Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

خودکشی۔بیمار ذہنیت کا شاخسانہ حال واحوال

Towseef
Last updated: July 25, 2024 11:31 pm
Towseef
Share
16 Min Read
SHARE

بشارت بشیرؔ

قوت برداشت میں کمی اور خواہشات کی عدم تکمیل کے باعث بہت سارے لوگ کہیں شدید مایوسی کا شکار ہوکرکاروان زندگی سے الگ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ اس حد تک دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں کہ حیات مستعار کا چراغ اپنے ہی ہاتھوں گل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ اطلاعا ت کے مطابق گذشتہ چار برسوں کے دوران ایسے 1000سے زیادہ مردوزن نے زیست سے بے زار ہوکر اپنی حیات کی گھڑی کو روک دیا ہے۔ اس طرح سے جہاں ایک طرف وہ اپنی جان عزیز سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں وہاں وہ معاشرے کو بھی ناقابل برداشت کرب دے کر چلے گئے۔ یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ اس کا ر گہہ ہستی میں خوشیوں نے کسی کی دہلیز پر رہنے کی نہ تو قسم کھائی ہے نہ غموں نے کسی گھر میں صدا ڈھیرا ڈالنے کا عہد کیا ہوا ہےبلکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اس دنیا میںاپنے اعلیٰ وارفع مقاصد کے حصول کیلئے ایک انسان کو ہمیشہ برسر جدوجہد رہنے کا درس ہی یہ زندگی فراہم کرتی ہے۔یہ سود وزیاں کے اندیشے سے برتر ہے۔ کبھی جاں ہے اور کبھی تسلیم جاں ۔ جاوداںبھی ہے اور ہر دم جوان بھی ہے ۔انسان کی اگر اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کافی کاوشوں کے بعد بھی نہیں ہوتی تو کسی اور اچھے میدان کا انتخاب کرکے اپنی توجہ اُس جانب مبذول کرکے اُس کام میں جٹ جانے کا درس ہی تو یہ زندگی میسر رکھتی ہے۔مایوسی اور نااُمیدی حوصلوں کو توڑ دیتی ہے، انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے، بکھر کے رہ جاتا ہے۔ اصل میں زندگی جہد وعمل کا تقاضا کرتی ہے اور اسکے لئے مضبوط قوت ارادی اور رب جلیل سے مدد ونصرت کا طالب رہنے کی ہر دم ضرورت رہتی ہے۔ترقی کے ایک زینہ سے گرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ بس اب ہر کام سے دست کش ہوا جائے، بلکہ کاوشیں اور عزم جواں ہو تو کامیابی قدم بوسی کرلیتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ سماج کا وطیرہ اور کسی شخص کے تئیں اُس کا طرز عمل اُسی یاس ونااُمید کی دہلیز پر کھڑا کردیتا ہے۔ لیکن اُس کے ذہن نشیں یہ بات رہے کہ نقاش فطرت نے اُسے جو سوچنے کو ذہن رسا اور جہدوعمل کیلئے ہاتھ پائوں دیئے ہیں ،اُنہیں بروئے کار لا کر یقیناًکامیابی کا راستہ ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ بہت سارے لوگ معاشرتی اور سماجی وطیرہ سے دلبرداشتہ ہوکے ڈیپریشن (Depression)کے شکار اب زندگی کے حاشئے پر بیٹھ گئے ہیں ۔ان حالات میںبس ذکر الٰہی اور نبوی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی انسان سکون کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔یہ بات جدید طب بھی تسلیم کرچکی ہے کہ ہموم وغموم کی گھٹائوں میں دین ومذہب کا دامن تھامے رہنے اور ذکر ربانی کے آب بقا ء سے اپنے دنیائے دل کو سیراب کرنے سے ہی سکون پایاجاسکتا ہے۔ خودکشیوں اور خود سوزی کے اس عمل میں کوئی کسی تیز دھار والے آلہ کا استعمال کرکے اُس دنیا میں پہنچ جاتا ہے تو کوئی نشہ آور ادویات کے بے دریغ استعمال سے اپنا خاتمہ کردیتا ہے جس کا اُسے کوئی اختیار نہیں۔ کوئی کسی پل سے چھلانگ لگا کر دریا میں ڈوبتے ہوئے بظاہر غم دنیا سے آزاد ہونے کا کام کرتا ہے اور کسی کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کی زندگی کی ڈوری کٹی تو کٹی کیسے، وجوہات مختلف ہیں ۔کوئی امتحان میںنامراد ہوتا ہے، تو گھروالوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور اپنے حلقہ احباب کے متوقع طعنہ زنیوں سے بچنے کیلئے ایسا کرتا ہےتو کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اس حد تک مایوسی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے کہ اس انتہائی اقدام کے سوا اُسے اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔یہ بات سو فیصد درست اور صحیح کہ ہمارے یہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی بھی حکومت یا ادارہ سنجیدہ نہیں اور اگر کبھی کبھار کہیں بھرتی کا عمل ہوتا بھی ہے تو شفافیت ہاتھ میںچراغ لئے بھی نظر نہیں آتی اور جب نوکریاں اور منصب دھن دولت کے ترازو میںتولنے کا عمل زوروں پر ہو اور مختلف اسکینڈلوں کا اس حوالے سے طشت ازبام ہونا اس کا منہ بولتا ثبوت بھی ہو۔ ان حالات میں بے وسیلہ اور بے یارو ومددگار نوجوان بس جمائیاں لیتے اورسرد آہ بھرتے ہی نظر آتے ہیں۔اُن کے بوڑھے والدین اور اُن کی وہ بہنیں، جن کے ہاتھ مہندی کو ترستے ہوں وہ بھی نوحہ کنا ں ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایک پورا کنبہ دل کے روگوں اور ذہنی تکالیف میںمبتلا نظر آتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی عرض کرتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کی اِس بڑھتی تعداد میں آپ کے اپنے یہاں خواتین بھی خاص اور نمایاں نظر آنے لگی ہیں ، مختلف انداز میں اپنی زندگی کا چراغ گُل کرنے والی اِن خواتین نے خودکشی کے مختلف طریقے استعمال کئے اور حالیہ دِنوں مختلف پلوں سے اُنہوں نے چھلانگیں لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی کاوشیں کیں ، کسی کو راہ چلتے لوگوں نے بچایا اور کوئی شاید ایسا کام تمام کرگئی، لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اللہ کی یہ نازک مخلوق کیوں اِس قدر انتہائی اقدام اُٹھانے پر راضی اور تیار ہوتی ہے۔ اکثر یہ واقعات گھریلو تنازعات اور باہمی مناقشات سے جنم لیتے ہیں جب گھر یا خاندان کا کوئی بڑا فہم و فراست سے انہیں سلجھانے کے لئے آگے نہیں آتا، کہیں معاملہ اَنّاکا بن جاتا ہے اور کہیں خاوند و بیوی کی چپقلش ، بدگمانیاں، غلط فہمیاں اور شکوک اس انتہائی اقدام پر منتج ہوجاتے ہیں، گو کچھ رپورٹس میں غربت و پسماندگی کو بھی خودکشی کی وجوہات میں یہاں شامل بتایا گیا۔ لیکن اکثر ایسا نہیں بلکہ گھریلوں تنازعات، ساس بہو کے جھگڑے ، خاوند بیوی میں فکری یگانگت و مزاج میں یکسانیت کا فقدان بھی پریشان کن ثابت ہوتا ہے ۔ماہرین نفسیات کا اس تعلق سے جہاں یہ کہنا ہے کہ سماجی طور کوئی مددنہ ملنے کی باعث بھی خود کشیاںہوتی ہیں۔ انتہائی مایوسی کی حالات میں سنگین نوعیت کا یہ اقدام اٹھایا جاتا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے زمانے میں بھی سماج کو مختلف النوع مسائل کا سامنا تھا لیکن مشکلات کو سہنے اور یہ امید کہ اندھیروں میں ہی اُجالے پنہاں ہوتے ہیں ،اللہ پر کامل اعتماد بڑے بزرگوں کی نصائح اور ہمت وحوصلہ سے کام لینے کا ہر گھر میں دیا جانے والا درس اِن واقعات کو رونما ہونے سے روک لیتا تھا۔ ماہرین نفسیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی کے وقت لڑکے اور لڑکی کی ذہنی اور تعلیمی مطابقت کا بھی اکثر مقامات پر خیال نہیں رکھا جاتا۔ کیونکہ وہ صرف ’’اچھے‘‘ رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ ’’اچھا‘‘ ہے اُن کا مقصد معاشی لحاظ سے اچھا ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ رشتوں کے قیام کے لئے بہت سے مزید پہلو بھی ہیں جنہیں دیکھنا لازم ہوتا ہے تاکہ میاں بیوی کی گاڑی ٹریک پر قائم رہ سکے۔ یہ بات جیسا کہ عرض کرچکا کہ خود کشی کرنے والا بزعم خود حالات کی سنگینوں سے نجات پالیتا ہے لیکن کس قدر اس کی موت اُس کے لئے اور اس کے اپنوں کے لئے پریشان کن ہوتی ہے، بیان سے باہر ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے بھی ایک کے بعد دوسری بچی نے شہر کے ایک معروف پل سے کود کر جہلم میں چھلانگ لگائی تو ہاہا کار مچ گئی۔ آہ وبکا کی صدائیں ابھی تک سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں۔شاید ایک کو بچایا بھی گیا،لیکن کیا اُن کا یہ انتہائی اقدام اُس مسئلے کا حل ہے جس وجہ سے وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے۔قطعی نہیں!بلکہ کئی ایسے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جو ہر درجہ سوہان روح بن کے رہ جاتے ہیں اور متعلقین سارے زندگی خون کے آنسو روتے رہتے ہیں۔
یہ بات درست کہ حالات کبھی ناقابل برداشت بن جاتے ہیں لیکن آخر برداشت اور صبر پھر کس چیز کا نام ہے۔ ثبات و صبر، اللہ کی رحمت سے آس لگائے رہنا یہ اُمید قائم رکھنا کہ مشکلات کا حل ضرور نکل آئے گا، اللہ کا تسلسل کے ساتھ ذکر ، بزرگوں اور جہاں دیدہ لوگوں کے سامنے مسائل رکھنا، اُن سے مشاورت طلب کرنا سب سے بڑھ کر قرآن و سنت کے آفاقی پیغام سے مستفید ہونا یہی اعمال مایوسی اور افسردگی کے عالم میں جینے کا سہارہ بن جاتے ہیں ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ جان ہماری ہے نہ جسم ہماری ملکیت ، اس لئے اسے کوئی گزند پہنچانے کا بھی اختیار ہمارے ہاتھ میں نہیں، اس جان کے خالق نے اپنی آفاقی کتاب میں اپنے کو مارنے قتل کرنے اور ہلاک کرنے سے کامل طور منع فرمایا ہے اور اس کے آخری رسول ؐ نے خود کشی کے اس عمل کو نہ صرف قطعی حرام کہا ہے بلکہ اس کے بھیانک اخری انجام سے بھی آگاہ فرمایا ہے ۔ضرورت ہے کہ سیول سوسائٹی معاشرے کے زندہ دل اور زندہ ضمیر لوگ، والدین، صحافی، علماء اور دانشور حضرات اس تعلق سے اپنا کردار نبھائیں۔
نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری اور پھر نوکریوں وغیرہ میں مبینہ طور حق تلفی کے عمل نے بھی مسائل کے انبار کھڑے کردئیے ہیں۔ اس لئے قوم و ملت کے حساس ، درد مند اور صاحبانِ اثر لوگ بھرتیوں اور نوکریوں کے عمل میں شفافیت لانے کیلئے متعلق اداروں کو اپنی زبان اور زور قلم سے آمادہ کریں تاکہ حق بہ حقدار رسد کا مقولہ سرچڑھ کر بولے۔ قابل ، ذہین اور محنتی طلباء اپنی محنت شاقہ کا پھل پائیں۔جہد وعمل جاری رہے تو کون سا عقدہ ہے جو وا نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ ہوگا ضرور اگر ہماری مساعی جاری رہیں لیکن جب تک ایسا ہو ہمارا یہ انمول سرمایہ یعنی یہ نوجوان بھی دل ہار کے نہ بیٹھیں ، واقعی وہ اعلیٰ مناصب کے اہل اور حقدار ہیں۔ لیکن اگر مطلوبہ مقام ومرتبہ یا متعینہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ تو ’’ملک خدا تنگ نیست ‘‘ کے مصداق بس کیا ان حکام کے دروازوں کے بغیر اور کوئی دروازہ نہیں۔وہ خدا کی دہلیز پہ آئیں قدموںمیںثبات اور دلوں میں عزم بالجزم ہو ۔ زندگی کے دوسرے میدانوں میں طبع آزمائی کریں ۔لاریب بفضل اللہ ان کی ذہانت اور اُن کا ٹیلنٹ اُنہیں ترقیوں کے بام عروج پر پہنچاکے ہی رہے گا۔ آج ایک ہی نہیں بہتیرے شعبہ ہیں۔ جن میں اُن کا نام چار چاند لگ سکتا ہے۔اُن کے ذہن نشیں یہ بات بھی رہے کہ وہ خواب ضرور دیکھیں کہ خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں۔ لیکن جس زندگی کے وہ خواب دیکھ لیں وہ خواب اعتدال اور میانہ روی سے عبارت ہوں۔ بے قید زندگی جینے والے بہت سارے ایسے لوگوں کے اندروں میں جھانکئے تو سکون عنقا اور اطمینان سے محروم نظر آئیں گے۔آپ دنیا کے اُن بہت سارے مشاہیر کی کتاب زندگی کو کھول کر دیکھئے جن کی عظمتوں کا لوہا چہار دانگ عالم مان چکا ہے۔اُنہیں کئی کئی دنوں کے بعد نان شبینہ ملا کرتا تھا اور روکھی سوکھی کھا کر اپنی منزل کی جانب گامزن تھے۔ نتیجتاً آج اُن کے اقوال اور افعال پر کتابوں کی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ وہ عزم وہمت کے دھنی تھے، ارادے کے پختہ اور استقامت کے پہاڑ۔ان کی تاریخ سے سبق حاصل کیجئے اور جھپٹ کر پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا گرسیکھ کر اپنے جائز مقاصد کے حصول کیلئے رُکے تھکے بغیر برسر جدوجہد رہیے ،تو کامرانی دروازے پر صدا دینے آئے گی۔
کچھ بچے اِس لئے بھی جاں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ مطلوبہ جگہ پر اُن کی شادی نہیں ہوتی یہ بھی افسوس ناک عمل ہے ۔ انسانی نسل کی بقاء کیلئے شادیاں لازمی ہیں لیکن اخلاقی اور اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو اس کیلئے سنجیدہ ذہن اور بالغ نظری درکار ہوا کرتی ہے۔ بزرگوں اور تجربہ کار لوگوں کی مشاور ت سے کئے جانے والے کام اچھے انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔ لڑکپن کے فیصلے تو جذباتی ہوا کرتے ہیں جو بس دلکش آرزوئوں اور حسین ارمانوں کے شیش محلات میں دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن پھر جب زندگی اپنی اصل شکل میں سامنے جاتی ہے تو خواب وخیالات کی اینٹوں پر قائم یہ محلات دھڑام سے گرجاتے ہیں۔بہرحال ان سطور کو یوں سمیٹتے ہیں کہ نفس کشی بہر صورت حرام ہے اور اللہ تعالیٰ سے لو لگا کر اور دل میں بس اُس کی یاد کو بساتے ہوئے انسان پیکر عزم وارادہ بنے تو کون سی مشکل ہے جو حل نہ ہو۔ خودکشی اور خودسوزی حل نہیں بلکہ ایک لامتناہی بحران کو جنم دینے والا عمل ہے اوراس عمل سے بے شمار دکھ اور ان گنت مسائل ومصائب ہی جنم لیتے ہیں، جو پھر اس انسانی معاشرے کو سہنے اور جوجھنے پڑتے ہیں۔جہد وعمل کو شعار بنائے تو ہر جائز مقصد پورا ہوکے رہے گا۔
(رابطہ۔7006055300)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں-سرینگر قومی شاہراہ پرادھمپورکے سمرولی میں پتھر گر آنے کے باعث ٹریفک متاثر
تازہ ترین
رکشا بندھن پر جموں کا آسمان بنا رنگوں کا میلہ چھتوں پر پتنگوں کی جنگ، بازاروں میں خوشیوں کی گونج
جموں
بانہال میں چھوٹی مسافر گاڑیوںاور ای رکشاوالوں کے مابین ٹھن گئی الیکٹرک آٹو کو کسی ضابطے کے تحت صرف قصبہ میں چلانے کی حکام سے اپیل
خطہ چناب
جموں و کشمیر کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک بنانے کی ذمہ داری ہر شہری پر عائد ہے | کچھ عناصر ٹی آر ایف کی زبان بولتے ہیں پولیس اور سیکورٹی فورسز امن کو یقینی بنانے اور ایسے عناصر کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کیلئے پُرعزم:ایل جی
جموں

Related

کالممضامین

افسانوی مجموعہ’’تسکین دل‘‘ کا مطالعہ چند تاثرات

July 18, 2025
کالممضامین

’’تذکرہ‘‘ — ایک فراموش شدہ علمی اور فکری معجزہ تبصرہ

July 18, 2025
کالممضامین

نظموں کا مجموعہ ’’امن کی تلاش میں‘‘ اجمالی جائزہ

July 18, 2025
کالممضامین

حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں ؟ ہمارا معاشرہ

July 18, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?