ماجد مجید
نیلگوں آسمان پر سر مئی بادل لہرا رہے تھے۔ برسات کا بھیگا بھیگا موسم تھا اور بارش دھرتی کے جگر کو سیراب کر کے اب تھم چکی تھی ۔ موسم چہار جانب چھائے ہوئے دھند لکے میں انتہائی رنگین اور دلکش نظر آرہا تھا۔ ندی نالوں میں پانی کا بہاو بڑھ گیا تھا اور دریاوں نے طغیانی کی سی صورت اختیار کی تھی۔
دور دریا کنارے عمران اپنے دوست کے ساتھ چہل قدمی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر کا انتظار تھا۔ اِکا دُکا مسافر یا تو اپنے گھر کی طرف گامزن تھا یا سبزے کی لہلہاہٹ اور خوشگوار موسم سے محظوظ ہورہا تھا۔
عمران اور اشفاق دریا کنارے اپنے مسکن سے بہت دور تک نکل گئے تھے کہ غیر ارادی طور اشفاق کی نظر جوں ہی دریا کے بہاو کی طرف اٹھ گئی تو دھنگ رہ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کوئی اجنبی دریا میں ڈوب رہا ہے۔
ـ’’ارے ارے۔ ڈوبا ڈوبا۔ وہ دیکھو‘‘ اشفاق کی زبان سے بے ساختہ نکلا ’’کون؟‘‘ عمران نے پوچھا اور اشفاق نے دریا کی طرف اشارہ کیا اور ہاتھ بڑھا کر ڈوبتے شخص کی طرف عمران کو متوجہ کیا۔
اجنبی شخص پانی کے بہاو کے ساتھ دور دور تک ہچکولے کھاتا رہا۔ عمران نے نہ آو دیکھا نہ تاو بلا دھڑک دریا میں کود پڑا اور ہچکولے پر ہچکو لا کھاتا اجنبی کے قریب پہونچا۔
عمران اگر چہ تعلیم میں ہمیشہ سست رہا تاہم تیرنے میں ایک ماہر تجربہ کار تھا۔ کئی قومی اور بین الاقوامی کھیلوں میں اپنا لوہا منوا چکا تھا۔
اجنبی عمران کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اور قریب آنے سے حتی المقدور منع کرنے لگا۔ عمران سمجھا کہ مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ اتنے میں اشفاق بھی دوڑتے دوڑتے کنارے کی دوسری طرف پہونچا اور دونوں نے بڑی مشکل سے اجنبی کو گھیرے میں لے لیا۔
’’ہٹو ! مجھے ڈوبنے دو‘‘ اجنبی نے کرخت لہجے میں کہا۔ عمران اور اشفاق سنی اَن سنی میں اسے کنارے پر لے آئے اور اجنبی کی غیر معمولی صورت دیکھ کر دونوں اچھنبے میں آگئے۔ ’’آج تک ایسی کوئی صورت میں نے نہیں دیکھی‘‘ عمران اشفاق سے سرگوشی کرنے لگا۔
’’بے چارے پر کیا افتاد پڑی ہے کہ زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے‘‘ اشفاق نے زیر لب کہا۔
تھوڑی دیر سکوت چھایا رہا پھر عمران اچانک بولا۔
’’بھلا۔ کیوں ڈوبنا چاہتے ہو؟ کون ہو تم؟ کہاں سے آئے ہو؟ عمران نے ایک ہی لہجے میں پوچھا۔
اجنبی ان کی طرف حقارت سے دیکھنے لگا اور اپنا منہ بنایا ماتھا شکن آلود ہوا جیسے عمران اور اشفاق نے ہی اس کا سب کچھ لوٹ لیاہو، کئی لمحے خاموشی میں گزرگئے پھر اشفاق بولا۔
’’ہم سے کوئی بھول یا خطا ہوئی‘‘؟ اشفاق نے سوالیہ طور کہا
’’اے نادانو ! مجھے کیوں ڈوبنے سے بچایا‘‘ اجنبی بول پڑا۔
عمران اشفاق اجنبی کی بات سن کر سکتے میں آگئے کہ کیا بول رہا ہے۔ جان بچانے کا خوب صلہ کہ ہم پر ہی برس پڑا۔ دونوں کا ناپھوسی کرنے لگے۔
شاید ایسی کوئی بڑی افتاد بے چارے پر پڑی ہے۔ تبھی اوٹ پٹانگ بول رہا ہے اور زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ذرا دم سنبھالیں ۔ پھر پوچھیں، دونوں نے تہیہ کرلیا۔
کئی لمحے خاموشی میں گزرگئے اس دوران دونوں نے اجنبی کا سراپا جائزہ لیا مگر کسی نتیجے پر نہ پہونچے ۔ بالآخر عمران بولنے لگا۔
’’اس قدر اُکتاگئے ہو زندگی سے ؟‘‘ عمران کا نرم لہجہ اجنبی کو پانی پانی کرگیا
’’سنو ۔ نیک اور صالح لگتے ہو۔ بہتر ہے کہ میرے منہ نہ لگو‘‘
اجنبی کا میانہ رویہ محسوس کر کے دونوں ایک ساتھ بولے
’’ہم تذبذب کا شکار ہوگئے تمہارے ڈوبنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ممکن ہے کہ ہم آپ کے مدد گار بنیں‘‘
’’مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں میں سب کچھ آج تک خود کرتا آیا ہوں
تو پھر ڈوبنے کی وجہ؟ عمران بولا
’’چھوڑ۔ میری داستان بہت پرانی ہے۔ سن کر کیا کرو گے۔
’’اپنی داستان بیان کرنے سے آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا‘‘ عمران نے جواب میں کہا
’’ہاں۔ تم ٹھیک کہتے ہو‘‘ اجنبی نے کہا اور اپنی داستان یوں سنانے لگا۔
سنو میری داستان’’میں ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا ہر طرف میری حوصلہ افزائی ہورہی تھی دربار میں ہر کوئی مجھ سے متاثر تھا اور اس سے بھی اونچے درجے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ خود بادشاہ بھی میرے کام سے خوش رہتا تھا اور مجھے ایک کے بعد دوسرا درجہ دیتا رہا۔ ہر طرف میری ہاہاکار گونجنے لگی۔
پھر ایک بار ایسا ہوا ایک خوبصورت انسانی جوڑا بادشاہ کے باغ میں کہیں سے گھس آیا تھا بادشاہ اپنے دریچے سے دونوں کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا بادشاہ کے سارے درباری بادشاہ کے حکم سے اس انسانی جوڑے کے سامنے سرجھکائے تھے۔ یہ سب کچھ مجھے ایک آنکھ بھی نہ بھایا کہ بادشاہ کے سارے درباری ایک معمولی جوڑے کے سامنے احترامًا سرجھکائے ہیں۔ اسی دوران بادشاہ نے مجھے دیکھا اور مجھے بھی ایسا کرنے کو کہا لیکن میں نے انکار کیا کہ مجھ جیسا ایک اعلیٰ عہدے دار اس معمولی جوڑے کو آنکھوں پر بٹھائے گا۔ یہ ناممکن ہے۔ بادشاہ میرے انکار پر آگ بگولہ ہوگیا اور مجھے دربار سے فوراً نکل جانے کو کہا۔ میری انکساری پر غرور غالب آگیا اور دربار میں با آواز بلند کہا اس معمولی انسانی جوڑے کو تو نے مجھ پر فوقیت دے دی۔ اے بادشاہ مجھے تیری عزت کی قسم میں اس انسانی جوڑے اور اس کی پورے نسل کو برباد کرکے رکھ دوں گا۔آپ کے اس باغ میں عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے برعکس اسے وہاں سے نکلوا دوں گا تاکہ در بدر کی ٹھوکر یں کھاسکے۔ اس کے ذہن سے تیری یاد فراموش کر کے رہوںگا۔
بادشاہ نے بھی جوابًا کہا دفعہ ہوجاو جو چاہو کرو۔ لیکن تم کو میری رعیت پر کوئی زور نہیں چلے گا۔ یہ میرا دعدہ ہے بادشاہ نے کہا اور مجھے اپنے دربار سے ذلیل کر کے نکالا۔
تب سے میں اس انسانی جوڑے اور اس کی پورے نسل کو برباد کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہوں۔ لیکن۔۔۔۔ اجنبی نے ایک سرد آہ بھری تو خاموش ہوگیا۔ کئی لمحے بیت گئے اجنبی چپ سادھ لئے بیٹھا ہے ۔ عمران اور اشفاق اس کی پوری داستان سننے کے لئے بے چین ہوگئے۔ جب تڑپ زیادہ بڑھ گئی تو اشفاق سے نہ رہا گیا بول پڑا لیکن۔
پھر کیا ہوا؟
اجنبی نے دونوں کی طرف دیکھا تو کہنے لگا ‘‘جس قدر میں نے سوچا تھا کہ انسانی جوڑے اور اس کے اولاد کو سبز باغ دکھا کر تباہ و برباد کردوں گا۔ یہ انسانی جوڑے کی اولاد اس سے کہیں زیادہ تباہی اور بربادی کی طرف بڑھنے لگی، خلاف تو قع میں نے نہیں چاہا تھا کہ ان کی یہ اولاد اس قدر ذلیل و خوار ہوجائے۔ ان کے کار کرتوت دیکھ کر میں پسینے پسینے ہوگیا ہوں۔ مجھے ان سے ایسی امید نہیں تھی۔ انسان کی یہ اولاد خوامخواہ مجھے بدنام کر رہی ہے اور مجھے کہیں کانہیں رکھ چھوڑا مجھے بدنام زمانہ بنایا۔ خود یہ ایسے گندے اور برے حرکات انجام دے رہے ہیں کہ شرمندگی سے میرا سرجھکا رہتا ہے لیکن یہ الزام مجھے دے دیتے ہیں۔ ان کی ایسی گندی گندی حرکتیں دیکھ کر میں شرمندہ ہورہا ہوں۔یہ انسان مجھ سے بھی بڑا چاپلوس نکلا۔ پھر بھی الزام مجھ پر آرہا ہے۔ اب میں نے ان کی حرکتیں دیکھ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا تو تم لوگ آگئے اور مجھے بچایا۔ لگتا ہے کہ ابھی میرا کھیل باقی رہ گیا ہے۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ۔ یہ کہہ کر اجنبی چپ ہوگیا۔
’’اچھا ۔ لیکن آپ نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتایا‘‘ عمران نے کہا تو اجنبی بولا
’’تم نے میرے بہت سارے نام رکھے ہیں
’’ہم نے !‘‘ عمران چونک پڑا‘‘۔ جی ہاں ۔ لیکن میرے کئی اصلی نام بھی ہیں‘‘ اجنبی بولا
’’وہ کیا ہیں؟ ‘‘ عمران اشفاق ایک ساتھ بولے
تو اجنبی یوں گویا ہوا
‘‘عزازیل، ابلیس، شیطان‘‘ اجنبی کہتے کہتے عمران اور اشفاق کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
���
کشمیر یونیورسٹی، حضرتبل سرینگر