سرینگر// انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) منیر احمد خان نے جنگجوؤں کو ہتھیار چھوڑ کر دوبارہ عام زندگی گذر بسر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وادی میں گذشتہ تین دنوں کے دوران 3 مقامی جنگجوؤں اور ایک بالائی زمین ورکر کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیاں اپنے اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہیں کہ خودسپردگی اختیار کرنے والے کشمیری جنگجوؤں کی بازآبادکاری کی جائے گی۔وہ چاہیں تو مسلح جھڑپوں کے دوران بھی خودسپردگی اختیار کر سکتے ہیں۔ کشمیر پولیس سربراہ نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیکورٹی ایجنسیاں مقامی نوجوانوں کی جنگجوؤں کی صفوں میں بھرتی کو روکنے کے لئے اعلیٰ جنگجو کمانڈروں کونشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ’متواتر کامیاب آپریشنوں کی بدولت کشمیر میں سرگرم جنگجوؤں کی تعداد میں خاصی کمی آئی ہے، لیکن ہمارا مقصد جنگجوؤں کی صفوں میں بھرتی کے عمل کو روکنا ہے‘۔ انہوں نے کہا ’ہم چاہتے ہیں کہ جنگجوؤں کی صفوں میں مزید کوئی بھرتی نہ ہو‘۔منیر خان نے کہا کہ شمالی، جنوبی اور وسطی کشمیر کے مضافاتی علاقوں میں جیش محمد سے وابستہ دو سے تین جنگجو سرگرم ہیں، ہم انہیں ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کررہے ہیں‘۔صوبائی پولیس چیف نے مزید کہا کہ سری نگر کے مضافاتی علاقوں میں تین سے چار جنگجو سرگرم ہیں جن کو ڈھونڈ نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی کشمیر میں گذشتہ ہفتے ہونے والی دو بینک ڈکیتیوں میں حزب المجاہدین ملوث ہے اور ریاستی پولیس کے پاس یہ ثابت کرنے کے لئے سی سی ٹی وی فوٹیج ہے۔ انہوں نے گرفتاریوں کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا ’14 اکتوبر کو دو جنگجوؤں نے جنوبی کشمیر کے قاضی گنڈ میں پولیس اہلکاروں سے ان کے ہتھیار چھیننے کے لئے ہوائی فائرنگ کی تاکہ پولیس اہلکاروں اور مقامی لوگوں کو ڈرایا جاسکے۔ لیکن مقامی لوگوں نے شور مچایا جس کی وجہ سے جنگجوؤں کو پیچھے ہٹنا پڑا‘۔ آئی جی پی نے کہا ’یہ اطلاع ملنے پر فوج، پولیس اور سی آر پی ایف نے ایک مشترکہ چیک پوائنٹ قائم کیا۔ اس چیک پوائنٹ پر موٹر سائیکل پر سوار دونوں جنگجوؤں کو گرفتار کیا گیا‘۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار شدہ جنگجوؤں کے قبضے سے ایک پستول، گولہ بارود اور ایک گرینیڈ برآمد کیا گیا۔ انہوں نے کہا ’دونوں کی شناخت لشکر طیبہ کے خورشید احمد ڈار اور ہازق راتھر کے بطور کی گئی‘۔ آئی جی پی نے کہا کہ ضلع پلوامہ کے نارستان ترال میں جنگجوؤں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر تلاشی آپریشن شروع کیا گیا۔ تلاشی آپریشن کے دوران جیش محمد سے وابستہ جنگجو گلزار احمد ڈار کو اسلحہ و گولہ بارود سمیت گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈار نے ہی 21 ستمبر کو ترال میں ریاستی وزیر نعیم اختر کے قافلے کو نشانہ بناکر گرینیڈ پھینکا تھا۔ اس حملے میں تین عام شہری ہلاک جبکہ 7 سی آر پی ایف اہلکاروں کے سمیت 29 دیگر افراد زخمی ہوگئے تھے۔ آئی جی پی نے کہا ’ڈار نے تفتیش کے دوران اقرار کیا ہے کہ اسی نے وزیر کے قافلے کو نشانہ بناکر گرینیڈ پھینکا تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ اسی جنگجو نے 5 دسمبر 2014 ء کو ترال بس اسٹینڈ میں گرینیڈ پھینکا تھا جس کے نتیجے میں پانچ لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ منیر خان نے کہا کہ جنگجوؤں نے ہفتہ کی شام ضلع کولگام کے نندی مرگ میں پولیس کی ایک پارٹی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں خورشید احمد نامی پولیس اہلکار ہلاک جبکہ دو دیگر زخمی ہوگئے۔ انہوں نے کہا ’تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ حملہ حزب المجاہدین نے انجام دیا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایچ ایم کے بالائی زمین ورکر رمیز ایتو جو ایک میڈیکل ایجنسی چلا رہا ہے، نے جنگجوؤں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کیا تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ ایتو کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے گھر سے اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ ادھر منیر احمد خان نے کہا ہے کہ گیسو تراشی معمہ کو حل کرنے کیلئے متاثرہ خواتین کا سائنسی بنیادوں پر طبی معائینہ کرایا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ نمونے حاصل کرکے اِسکی تحقیقات کی جائیگی کہ واردات انجام دینے کیلئے ملزمان کس طرح کے ’سپرے ‘ کا استعمال کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی تحقیقات کیلئے خون کے نمونے جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور تمام ایس ایچ اوز اور ایس پیز کو ہدایت دی ہے کہ وہ ثبوت جمع کریں۔ انہوں نے کہا کہ گیسو تراشی کے معاملے میں اب سماج دشمن سرگرم ہوگئے ہیں ۔ خان نے کہا’’ سماج دشمن، ملک دشمن اور شرپسند عناصر اب صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔منیر احمد خان نے کہا ہے کہ گیسو تراشی کے معاملے میں ابتک کی تحقیقات واقعاتی ثبوتوں پر منحصر تھی ،تاہم اب پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات سائنسی طریقے کار کو عملانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسلئے تمام ایس ایچ او اور سپر انٹنڈنٹ پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ گیسو تراشی کا واقعہ پیش آنے کے فوراًبعد تحقیقات کیلئے ثبوٹ جوڑ لیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو گھروں میں قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہم کبھی بھی ہونے نہیں دیں گے۔ پولیس کنٹرول روم سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منیر احمد خان نے کہا ’’ پہلے جب گیسو تراشی کے واقعات رونما ہوئے تو کوئی بھی متاثرہ خاتو ن سامنے نہیں آرہی تھی جس کی وجہ سے تحقیقات صرف واقعاتی ثبوتوں پر منحصر تھی ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ کوئی آیا اور اس نے سپرے پھینک کر خاتون کے بال کاٹ دئے مگر کوئی بھی متاثرہ خاتون سامنے نہیں آئی اور متاثرہ خاتون اور نہ ہی اسکے رشتہ دار پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار تھے۔ منیر خان نے کہا ’’ ہرکسی جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور گیسو تراشی کے پیچھے چھپے مقصد کاپتہ لگانے کی ہم کوشش کررہے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس میں کئی ایسی چیزیں ہیں جن پر عام لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ کون خواتین میں خوف پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ کسی بھی شہری سے ہمیں اگر کوئی اچھی جانکاری ملتی ہے تو ہم ضرور کارروائی کریں گے۔