خود داری مومن کی معراج ہے

محمد امین اللہ
خود داری احترام ذات ، تکریم نفس ، احساس ذات ، اللّٰہ پر توکل اور حالات جبر میں صبر و شکر کا نام ہے۔ قناعت کی چادر ہے۔ خودی مومن کا اپنے رب پر کامل یقین پیدا کر دیتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ جس نے طاغوت کا انکار کیا ، اللّٰہ پر ایمان لایا گویا اس نے اک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی چھوٹنے والا نہیں اللّٰہ سننے والا اور با خبر ہے۔‘‘( البقرہ)  اسلام خود داری اور عزت نفس کی حفاظت کا درس دیتی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے عزت نفس کو ذلت میں ڈالے ۔‘‘( ترمذی )
اسلام میں جہاں مانگنے سے منع فرمایا گیا ہے ،وہیں نہ مانگنے کی فضلیت بھی بیان کی گئی ہے ۔مانگنے سے مر جانا بہتر ہے، مانگنے والے کی غیرت مر جاتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ہر صاحب ایمان اپنی نمازوں کے ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ میں یہ ورد کرتا ہے کہ اے اللہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں ،پھر کیسے ایک مسلمان اللّٰہ کے سوا کسی غیر اللّٰہ سے مدد مانگے، یہ تو اک مومن کے خود داری کے منافی ہے ۔
اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تم کو جوتے کا تسمہ مانگنا ہو تو وہ بھی اللّٰہ سے مانگو، اللّٰہ مسبب الاسباب ہے، وہ تمہارے لئے غیب سے مدد فرما دے گا ۔ آدم علیہ السلام سے لیکر اللّٰہ کے رسول ؐ تک ہر نبی اور رسول خود داری کے شمع فروزاں تھے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے سخت ترین آزمائشوں سے گزارا، لیکن انکے لبوں پر صبر و شکر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللّٰہ نے اپنا خلیل کہا ۔خلیل اللّٰہ کو جب منجنیق کے ذریعہ آگ میں پھینکا جا رہا تھا تو فضا میں حضرت جبرائیلؑ آئے اور کہا کہ اللّٰہ نے مجھے بھیجا ہے،  میں آپ کی کیا مدد کروں تو خودی سے سر شار حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیا، میرا رب جانتا ہے وہ میری مدد کیسے کرے گا ۔ پھر اللّٰہ نے آگ کو حکم دیا میرے خلیل کے لئے تو گل و گلزار ہو جا ۔ علامہ اقبال نے کہا  ؎
خودی کو خود کر اتنا بلند کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کر دیا گیا مگر امان طلب نہیں کی ۔ ذکریا علیہ السلام آرے سے چیر ڈالے گئے، اُف تک نہ کیا۔ حضرت یوسف ؑ12 سال زنداں میں قید رہے مگر اللّٰہ کے سوا کسی سے کوئی مدد نہ مانگی ۔ حضرت یعقوبؑ برسوں بیمار رہے اور اللّٰہ کے سوا کسی کو نہیں پکارا ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم 13 سال مکے میں ستائے گئے ، شعیب ابی طالب کی محصوری ہو یا طائف میں سنگ باری ،ہر حال میں صبر و شکر کے کوہ گراں بنے رہے ۔یہ خودی اور توکل علی اللہ ہی تھا جو پہاڑ کی طرح دین پر جمے رہے ۔ حضرت بلالؓ کو ننگی پیٹھ پر پتھر باندھ کر گرم ریت پر گھسیٹا جاتا مگر زبان سے احد احد کی آواز آتی ۔
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الااللہ
خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الااللہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ اور اے نبی !میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں ۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، یہ بات تم انہیں سنا دو شاید کہ وہ راہ راست پا لیں ۔‘‘( البقرہ۔ 177)
جب ہمارا پالن ہار ہمارے قریب ہے ،ہمارے دکھ سکھ کو جانتا اورسُنتا ہے کیونکہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی، وہ علیم بھی ہے خبیر بھی، تو ایک صاحب ایمان کی ایمانی تقاضہ ہے کہ وہ اپنی خودی کی حفاظت کرے اور اپنے رب سے ہی لو لگائے ۔جب بندہ اپنے تمام معاملات کو اپنے رب کے حوالے کر دیتا ہے تو آگ گل و گلزار بن جاتی ہے، چُھری اسماعیلؑ کا گلہ نہیں کاٹتی، سمندر موسیٰ ؑبنی اسرائیل کو راستہ دے دیتا ہے ، یوسفؑ کو زندان سے نکال کر تخت پر بیٹھا دیتا ہے ، بدر میں قلیل کو کثیر پر فتح یاب کرتا ہے ۔ اس لئے کہ اللّٰہ اپنے ہر بندے پر نظر رکھتا ہے ۔ پوری کائنات اُس کی مٹھی میں ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کے کُن فیکُن سے زیر و زبر ہوتا ہے، وہی بیمار ڈالتا اور صحت یاب کرتا ہے ، وہی رازق و خالق ہے پھر غیر سے کیوں مانگنا ۔درویشوں اور ولیوں کی خودی کا عالم یہ تھا کہ وہ کبھی اپنے دور کے سلاطین کے درباروں میں نہیں گئے بلکہ وقت کے نامور سلطان اور خلیفہ چل کر اُنکے کٹیا میں گئے اور نصیحتیں حاصل کیں ۔
 افراد کا کردار تو مشعل راہ ہے لیکن قومی غیرت اور خود داری ہی امامت اور خود مختاری کی ضمانت ہے ۔ آج جب ہم مسلمان حکمرانوں کی جانب دیکھتے ہیں تو یہ سب یہود ونصاریٰ اور اہل ہنود کے کاسہ لیس بنے ہوئے ہیں گو کہ مسلم عوام کا ایک طبقہ اس کیفیت اور حالات سے سخت نالا ںاور کرب میں مبتلا ہے مگر حکمرانوں کی احساس کمتری اور بے غیرتی و بے حسی قابلِ ملامت ہے ۔