سرینگر//وادی میں جہاں سال 2017 کے دوران بیشتر واقعات معمول کے طرزپر رونما ہوئے،وہیں کچھ ایسے واقعات سامنے بھی آئے،جن کی وجہ سے عام لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوئے۔2017میںگیسو تراشوں کی دیدہ دلیری بھی دیکھنے کو ملی ۔ستمبر کے وسط سے لیکر اکتوبر کے وسط تک اس کا سلسلہ جاری رہا،جس کے دوران خواتین میں لرزہ اور خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا۔90کی دہائی میں آپریشن گوسٹ کی طرز پر امسال ستمبر میں گیسو تراش نمودار ہوئے اور قریب 2 ماہ تک دہشت پھیلاتے ہوئے قریب157خواتین کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں۔سرکار اور ایجنسیاں اس پر الگ الگ خانوں میں بٹی رہیں۔پولیس نے جہاں ان واقعات کو اجتماعی دیوانگی کا نام دیکر کہا کہ یہ ذہنی بیماری ہے،وہیں سیاست دان آخری روز تک اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچانے کا مطالبہ کرتے رہے۔اس تذبذب میں شہری آپس میں ہی الجھ پڑے اور مشکوک حالات میں گھوم رہے،کئی شہریوں کو مقامی لوگوں کے غیض و غضب کا سامنا بھی کرنا پڑا،اور درجنوں کو لہو لہان کیا گیا۔عوام سیکورٹی ایجنسیوںپر الزامات عائد کرتی رہی،تاہم پولیس کے ہاتھ کوئی سراغ نہیں لگا۔اکتوبر کے آخری ہفتہ میں مرکز کی طرف سے کشمیر کیلئے مذاکرتکار نامزد ہونے کے ساتھ ہی گیسو تراش بھی ایسے غائب ہوئے،جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔