نیلم گرینڈی،اتراکھنڈ
’’ ‘اگرچہ میری بیٹی ذی شعور اور نرم دل ہے، لیکن میں اس کی شادی کے لیے پریشان ہوں کیونکہ وہ سیاہ فام ہے‘‘۔ ایک ماں کا یہ بیان اس گہرائی کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے پدرانہ معاشرے میں رنگ پرستی کس حد تک موجود ہے۔ایک لڑکی کی زندگی فضول کی باتوں میں اس لئے الجھی ہوئی ہے کہ پدرانہ نظام میں ہمارے معاشرے پرگوری جلد کا جنون مسلط ہے، کئی خاندان آج بھی لڑکی کی پیدائش پر ماتم کرتے ہیں اور اگر وہ سیاہ ہو جائے تو ان کے غم کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس کی تعلیم اور کیریئرکی طرف توجہ دینے کے بجائے وہ اپنی بیٹی کے لیے دولہا ڈھونڈنے کے لئے پریشان رہتے ہیں۔چونکہ وہ سیاہ فام ہے، اس لیے ہمیں اس کا میچ ڈھونڈنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک بھاری جہیزبھی دینا پڑے گا۔ اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے چارسوں گاؤں کی رہائشی منجو دیوی اور اٹھارہ سالہ انجلی کی ماں اسی بات سے پریشان ہے۔سفید جلد کا جنون کوئی نئی بات نہیں ہے۔دنیا سمیت ہندوستان میں رنگ پرستی کی ایک تاریخ ہے جو ہماری ذہنیت میں گہرائی تک داخل ہو چکی ہے۔ ذات، طبقے اور ثقافت کے تصورات کو اس امتیاز کے پیچھے وجوہات کا ایک مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جلد کا رنگ سفید سمجھا جاتا تھا اور وہ وہی تھے جنہیں سیاسی درجہ بندی میں بھی بہتر رکھا جاتا تھا۔ انگریزوں سمیت جن حکمرانوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا اور حکومت کی،ان کی جلدوں کے رنگ ہلکے تھے۔ اس طرح طاقت ہمیشہ سفید جلد سے جڑی ہوئی نظر آنے لگی۔ اگرچہ ہم نے پچھتر سال قبل آزادی حاصل کی ہے، پھر بھی ہمارے ملک پر نوآبادیاتی ہینگ اوور کا رنگ گوری رنگت کی شکل میں موجود ہے۔
چارسوں گاؤں میں، رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک گاؤں والوں کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ ایک سیاہ چمڑی والی لڑکی کو لوگ پیدائش کے بعد ہی طرح طرح کے ناموں سے پکارتے ہیں جیسے کلو، کالو، کاولی، کاوا وغیرہ کہلاتی ہے۔ یہ سب سیاہ رنگ کی علامت ہیں۔ جیسے ہی وہ ان گندگیوں کے معنی سمجھنے لگتی ہیں، وہ اپنی شناخت پر سوال اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ پدرانہ اور ثقافتی اصولوں کے علاوہ جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں، انہیں تقریباً ہر روز اپنی جلد کے رنگ کے بارے میں طعنے سننے پڑتے ہیں۔ ان کے اعتماد پر یہ باقاعدہ حملہ ان کی باڈی لینگویج سے صاف نظر آتا ہے۔ ان میں سے کچھ لڑکیوں کو خاموشی سے اپنی قسمت کو قبول کرنے پر مجبورہونا پڑا ہے تو کچھ اپنی شناخت کے لئے جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔بائیس سالہ شبنم تلہ، چارسوں گاؤں میں پیدا ہوئی اور پرورش پائی، اس کی جلد کی رنگت کی وجہ سے ان کا بچپن سخت گزرا۔شبنم نے بتایاکہ ’’جب سے میں نے اسکول جانا شروع کیا،تب سے سب لوگ مجھے کوا کہنے لگے۔ ایک دن میں نے بغاوت کردی۔ میں نے اپنے گھر والوں، دوستوں اور پڑوسیوں سے کہا کہ وہ میرے لیے اس گالی کا استعمال بند کردیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر میری بغاوت کو رد کردیا کہ مجھے یہ نام ‘محبت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔مگر اس نام کی وجہ سے ڈپریشن، مسلسل خوف اور شرمندگی میری زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔‘‘سب کا خیال تھا کہ اس کی جلد کا رنگ اسے اچھی زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دے گا۔ شبنم نے بتایا کہ میں اس تصور کو بدلنا چاہتی تھی، اس لئے میں نے سخت محنت کرنے اور اچھی تعلیم اور کیریئر کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی کو میرے رنگ کی بنیاد پر میرے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا موقع نہ ملے۔ حالانکہ بہت محدود وسائل کے ساتھ یہ ایک مشکل کام تھا۔ شبنم فی الحال جے پور، راجستھان میں بطور نرس کام کر رہی ہیں۔اس کی تعلیم، کیریئر اور مالی آزادی نے اسے رنگ پرستی کے طوق سے آزاد ہونے میں مدد دی۔شبنم نے برہم ہوکر کہاکہ میں نے لوگوں پر ردعمل ظاہر کرنا چھوڑ دیا ہے، میں گاؤں والوں کی ذہنیت سے باہر آگئی ہوں اور یہ ماننے لگی ہوں کہ میں اپنی جلد کے رنگ سے زیادہ اہم ہوں۔
چارسوں گاؤں میں ملک کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح جلد کی سیاہ رنگت رکھنے کا بوجھ انفرادی تکلیف سے بالاتر ہے۔ والدین کو اس ذمہ داری کے بارے میں بھی مسلسل یاد دلایا جاتا ہے جس کا سامنا ایک سیاہ فام بیٹی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گاؤں کی ایک اور نوعمر لڑکی انجو نے اظہارخیال کیاکہ ’’اگرچہ میں یہ مانتی ہوں کہ خوبصورتی انسانی رویے میں پنہاں ہے لیکن دوسروں کی نگاہ سے میں کیسی دکھتی ہوں اس کے بارے میں مسلسل طنز کرنا مجھے اپنے آپ پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے کہ میں اپنی خود اعتمادی کے ساتھ اپنے آپ کے لئے کچھ کرسکوں‘‘۔زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ جلد کی رنگت کے ساتھ متعصبانہ امتیازی سلوک کتنی بڑی پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ خوبصورت جلد حاصل کرنے کے لیے، لڑکیوں اور خواتین کو، عام طور پر دوسری خواتین کے ذریعے، علاج ودوا استعمال کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس سے انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہے۔ انڈیا اینڈ کلر ازم پر ایک مقالے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستانی کسی شخص کی جلد کی رنگت کی بنیاد پر اخراج اور امتیازی سلوک کے عمل کے بارے میں ظاہری لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جسے ظالم اور مظلوم دونوں نے قبول کیا ہے۔
گاؤں کی اسکول ٹیچر ریتا جوشی کے مطابق بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی رنگ کی بنیاد پر امتیاز کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ وہ گھر اور اسکول میں امتیازی طرز عمل کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کے جذبات کو معمولی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور رنگ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ ایسے رویوں سے نمٹنے کے لیے خاندانوں اور بچوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ دیہی علاقوں میں بیداری پیدا کی جائے اور ان پرانے طریقوں پر سوال اٹھانا شروع کیا جائے۔ وہ لڑکیاں جو رنگی تعصب کا شکار ہو رہی ہیں انہیں مشاورت اور ثالثی تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ لڑکیوں کو سیاہ رنگ کے جلدکی وجہ سے انہیں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہا ہے،یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوشیزاؤوں اور خواتین کے حوالے سے کتنے اصلاح کی ضرورت ہے۔
[email protected]>