فکر انگیز
ڈاکٹر فلک فیروز
مخاطب تو اپنے سے ہو تو لیا کر کبھی خود سے باتیں تو کر تو لیا کر
خود سے مراد اپنی ذات کا وہ خول ہے جو گوشت پوست سے منضبط ہے ،جس میں انسان کا جسمانی وجود شامل ہے جو مختلف عناصر و اجزائے ترکیبی کا ایک مکمل نظام ہے۔ اس کے علاوہ انسان کا دوسرا وجود اسکی باطنی دنیا ہے، جس میں اس کی روح اور ذہنی و دماغی صحت شامل ہے ۔دنیا کی تمام مخلوقات میں ابن آدم یا انسان واحد ایسی مخلوق ہے، جس کے پاس بصری ،لمسی،حسی،سمعی اور قوت گویائی کے حواس ایک منظم انتظام کے ساتھ موجود ہیں جس کی بدولت انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے، اس سے ترسیل کے مراحل سے گزار کر تکلمی نیز تحریری صورت میں منتقل کرنے کا ہنر رکھتاہے۔ ناطق کی صورت میں بولنے کا ڈھنگ رکھتا ہے ۔اچھے سے اچھے کلمات کا اظہار کرنا انسان کی شان و شوکت ،اخلاق حسنہ،کلام کی تحسن و خوبی سے منسلک عادت تسلیم کی جاتی ہے۔جس کو بہتر سے بہتر بنانے کی ہر ممکن سعی انسان کی جانب سے موجود رہتی ہے ۔ تمام مذاہب کے رہنمائوں،پیغام رسائوں کی تعلیمات میں اس بات کی تلقین ملتی ہیں کہ آپس میں کلام کرنے کے دوران نرمی،خوش گفتاری ،حسن سلوک کے اصول برتنے چاہئے جو کہ انسانیت کا اولین درس ہے۔ علم اعصاب یا ہیومن بیہیور پر کام کرنے والے محققین نیز علم السان جاننے والے علماء کی رائے بھی یہی ہے کہ زبان سے ادا ہونے والے کلمات ،ان کا برتاو،انداز گفتگو،سلیقہ ،ترسیل کا طریق کار ہی یہ طے کرتا ہے کہ مخاطب اور مخاطب الیہ کے رشتے ،تعلقات ،روابط ،لین دین کے معاملات کیسے ہونگے یا ہوسکتے ہیں ۔کبھی کبھار صیح الفاظ غلط انداز میں بولنے سے آپسی رشتے روابط خراب ہونے کا احتمال رہتا ہے جو کہ سفارتی رشتوں کی سطح پر ملکوں کی سیاسی صحت کے تئیں بھی ناچاقی پیدا کرتا ہے، عین مطابق زندگی کے روزمرہ معاملات کے درمیان بھی ۔
” Language shapes our behavior and each word we use is imbued with multitudes of personal meaning. The right words spoken in the right way can bring us love, money and respect, while the wrong words—or even the right words spoken in the wrong way – can lead a country to war. We must carefully orchestrate our speech if we want to achieve our goals and bring our dreams to fruition”. —) Dr. Andrew Newberg, Words Can Change Your Brain”2. Identify your self(۔
اس طرح سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی گویا ہو جایا جائے تو سوچ سمجھ کر بولاجائے، اس حوالے سے عام لغات اور اصطلاحی اوراق ،کتابوں میں متعدد محاورے ،ضرب الامثال موجود ہیں ۔ مثلا پہلے تولو پھر بولو،کم بولنا دانائی ہے ،سوچ کر بولنا ،بات جب نکلتی ہے دور تک جاتی۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اچھی طرح سے اچھے الفاظ اچھے کلمات ادا کرنے سے انسانی رابطے زیادہ اور بہتر بناے جاسکتے ہیں اور بُرے انداز سے الفاظ ،کلمات کی ادائیگی تعلقات کو بگاڑسکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ انسان ایک عظیم و احسن تخلیق ہے جس کے اندر سوچوں،خیالات،تخیل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ سوچ ایک ازلی قوت ہے جس سے عام لفظوں میں مراد ہے، دھیان،فکر ،غور،خیال ،سوچ بچار،تصور،اندیشہ ۔ اس کے یہاں بنیادی طور پر اصل اور خراب کی کوئی صفت موجود نہیں رہتی ہے ۔سوچیں سمندر میں بہنے والی لہروں کی مانند ہوتی ہیں جو بہتے ہوئے عمل کے دوران اس بات سے بے خبر رہتی ہے کہ انکی اگلی منزل کون سی ہے ،کس کے ساتھ ہمکنار ہوجانا ہے اور کس کے ساتھ ٹکرانا ہے، کس کو اپنا نشانہ بنانا ہے اور کس کو طوفانی ہوائوں سے محفوظ رکھنا ہے۔ سمندر میں سفر کرنے والے مسافر بھی اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جان لیوا طوفانی،حملہ آور ،خونخوار لہروں سے دامن بچا کے چلے، عین مطابق علم نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سوچ منفی نیز مثبت طریقہ کار کا لباس زیب تن کرتے ہوئے ایک شخص کو متاثر کرتی ہے اور یہی سے تعین ہوتا ہے ایک فرد کی کامیابی اور ناکامی کا ۔اس لئے ضروری ہے کہ سوچوں کے بارے میں پہلے سوچا جائے، اپنی ذات ،اپنے وجود کے خول کے آئینے میں ،اپنی قوت بازو کے مطابق ،اپنی انفرادی حیثیت کے مطابق ،اپنی قوت ارادی کے اسباق میں ،اپنے مقررہ حیات کی نصابی اصولوں کے حصار میں ،کیونکہ سوچیں ہی یہ طے کرتی ہیں کہ آدمی کو کیا ہونا ہے ،کیا سے کیا یا کیسا ہوناہے ،کس طرح سے کتنا ،کب ،کہاں اور کیوں تغیر لازم ہے نیز اس کی کیا کیا صورتیں ہیں۔ ان تمام تر مسایل ،معاملات ،تغیرات،کاوشوں کی جو پہلی سیڑھی ہے، وہ ہے اپنی ذات سے ہم کلامی یا خودکلامی، جس کو علم نفسیات یا روحانی علوم میں خاصی اہمیت حاصل ہے اور اسی طرح علم ادبییات میں بھی اس کو بطور ایک طریقہ کار ،اسلوب بھی مختلف فن پاروں میں استعمال میں لایا جاتا ہے کبھی ناولوں میں ،کبھی افسانوں میں یا ڈراموں میں کردار اپنے اپ سے بات چیت یا گفتگو کرتا ہے تو اس پورے عمل کو خود کلامی کہا جائے جس کے لغوی معنی ہے اپنے آپ سے باتیں کرنا ،دل سے باتیں کرنا ،خود سے خود ہی کوئی راے طلب کرنا ،خود سے کسی مسئلے کے متعلق باتیں کرکے اس کا جواب پیدا کرنا ۔ علم نفسیات میں اصطلاحی سطح پر سیلف ٹاک یا خود کلامی کو یوں بیان کیا جاتا ہے ۔
” The internal dialogue or inner voice an individual has with themselves, encompassing both conscious thoughts and unconscious beliefs, which can be positive or negative and significantly influence perceptions, beliefs, and behaviors. ”
مذکورہ بالا گفتگو سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خودکلامی کا کس قدر پوزیٹیو ہونا لازمی ہے نیز کتنا توانا یا صاف ہونا انسب ہے اور کس طور پر یہ ذہنی و جذباتی ذہانت کے لیے فروغ بخش ہے ۔اس طور پر نفسیاتی علوم کی تحقیقات میں جو کلیدی عناصر یا حقایق سامنے رہتے ہیں ،ان کی تفصیل یوں درج ہیں ۔
۱۔ خود کلامی ایک ایسا زریعہ ہے جس میں ایک شخص اپنی باطنی طاقت ،حیثیت،قوت کے ساتھ انہماک کے انداز میں گویا ہوجاتا ہے جس میں اس کا تخیل ،اس کا یقین ،اس کا خوف و خدشہ ایک ساتھ سفر کرتا ہے اور اگر اس کے اندر قوتیں پاورفل ہے تو یہ اپنے خوف اور خدشے پر یقین اور کامییابی کی مہر ثبت کر سکتا ہے۔
۲۔ منفی سطح کی خود کلامی اس وقت حایل ہو جاتی ہے جب بندہ خدا انتہائی مایوسی ،ابلاس،اظطراب اور اندھیرے میں پھنس چکا ہو اور نکلنے کا راستہ نظر نہ آرہاہو ۔ ان حالات میں انتہائی صبر سے کام لینا چاہے ۔
۳۔ یقینی طور پر آپ کی خود کلامی آپ کے ذہنی عالم ،ذہنی دنیا ،باطنی و روحانی دنیا کو متاثر کرتی ہے ۔
۴۔ منفی خیالات کی جانکاری حاصل کرکے ان کی نشاندہی بہتر انداز میں کرکے انھیں اپنی مثبت سوچ ،مثبت رویے سے تبدیل کرکے ان پر پوری قوت کے ساتھ قابو پائی جاسکتی ہے ۔
۵۔ مثبت خودکلامی انسان کے حال کو خوشحال بناکر اچھے مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے ۔نیز پریشانی یا غم کی کیفیات کو دور کرنے میں مدد دے سکتی ہیں ۔
کرے دوسروں سے تو الجھن کی باتیں
کبھی خود سے تو بھی الجھ تو لیا کر
مثبت قوت،انرجی حاصل کرنے کے لئے ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کو خوش رکھنے کا سامان خود مہیا کرکےخوش رہنے کی پہل خود کرے، یہ حق کبھی دوسروں کو نہ دے کہ وہ جیسا چاہے بندے کو بندر بناکر سرکس کا کھیل تماشہ کردے تاکہ وہ خود روئے اور تماشائی تالیا بجھا بجھا کر اس کا حوصلہ بڑھاتے جائے اور بندہ اندر سے ٹوٹ کر گر جائے ۔ماہرین نے یہ تجاویز جاری کر دی ہیں کہ ہر روز اپنے آپ کے ساتھ وعدہ کریں ،حلف لیا کریں اور قلب و لسان سے اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ اپنے قایم کردہ حلقہ کے اندر خوش رہیں گے ،مثبت رہیں گے ،اس حوالے نفسیاتی معالجین کی رائے یہ ہیں کہ دنوں کی بنیاد پر،ہفتوں کی بنیاد پر اپنے ساتھ مثبت انداز میں تصدیق کریں کہ:
۱۔ میرے اندر اتںی اہلیت ،قابلیت ہے کہ میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہوں اور ہر خطرے کا مقابلہ کرسکتا ،کرسکتی ہوں۔
۲۔ میری سوچ ،تخیل ،فکر تابکاری حرارت کے ساتھ محبت اور مثبت خیالات کی حامل ہے۔
۳۔ میں اپنی رفتار کے مطابق ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔
۴۔ میں اپنی استعداد کے مطابق اپنی آزادی کا حق رکھتا ہوں۔
۵۔ میں ہر مشکل ،مسلئے،پریشانی،سختی اور مصیبت جو بھی میری راہ میں آنے والی ہے کا مقابلہ بہادری سے کر سکتا ہوں۔
۶۔ میں عزت ،محبت ،شفقت کا حق رکھتا ہوں جو مجھے بقدر ضرورت مل رہی ہے۔
۷۔مجھے یقین ہے کہ میں پرامن ،خوشگوار محبت سے بھرے ماحول میں محفوظ ہوں۔
۸۔ میں بہت قیمتی ،لایق ،اور پر امید ہوں ۔
۹۔ میں اپنی بساط ،ساخت اور حلقے دایرہ کے مطابق اپنی جگہ بنانے کا حقدار ہوں ۔
۱۰۔ میں تشکر بجا لاتا ہوں ان تمام چیزوں کے لیے جو میرے پاس ہیں اور جو آیندہ آنے والی یا ملنے والی ہیں۔
دنیا میں موجود مختلف موٹیویشنل مقررین کا ماننا ہے کہ خود کلامی ایک بہترین فن ہے اور جن لوگوں کے پاس اتنی توانائی ہے کہ وہ مثبت خودکلامی سے پُرجوش رہتے ہیں ،ولولہ انگیزی اپنے اندر موجود پاتے ہیں۔خود کلامی کے حوالے سے جو افرمیشن یا تصدیق ہوتی ہےیا کی جاتی ہے، اس میں ہر عمر کے لوگوں کے کئے الگ الگ جملے ،باتیں موجود ہیں ۔نوجوانوں یا طلبہ کے لئے جو باتیں بطور افرمیشن یا تصدیق تجویز کئے جاتے ہیں ان کی تفصیل درج زیل ہیں۔
۱۔ میں اپنا مستقبل صیح سمت میں تعمیر کرنے کا ہنر رکھتا ہو،۲۔میری تمام تر سوچیں میری ضبط میں ہیں ،۳۔ میرے لئے ضروری نہیں ہے کہ میں ہر چیز سے باخبر رہو۔۴۔مجھے یقین ہے کہ میرا مستقبل تابناک اور روشن ہے۔۵۔میں اپنے مقدور کے مطابق بہتر اور صحیح راستے پر ہوں ،۶۔ میں اپنے جزبات پر قابو پانے میں ماہر ہوں ،۷۔ میری ہر پریشانی کا بہتر حل موجود ہے ۔،۸۔ میں اپنی بنائی گی راہ،اپنے بنائےگئے خاکے کے مطابق کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہوں۔،۹۔میں دنیا تبدیل کرسکتا ہوں،۱۰۔ میں اپنی اہلیت ،قابلیت سے باخبر ہوں، اس لئے میری کامیابی کا تعلق میری گریڈ یا نمبروں کے حصول میں موجود نہیں ہیں۔
خودکلامی انسان اس لئے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ کامیابی کی منزلوں کی جانب قدم بڑھا کر اپنے آپ کو حوصلہ بخش دے اور اس حوصلے سے اپنی کامیابی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خود کو خوش رکھ سکے۔ ایک فرد جس خوشی کو باہر کی دنیا میں تلاش کر رہاہو، وہ خوشی دراصل اس کے اپنے وجود میں پوشیدہ ہے ،اس کے اندر موجود ہے، جس کو تلاشنے اور کھنگارنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہماری تلاش کا محور ہی غلط ہے اور نتجہ یہ نکلتا ہے کہ عمر بھر کی تلاش ضائع ہوجاتی ہے اور انسان مایوسی کا زیادہ شکار ہوجاتا، جس کو دوسرے لفظوں میں خود ساختہ کاروائی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
سروراورہی ہوتا ہے خود کلامی کا
ہم اپنے آپ سے اکثر کلام کرتے ہیں (مظفر وارثی )
رابطہ۔8825001337
[email protected].