ابتدائے آفرنیش سے تاحال تک کی تواریخ کو دیکھا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حق وباطل کی جنگ میں حق اورحق پرستوںکی فتح ہوئی ہے ۔دنیا بھر میں حق وباطل کی کئی اہم جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں ہربار اور ہروقت اور ہرقوم میں حق پرستوں ،حقوق البشر کے علمبرداروں ،بہادروں ،بے باک ،دلیر ،نڈر اور قومی ہیروا ورعظیم رہنمائوں نے باطل کے خلاف اپنا کردار اس طرح نبھایا کہ قوم ان کی حیات ابدی ،ان کی موت ،ان کی Legacyاور ان کے Characterکو یاد کرکے اور ان کے نظریات کو اپنا کر ان کی جدائی پر برسوں تک ماتم اور افسوس کرتی ہے ۔دراصل یہی زندگی امر کہلاتی ہے اور یہی اصل حیات جاوداں ہے کہ جہاں قوم اپنے ان عظیم قائدین اور رہنمائوں کو یاد کرتی ہے، وہیں ان کے قاتلوں اور قتل کی سازش رچانے والوں پر ملامت وتنقید بھی کرتی ہے ۔دراصل قومی ہیرو قوم کے حقیقی غم خوار اور قائد ہر قوم میں مشکل سے برس ہابرس بعد پیدا ہوتے ہیں۔جہاں دیگر اقوام عالم میں ایسے متعد د قومی ہیرو بعد از مرگ امر یازندہ جاویدرہے ہیں،وہیں ریاست جموں کشمیر کے ایک مایہ ناز سپوت ،عظیم رہبر ورہنما ،سیاستدان اور قومی ہیرو خواجہ عبدالغنی لون بھی اپنی مثال آپ ہیں جنہیں قوم نے حریت خواہی کی علامت اورicon نے تسلیم کیا ہے اور پندراںسال گذرنے کے باوجود بھی لوگ ان کی جدائی پر ماتم کرتے ہیں اور انہیں شدت سے یاد کرتے ہیں ۔ حریت کے بلند پایہ قائد کے طور مانے جانے والے خواجہ عبدالغنی لون کو قوم کے درد کادرماں اور قومی غم خوار مانا جاتا رہا ۔ریاست جموں وکشمیر کے دیرینہ اور حل طلب مسئلہ کو اقوام عالم تک پہنچانے اور کشمیریوں کی آواز کو طاقت بخشنے میں اہم کردار نبھانے والے خواجہ لون صاحب کی کمی شدت سے پوری قوم محسوس کرتی رہی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومی ہیرو ،عظیم لیڈر اور قائدین از خود میدان میں آکر اپنے گرم خون اور اپنے سر کا نذرانہ پیش کرکے اپنا خاص اور منفرد مقام حاصل کرتے ہیں ۔یہ بات بھی قابل توجہ اور قابل ذکر ہے کہ بزدل، لالچی،قومی دشمن ،مفاد پرست ،اور مکار شخص یا اشخاص کا گروہ قوم کے لئے اپنے آپ کونہ ہی قتل گاہ میں لاتے ہیں اور نہ ہی اپنے نظریہ اور کازکے لئے موت کو گلے لگاتے ہیں ۔اس کے برعکس عظیم قائد ،قومی ہیرو اور قومی غم خوار قومی کاروان کی رہبری کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے سر اور اپنے خون کا نذرانہ بغیر ریا کاری، خودغرضی اور مکاری کے پیش کرتے ہیں۔ یہی ان قائدین ،لیڈارن اور قوم کے ہیرؤں کی شخصی عظمت کا ثبوت ہوتا ہے ۔ایسے لیڈر ان کی عظمت اور ان کی بہادری اور شجاعت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ زندہ قوم کے مخلص قائدین ،غم خوار اور حقیقی لیڈارن ہر آن میں اپنی بہادری ،اپنے خلوص اور صیح ومکمل اور قومی لیڈر ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ،وہ اپنے والے ایثار کردار نبھا کر میدان عمل میں اترتے ہیں، چاہے یہ عظیم کردار نبھانے والے لوگ دنیا میں کہیں بھی حق وباطل کے رن میں بر سر پیکار ہوں وہ اپنا فولادی کردار نبھا کر امر ہوجاتے ہیں ۔ خواجہ عبدالغنی لون نے بھی اپنے گرم خون سے مزار شہدا سرینگر کو لالہ زار کرکے اپنی آہنی شخصیت اور قائد انہ صلاحیت وحقیقی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ خواجہ عبدالغنی لون نے بہادروں کی طرح موت کو اس وقت گلے لگایا جب وہ حق وباطل کے معرکے میں جان نیچھاور کرنے والے شہدائے کشمیر کو عیدگاہ مزار شہداء میں خراج تحسین پیش کررہے تھے ۔ اس عظیم اور قومی قائدنے ہر دور میں علی ا لاعلان اپنا قائدانہ کردار نبھایا اور ہر دور میں سچائی کا ساتھ دیا۔ یہ خواہ وہ راولپنڈی کے وسیع و عریض میدان میں لیاقت علی خان کا قتل ہو یا برلاہاوس مندردہلی میں گاندھی جی کا قتل ہو ،ان کوہی حیات ِجاوداں ملتی ہے ۔اس کی ایک مثال مزار شہداء سرینگر میں خواجہ عبدالغنی لون کا قتل بھی ہے۔ پندرہ سال قبل یعنی 21مئی 2002 کو حق وباطل کے ایک خونین معرکے میں خواجہ عبدالغنی لون کو پولیس وردی میں ملبوس چند نامعلوم بندوق بردار وں نے مزار شہدا سرینگر میں گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا ۔خواجہ لون صاحب اس دن میرواعظ مولوی محمد فاروق کی برسی پر مزار شہدا سرینگر میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرنے کے بعد گھرواپس لوٹنے کے لئے جوں ہی اسٹیج سے اُترے توبے رحم قاتلوں نے اس کے سینے پر گولیاں برسا کر انہیں ابدی حیات کے اعلیٰ منصب تک پہنچایا ۔بتایا جاتا ہے کہ خواجہ لون کا قتل ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہوا ۔خواجہ عبدالغنی لون خود مختار جموں کشمیر کے متمنی اور حامی تھے اور ہر صورت میں جموں کشمیر کو ایک آزاد ملک دیکھنے کے خواستگار تھے ۔ کشمیر میں خواجہ عبدالغنی لون نے مسلح تحریک کی ابتداء میں ہی بندوق کو خوش آمدید کیا اور مسلٔہ کشمیر کو بین الاقومی سطح پر اُجاگر کرنے میں اپنا قائدانہ کردار نبھایا ۔اتنا ہی نہیں بلکہ جرأت مندانہ بیان دینے سے بھی نہیں کترائے کہ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے ۔ ان کے یہ بیانات بھی کافی بہادارنہ تھے کہ بندوق کو سیاست کے تابع رہنا چاہئے یا یہ کہ بندوق نے اپنا کام مکمل کیااب اسے خاموش ہوجانا چائیے یا یہ کہ مہمان میزبان بننے کی کوشش نہ کریں وغیرہ وغیرہ ۔خواجہ عبدالغنی لون نہ کسی کا دم چھلہ تھا اور نہ ہی کسی کا ایجنٹ تھا بلکہ لون صاحب خالص کشمیری تھے ،یہی وجہ ہے کہ پوری قوم کے مصائب اور غم اوروکھ اور درد کو اپنے دامن میں سمٹ کر از خودمیدان کا رزار میںوقت وصال تک سرگرم عمل رہے ۔انہوں نے سرجھکا نے کے بجائے سرکٹانے کو ترجیح دی۔ مدتوں جیل میں رہے ،اذیتیں برادشت کیں،پابندسلاسل رہنے کے باوجود بھی اپنے موقف سے انحراف نہیں کیا ۔کہیں بار جان لیوا حملے برداشت کئے لیکن کشمیریوں کو مشکل کی گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا ۔کشمیریوں کے اس حقیقی وکیل ،غمخوار اور جرأت مند قائد نے جب مزار شہدا سرینگر کو اپنے گرم ،مچلتے ابلتے اورلامثال حرارت سے عبارت خون سے لالہ زار کیا تب کشمیری قوم کو بے حد ملال ہوا،دکھ ہوا اور افسوس ہوا لیکن جہاں ایک طرف خواجہ صاحب کی دائمی مفارقت پر غم واندوہ کیا جارہا تھا تو وہی دوسری جانب موصوف کی قائدانہ صلاحیتوں کی داد اب بھی دی جارہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ بے رحم قاتلوں پر ملامت کی جارہی ہے ۔افسوس ان قاتلوں پر اور ان قتل کی سازش کرنے والے قوم کے دشمنوں پر جنہوں نے خواجہ عبدالغنی لون جیسے عظیم قائد اور بہادر ،دلیراور ذی حس رہنماکا قتل کیا ۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ تب سے اب تک قاتلوں کو خواجہ عبدالغنی لون صاحب کے قتل سے کیا حاصل ہوا ؟ سیاسی قتل سے قوم الجھنوں میں گرفتار ہوئی ہے اور قوم لون صاحب کو قیامت تک یاد کرتی رہے گی ۔ ہم بجا طورکہہ سکتے ہیں کہ درد ہرے کپوارہ کے غنی لون کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور پوری کشمیری قوم کا خسارہ ہے ۔ایک عظیم رہنما کو اگر چہ قاتل نے اس کے اصل مقام تک پہنچایا کہ وہ مزار شہداء میں ہی اپنی ابدی زندگی کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن ان کے قتل سے پوری قوم کی الجھنوں اور مشکلوںمیں اضافہ ہوا اور قربانیوں کی اس مشترکہ تحریک نے اور طول پکڑا ۔ مرحوم خواجہ عبدالغنی لون ایک دور اندیش اور اعلیٰ فکر ونظر جیسی صلاحیتیوں کا مالک تھا ، انہیں عالمی منظر نامے اور بدلتے حالات پر 21مئی2002سے قبل ہی گہری نظراور شاہینی نگاہ تھی جس کاانہوں نے ریاست اور بیرون دنیا میں بھی اظہار کیا تھا اورانہوں نے پاکستان کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا وقت سے پہلے ہی وہاں کے سیاست دانوں کے روبرو اظہار کیا۔تھا۔خواجہ لون صاحب نے بغیر ذاتی مطلب و نجی مقصد کے حقیقی سیاست کی۔ انہوں نے منزل پانے کے لئے ہمیشہ حکمت عملی میں تبدیلی لاکر نئے نئے راستے تلاش کئے ۔انہوں نے جموں وکشمیر کی حق خود اریت کے مسلئے میں لچک لانے کے لئے ہر موڑ پر نئے اور جدید راستوں کے پیچ وتاب نکالنے کے مواقعے تلاش کیے۔ خواجہ عبدالغنی لون نے جدوجہد آزادی میں سرزد ہوئی غلطیوں کو سدھار نے کی ہروقت وکالت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمت عملی میں تبدیلی لاکر صحیح رہبری ورہنمائی اور کارگر ترتیب سے ہی ہدف پالیا جاسکتا ہے، نہیں تو منزل نزدیک ہوکے بھی دور اور مشکل تصور کی جانی چاہیے ۔ عمدہ اوراعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے باوجود بھی خواجہ لون صاحب نے ہمیشہ ایک سپاہی کی طرح جدوجہد کی اور ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ ازخود کرنے میں پہل کی۔ بے رحم قاتلوں نے کشمیریوں کے اس محب وطن ،عظیم رہنما،دلیراور بہادر سیاستدان کا قتل کرکے پوری قوم کی تقدیر سے کھلواڑ کیا ۔یہ امرقابل غور ہے کہ کسی کی دوکان جس میں مکاری،دھوکہ بازی اور سیاسی کھیل کا سودا سلف بیچاجارہا ہو،کوبند ہوتے دیکھ کر ایک گہری سازش رچائی گئی اور جموں وکشمیر کے مسلٔہ حق خودارادیت اور حق خود مختاری کے سیاسی مسئلے کو مزید پیچیدہ بناکر ان قاتلوں کو کچھ حاصل نہ ہوا ہوگا جنہوں نے خواجہ لون کا قتل کیا ۔خواجہ عبدالغنی لون کے قتل سے قوم نے کن اُلجھنوں کا سامنا کیا وہ نا قابل بیان ہے۔قوم ان قاتلوں کی عقل ودانش پر ماتم کرتی ہے جن کے ناپاک ہاتھوں سے لون کا قتل ہوا۔
ریاست جموں کشمیر میں کئی دہائیوں پر محیط سیاسی بے چینی کا اگر تاریخ کی روشنی میں تجزیہ کیاجائے تویہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہاں کے اکثر سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے ہی کام کیاہے ۔کرسی ،جاہ و حشمت اور دولت کیلئے ہر فیصلہ لیا، ہر قدم اٹھایا اور ہر اعلان کیا یا کروایا ۔خواہ الحاق ہندوستان ہو یاکہ کشمیر کاسودا ۔ ہروقت مفادپرست سیاست دانوں نے اپنے نجی مقاصد کو ملحوظ نظررکھ کر قوم کو بیچ کھایا لیکن خواجہ عبدالغنی لون وہ فرد واحد ہیں جنہوںنے ریاست میں مسلح تحریک شروع ہوتے ہی ہجرت کے بجائے کشمیریوں کی آواز کے ساتھ آواز ملاکر میدان میں قائم اورحاضر رہنے کی جرأت مندی دکھائی۔ خواہ انہیں پابند زنداں کیا گیا ہویا کہ ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا ہو،خواہ جموں میں شو سینا بلوائیوں کے جاں لیوا حملے کی بات کی جائے یادرگاہ محاصرے کے خلاف لال چوک سرینگر میں فورسز کی مارپیٹ کا تذکرہ کیا جائے ،خواہ مقبول بٹ مرحوم کے جسد خاکی کی بازیابی کے لئے احتجاج کی بات ہویا کہ چرار شریف محاصرہ کے دوران زیارت چرار شریف میں داخل ہونے کی جرأتمندانہ پیش قدمی پر تبصرہ کیا جائے،خواہ ہندوارہ کے معصوموں کے قتل پر احتجاج کی بات ہو یا کہ کنن پوشپورہ کی دلخراش المیے پر احتجاج کی بات ہو ،ہرمیدان ،ہرمقام اور ہر صورت ہم نے خواجہ عبدالغنی لون کو طوفانوں کا سامنا کرنے میں آگے آگے پایا ۔خواجہ عبدالغنی لون صاحب نے بطور سیاستدان اور بطور قومی ہیرو کے جو کلیدی کردار نبھایا وہ تاریخ کے اوراق میں قابل تحسین اور ناقابل فراموش ہے ۔ہر شخص کے نصیب میں وہ بلند رتبہ ملنا مشکل ہے جو خواجہ لون صاحب نے حیات جاودانی کی شکل میں پایا ۔ مرحوم لون صاحب کو قوم کا غم کا رہا تھا اور وہ بغیر ریاکاری یادکھاوے کے ہروقت مظلوموں ، سائلین اوردوسرے لوگوں کے کام آنے کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھتے تھے ۔انہوں نے محتاجوں ،غریبوں ،یتیموں اور ناداروں کی نہ صرف ہر لحاظ سے مدد کی بلکہ انہیں جینے کا صحیح راستہ اور ہنر بھی سکھایا ۔ ان حوالوں سے وہ مظلوموں کی ایک پراثر آواز تھے اور غریب دلوں کے دھڑکن تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔