محمد امین اللہ
تخلیق آدم سے لیکر تا قیامت تک شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور چہار جانب سے انسان کو خدا سے بغاوت پر آمادہ کرنے کے لئے لالچ ، خوف اور گناہوں کو خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے ۔ جب کوئی شخص اس کے بہکاوے میں آ کر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا ہے جس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انسان اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے تو اس عمل کو خود احتسابی کہتے ہیں اور اللّٰہ کو یہ عمل بہت پسند ہے ۔ دیانت یہ ہے کہ آدمی امانت میں خیانت نہ کرے اور اپنے فرائض منصبی کو شفافیت کے ساتھ ادا کرے ۔ جھوٹ ، مکاری ، سستی ، کاہلی اور بہانے نہ بنائے یہ کام کی اور فرض کی ادائیگی میں شفافیت ہے۔ یہ آدمی کے اوصاف حسنہ ہیں جس سے وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں سرخرو اور کامیاب ہوگا ۔
اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ لوگو تمہارے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جس کو دل کہتے ہیں ،اگر یہ گناہوں سے پاک ہے تو تم دنیا و آخرت میں کامیاب رہو گے ۔آپؐ نے فرمایا ۔ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے اگر وہ صدق دل سے توبہ کرتا ہے تو وہ صاف ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر وہ شخص توبہ بھی نہ کرے اور مسلسل گناہ کرتا رہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس پر نیکی کی کوئی بات اثر نہیں کرتی ۔ وہ گمراہی کے دلدل میں گرتا جاتا ہے اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے ۔دنیا ہر کام میں شفافیت کو پسند کرتی ہے ۔ ملاوٹ کرنا قابلِ سزا جرم ہے ۔ یہ تو قانون فطرت ہے کہ جیسا کروگے ویسا ہی بھروگے ۔ اگر ایک دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے تو اس کو چاول میں کنکر کھانے کو ملے گا ۔ کم تولنے والے کے ساتھ معاشرہ بھی ویسا ہی سلوک کرے گا ۔ حضرت شعیبؑ کی قوم ناپ تول میں ڈنڈی مارتی تھی تو اللّٰہ نے ان پر عذاب نازل کر دیا ۔
خود احتسابی اور حقیقی توبہ انسان کو گناہوں سے پاک کر دیتے ہیں ۔ دور نبویؐ کا مشہور واقع ہے کہ ایک صحابی ماعز بن مالک ؓسے شیطان کے بہکاوے میں آکر ایک لونڈی سے زنا سرزد ہو جاتا ہے مگر جیسے ضمیر کی ملامت پر ہوش آتا ہے وہ خود احتسابی کے جذبے سے سر شار ہوکر اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ اے اللہ کے رسولؐ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے مجھ پر حد جاری کرکے پاک کر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا منہ دوسری جانب کر لیتے ہیں مگر بار بار اعتراف جرم کرنے کے بعد آپؐ ان کو رجم کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ جب سنگ ساری سے ان کی موت ہو جاتی ہے اور لوگ واپس لوٹ رہے تھے تو راستے میں دو صحابی آپس میں یہ تبصرہ کر رہے تھے کہ کیا ضرورت تھی جب کوئی گواہ نہیں تھا تو اعتراف کیا تاکہ لوگ متقی سمجھیں ۔یہ بات اللّٰہ کے رسولؐ نے سنی اور دونوں صحابیوں کو اپنے پاس بلا کر پاس مرے ہوئے مردار گدھے کا گوشت کھانے کو کہا، جب صحابیوں نے کراہت کا اظہار کیا تو آپؐ نے فرمایا ،ابھی ابھی تم لوگ ماعز بن مالک کے بارےمیں جو تبصرے کر رہے تھے، وہ اس مردار کے کھانے کے مترادف ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ماعز بن مالک کی توبہ کو پوری اُمت پر تقسیم کر دیا جائے تو سب کی بخشش ہو جائے۔ ماعز بن مالک اپنی اس حقیقی توبہ کی وجہ سے جنت میں داخل کر دیا گیا ہے ۔( صحیح بخاری۔ 6820،صحیح مسلم حدیث الحدود ۔ 1696،سنن ابو داؤد ۔ 4428)
خود احتسابی کے بغیر سچی توبہ ممکن نہیں ۔ مومن کے تقویٰ کا دار و مدار خود احتسابی کے بغیر ممکن نہیں ۔اللّٰہ کے رسولؐ دن میں سو سو بار استغفار کیا کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے پوچھا، اے اللّٰہ کے رسولؐ! آپ تو عن الخطا ہیں، آپ اتنا استغفار کیوں کرتے ہیں تو آپ ؐ نے فرمایا، کیا میں اپنے رب کا شکر ادا نہ کروں ۔ استغفار دراصل اپنے رب کے سامنے اپنی کم مائیگی اور مجبور ہونے کا اعتراف ہے ۔ توبہ اور استغفار انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے ۔خود احتسابی ،دیانت کی شفافیت یہ وہ انسانی اوصاف ہیں جو زندہ ضمیر انسان کی پہچان ہے ۔ جب تک فکر آخرت اور دل میں خوف خدا نہ ہوں اور روز محشر میں پرشش اعمال کا ڈر نہ ہو، یہ اوصاف پیدا ہو ہی نہیں سکتے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ’’ریت کے ذرے کے برابر نیکی اور ریت کے ذرے کے برابر گناہ کا حساب لیا جائے گا ۔‘‘( سورہ زلزال )
انسان کی فطرت ہے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا ہے، اگر وہ اس کی آواز پر لبیک کہتا ہے تو وہ خود احتسابی کرتاہے اور توبہ استغفار کر کے اپنے رب
سے معافی مانگتا ہے ۔ پھر جو کام بھی کرتا ہے دیانت اور ایمانداری سے کرتا ہے ۔ اللّٰہ کے رسول ؐ نے فرمایا، ’’ایک مسلمان سے ہر طرح کا گناہ سر زد ہو سکتا ہے مگر وہ جھوٹا اور خائین نہیں ہوتا ۔‘‘ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام اوصاف ہم سے دور ہو چکے ہیں ۔
جب خود احتسابی کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو دل سے خوف خدا ختم ہو جاتا ہے اور آدمی اپنے نفس کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے ۔دنیا کی چمک نفس کو اُبھارتی ہے اور آدمی آرزوؤں کے جنگل میں گم ہو کر آخرت کو بھول جاتا ہے ۔ لہٰذا جس نے بھی اپنے نفس کی پیروی کی وہ گمراہ ہو گیا ۔سورۃ الناس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’ اے اللّٰہ! شر اور وسوسوں سے اپنی پناہ میں لے لے ۔ وہ وسوسے جو خناس کی صورت میں ہے جو انسان اورجِن ڈالتے ہیں ۔
آدم و حوا علیہ السلام ، حضرت یونسؑ کے توبے ہر مسلمان کے لئے اعلیٰ ترین مثالیں ہیں ۔ بخشش اور خوشنودئ رب کے ذرائع ہیں ۔ یونسؑ کی قوم نے جب اجتماعی توبہ کی تو اللّٰہ نے اپنا عذاب ٹال دیا ۔ مگر جب صالح علیہ السلام کی قوم اسرار جرم پر قائم رہی تو اللّٰہ نے سب کو ہلاک کر دیا ۔ گناہ گار اعتراف جرم کرتا ہے مگر گمراہ اسرار جرم کرتا ہے اور پھر ابلیس بن کر لعنتی ہو جاتا ہے ۔ اصحابِ سبت گناہوں پر ڈٹے رہے اور اللّٰہ کو دھوکا دینے کے سبب بندر اور سور بنا دیئے گئے ۔
اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی توبہ کا سب سے زیادہ انتظار رہتا ہے ۔ نیکی کو تو فرشتے فوراًلکھ لیتے ہیں مگر گناہ کو اس وقت تک نہیں لکھتے جب تک بندہ سونے سے پہلے اگر توبہ نہیں کرتا ہے، پھر فرشتے اس کے نامہ اعمال میں لکھتے ۔ندامت کے آنسوں کے بدلے گناہ دُھل جاتے ہیں ۔ اللّٰہ کے رسولؐ نے فرمایا، اللّٰہ کو دو قطرے پسند ہیں خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جائے دوسرا ندامت کے آنسوؤں کا قطرہ ۔ہم جب ایک انگلی کسی کی جانب اٹھاتے ہیں تو چار انگلیاں اپنی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ دوسروں کی آنکھ کا بمبو تو نظر آتا ہے مگر اپنی آنکھ کا تنکا کیوں نظر نہیں آتا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے ۔
آج کے دور جدید میں ترقی یافتہ ممالک کے حکمران جب کسی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور قوم ان کا محاسبہ کرتی ہے تو وہ اعتراف جرم کرکے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر یہ کردار ہندوستان ، پاکستان اور بنگلادیش میں قطعی نظر نہیں آتا ۔یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں عوام بھی بے خوف ہوکر جرائم کا ارتکاب کرتی ہے اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکمرانوں کے جرائم کا حوالہ دے کر خود کو بے گناہ ثابت کر تی ہے ۔ اس کے علاوہ اگر ریاست خود اپنی سرپرستی میں جرائم کے فروغ کا راستہ ہموار کرے تو عدالتیں بھی مجرموں کو سزا دینے میں ناکام ہو جاتی ہیں ۔