائل پر گفتگو کی بجائے تاریخی اور جذباتی بیانیہ پیش کیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے، اخلاقی اقدار اور سماجی نظام میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
گزشتہ کئی سال کی تبلیغ اور شعلہ بیانیوں کا اگر کوئی خلاصہ نکالا جائے تو شاید یہی ہوگا کہ آج بھی ہماری مساجد میں نمازی اپنے جوتوں اور مساجد کے اندر موجود سامان کی حفاظت کے لیے فکرمند نظر آتے ہیں۔ آج بھی مذہب کے نام پر لڑائیاں ہورہی ہے اور اچھائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنے طویل عرصے تک وعظ و نصیحت کے بعد بھی معاشرتی سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، تو کیا یہ تبلیغ ناکام رہی؟ یا پھر ہم نے تبلیغ کے اصل مفہوم کو ہی محدود کر دیا ہے؟
یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ جس دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا، اس کے پیروکار آج بھی گلیوں، نالیوں اور سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینکنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ جس دین نے عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں کے حقوق کی پاسداری کا درس دیا، وہاں آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین اور ضعیف افراد کو جگہ دینا ایک نایاب عمل بنتا جا رہا ہے۔ہماری نوجوان نسل جس تیزی سے منشیات، غیر اخلاقی سرگرمیوں اور موبائل فون کے غلط استعمال کی طرف مائل ہو رہی ہے، وہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے خطیب حضرات ان موضوعات پر گفتگو کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ کوئی مولوی صاحب یہ نہیں بتاتا کہ رات کے اندھیرے میں بند کمروں میں موبائل فون کی دنیا میں کھوئے نوجوان کس گمراہی کی طرف جا رہے ہیں، نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ جھوٹ کو مذاق میں کہنا بھی گناہ ہے اور دوسروں کا حق مارنا بدترین جرم۔
اگر ہمارے مذہبی رہنما چاہیں تو وہ معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ نماز کے بعد مختصر ہی سہی، مگر ایسا سیشن ضرور رکھ سکتے ہیں، جس میں لوگوں کو عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور ان کے ممکنہ حل سے آگاہ کیا جائے۔ اگر ہر جمعے کو ہی کوئی ایک سماجی برائی موضوعِ سخن بنے اور اس کے سدباب کے عملی طریقے بتائے جائیں، تو معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے علما کرام اور خطبا قوم کے بہترین مربی ثابت ہوتے اور ان کی شخصیت ایسی ہوتی کہ لوگ ان کے کردار سے متاثر ہو کر نیکی کی طرف مائل ہوتے۔ اگر مساجد کے خطبات میں مسلکی لڑائیوں کی جگہ قومی اور سماجی مسائل کو اہمیت دی جاتی، تو آج ہمارا معاشرہ ایک بہترین اور ترقی یافتہ سماج کی صورت میں نظر آتا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما زیادہ تر ان موضوعات کو چھیڑنے سے گریز کرتے ہیں جو عملی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ شاید انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے علم کی قلعی نہ کھل جائے، اسی لیے وہ تاریخی واقعات کے محفوظ قلعے میں خود کو بند رکھتے ہیں۔ اگر واقعی مسجد میں ہر تقریر کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے، تو آدھے سے زیادہ خطیب حضرات منظر سے غائب ہو جائیں گے، کیونکہ ان کے پاس ان عملی سوالات کا کوئی مدلل جواب نہیں ہوگا۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری مساجد اور خطیب حضرات اپنی روش کو بدلیں اور وعظ و نصیحت کو صرف قصے کہانیوں اور جذباتی تقاریر تک محدود رکھنے کے بجائے عملی اور اصلاحی گفتگو کو فروغ
دیں۔ جب تک ہمارے مذہبی رہنما اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھیں گے، تب تک معاشرتی مسائل بڑھتے رہیں گے۔یہ وقت خوداحتسابی کا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم دین کو صرف عبادات اور مسلکی مباحث تک محدود رکھ کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتے ہیں؟ کیا معاشرتی برائیوں اور اخلاقی انحطاط کے سامنے خاموش رہ کر ہم واقعی ایک صالح اور فلاحی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں؟مساجد کو صرف عبادت کا مرکز نہیں بلکہ تربیت گاہ بننا چاہیے، جہاں لوگوں کو بتایا جائے کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال کیسے رکھا جائے، سڑک پر کیسے چلا جائے، دوسروں کے حقوق کیسے ادا کیے جائیں اور اخلاقیات کو کیسے بہتر بنایا جائے۔ اسی میں ہماری فلاح اور بھلائی ہے۔ ورنہ یہ قوم خطبے سنتی رہے گی، نعرے لگاتی رہے گی اور عملی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ظاہر ہے کہ محض تقریر سے کچھ نہیں ہوگا،عمل ہو تو انقلاب آئے گا۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ ۔ 7006857283
[email protected]