غوروفکر
معراج وانی
خود اُگاو، خود پکاو — یہ محض ایک نعرہ نہیں، ایک سبق ہے۔ آج کے دور میں جب بازاروں اور ہوٹلوں کے کھانوں میں ملاوٹ، ناقص معیار اور منافع خورانہ رحجانات عام ہو چکے ہیں، ہماری صحت اور بھروسہ دونوں خطرے میں ہیں۔ وادی کشمیر میں حالیہ واقعات — جہاں مضر اور بوسیدہ گوشت استعمال کرنے کے مناظر سامنے آئے — نے ایک بار پھر ہم میں یہ سوال جگا دیا ہے کہ آیا ہمیں ہر چیز دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینی چاہیے؟ خود اُگاو، خود پکاو اسی شعور کی جانب بلاتا ہے۔اپنا کھانا خود اگاؤ، خود پکاؤ اور اپنی عزتِ نفس اور صحت بحال کرو۔
اسلام نے ہمیشہ محنت، دیانت داری اور خود کمانے کو عزت اور عبادت کا درجہ دیا ہے۔رسولِ اکرمؐ نے فرمایا:’’کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا جو اُس نے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا۔‘‘(صحیح بخاری)۔ایک اور روایت میں آپؐ نے فرمایا:’’اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘(یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے سے افضل ہے۔)اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان اپنی روزی خود کمائے، دوسروں پر بوجھ نہ بنے، اور حلال طریقے سے اپنی زندگی گزارے۔زرعی محنت، دستکاری، تجارت، حتیٰ کہ گھریلو صنعت — سب وہ راستے ہیں جنہیں اسلام نے پسند فرمایا ہے۔یہی وہ روح ہے جو’’خود اُگاو، خود پکاو‘‘ کے فلسفے کے عین مطابق ہے۔جب ہم خود محنت کر کے اپنی خوراک پیدا کرتے
ہیں، تو نہ صرف حلال روزی کماتے ہیں بلکہ اپنے دل و دماغ میں اطمینان، برکت اور شکر کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔
مسئلے کی نشاندہی : بازار میں دستیاب غذائیں اکثر کم معیار، مصنوعی طریقوں سے تیار کردہ اور طویل شیلف لائف کے لیے کیمیکل استعمال شدہ ہوتی ہیں۔ ہوٹلوں اور بعض بَدنیت دکانداروں کی منافع خوری بھی کھانے کا معیار گِرا دیتی ہے۔ نتیجہ؟ پیٹ کے امراض، غذائی زہریلا پن، اور لمبے عرصے میں صحت کے سنگین مسائل۔ اس کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور ذہنی دباؤ والی صورتحال بھی بہت سے افراد کو غیر مستحکم کرتی ہے۔
خود اُگاو، خود پکاو — فوائد : (۱) صحت میں بہتری: تازہ، اور نیچر کے قریب خوراک ہم تک نقصان دہ کیمیکلز اور ملاوٹ سے بچا کر پہنچتی ہے۔(۲) اقتصادی فوائد: چھوٹے پیمانے پر گھر یا محلے میں کھیتی، مرغی پالنا یا سبزیوں کی سب سیزن پیداوار سے آمدنی کے ذرائع پیدا ہوتے ہیں—بے روزگاری کم ہوتی ہے۔(۳) ماحولیاتی فائدہ: کم پیکیجنگ، کم ٹرانسپورٹ، اور مقامی استعمال زمین و ماحول کے لیے بہتر ہے۔(۴) ذہنی سکون: اپنے ہاتھوں کی محنت، اپنے کھانے کی ذمہ داری اور ایک با مقصد زندگی ذہنی دباؤ کم کرتے ہیں اور خود اعتمادی بڑھاتے ہیں۔(۵) ثقافتی و سماجی فائدے: روایتی کھانے، ذائقے اور کُھلے کھیتوں کی ثقافت زندہ رہتی ہے — خاندان اور کمیونٹی مضبوط بنتی ہے۔
عمل در آمد — آسان اور حقیقت پسندانہ راستے۔
�چھوٹا آغاز: بالکونی، چھت یا گھر کے پچھواڑے میں چند گملوں میں سبزیاں اگائیں — ہری پیاز، دھنیا، ٹماٹر، مرچیں۔
�پولٹری یا مچھلی: محدود سرمایہ سے گھر کے سرمایے میں مرغی پالنا یا چھوٹی مچھلی فارم شروع کرنا۔
�پراکٹیکل ٹریننگ: مقامی زرعی مشاورتی مراکز یا این جی اوز کی مدد سے سادہ تکنیک سیکھیں—کم پانی والی سبزیاں، کمپوسٹنگ، قدرتی کیڑے مار ادویات۔
�مقامی بازار بنائیں: پڑوسیوں کے ساتھ سبزیاں یا دودھ شیئر کریں؛ کمیونٹی بازار قائم کریں۔
�پروسیسنگ چھوٹے پیمانے پر: خشک مصالہ جات، اچار یا گھریلو جیم/مربا بنا کر فروخت کریں — یہ کم سرمایہ میں اچھی آمدنی دیتے ہیں۔
�آن لائن فروخت: سوشل میڈیا یا مقامی واٹس ایپ گروپس کے ذریعے خود بنے ہوئے صاف اور تازہ پروڈکٹس بیچیں۔نفسیاتی پہلو: جب آپ اپنے کھانے کی کاشت اور پکاؤ کے ذمہ دار بن جاتے ہیں تو روزمرہ کے بوجھ میں فرق آتا ہے۔ ہاتھوں کی محنت سے ذہنی سکون ملتا ہے، اور ہر فصل، ہر پکائی ہوئی ڈش میں ایک چھوٹی کامیابی کا احساس ہوتا ہے — یہ احساس ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے اور زندگی میں امید جگاتا ہے۔
کچھ عملی نکات (مختصر) :سمپل کمپوسٹ بنائیں — گھر کا کچرا کھاد میں بدلیے۔غیر ضروری پیکڈ خوراک کم کریں۔ہفتے میں کم ازکم ایک دن بازار کے بجائے گھر کا کھانا رکھیں۔
پڑوسیوں کے ساتھ شیئرنگ سسٹم بنائیں — ہر گھر کوئی پروڈکٹ اُگائے، تبادلہ ہو۔
نتیجہ — ایک پکار : خود اُگاو، خود پکاو صرف خوراک کا مسئلہ نہیں، یہ خودداری، روزگار، صحت اور خوشی کا ضامن ہے۔ جب ہم اپنی جھولی میں جو کچھ اُگاتے اور پکاتے ہیں تو ہم اپنی آگہی، اپنی طاقت اور اپنی قوم کی صحت کو بحال کرتے ہیں۔ یہ سفر آسان نہیں، مگر چھوٹے قدم، مسلسل ارادہ اور مل جل کر کام کرنے سے ہم اپنی زمین، اپنا پن اور اپنی عزت واپس پا سکتے ہیں۔آخر میں ایک سادہ نعرہ —’’جیسے زمین نے دیا ہے، ویسا ہی کھاؤ، خود اُگاو، خود پکاو — صحت، روزگار اور خودداری پاؤ۔‘‘
[email protected]