ریاست میں گزشتہ کچھ ہفتوں سے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے واقعات نے طبقہ نسوان میں دہشت پیدا کر دی ہے، کیونکہ بال خواتین کی شخصیت کا ایک ایسا حصہ ہے جسکے ساتھ طبقہ نسوان کی نفسیاتی وابستگی ثابت ہی نہیں بلکہ یہ حُسن ظاہر ی کا ایک اہم رکن ماناجاتا ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں شمال سے جنوب تک گزرے کئی ماہ کے دوران راہ چلتے ہوئے ہی نہیں بلکہ گھروں کے اندر بھی خواتین کی چوٹیاں کاٹ کر لے جانے کے سینکڑوں واقعات پیش آئے ہیں ، جس پر سماجی حلقوں، میڈیا اور حقوق نسوان کی جماعتوں نے زبردست برہمی کا اظہار کیا ہے، لیکن اسکے باوجود ایسے واقعات بار بار پیش آرہے ہیں ، اور اسکے حقیقی محرکات کا ابھی پتہ نہیں چل رہا ہے۔رفتہ رفتہ یہ وباء جموںوکشمیر میں بھی واردہو ئی ہے اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق جموں خطہ کے جموں، ادھمپور ، ریاسی ،کٹھوعہ، راجوری اور بھدرواہ اضلاع میں چند ہفتوں کے اندر ہی40کے قریب ایسے واقعات پیش آئے ہیں جبکہ چند روز قبل وادی کشمیر کے کوکرناگ علاقہ میں بھی ایک خاتون کی چوٹی کاٹنے کا واقعہ پیش آیا ہے، جس کی وجہ سے سماجی حلقوں میں فکر و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔اگر چہ پولیس معاملات درج کرنے کی حد تک کاروائیاں کر رہی ہے لیکن ان واقعات، جو رفتہ رفتہ ایک مہم کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں، کے پیچھے کیا محرکات اور کون عناصر کار فرماء ہیں ، اس کے بارے میں ابھی تک کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی ہے۔البتہ شواہد و قرائین اس امر کی دلیل فراہم کر رہے ہیں اس کے پیچھے کچھ منظم ہاتھ ہیں، جو خواتین کو اکیلے پاکر یا خلوت میں دیکھ کر نشانہ بناتے ہیں، کیونکہ کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں گھروں کے اندر بیٹھی اکیلی خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ زیادہ واقعات ایسے علاقوں میں پیش آئے ہیں، جو دیہی اور شہری طرز زندگی کا اتصال پیش کرتے ہیں۔ کئی ماہرین یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہو نہ ہواس میں اُن کاروباری عناصر کا ہاتھ ہو، جو خواتین کی مصنوعی چوٹیاں، جنہیں عرف عام میںVIGکہتے ہیں، تیار کرکے پیسہ کماتے ہیں، کیونکہ بیشتر نشانہ ایسی خواتین بنی ہیں جو لمبے بال رکھتی تھیں، اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دیہی اور نیم شہری علاقوںکے اندر خواتین میں ابھی تک لمبے بال رکھنے اور انہیں خوبصورت بنانے کی خاطر خصوصی دیکھ ریکھ کرنے کا رواج موجود ہے،لہٰذا ایسے علاقوں میں خواتین نشانہ بن رہی ہیں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس اندوہناک عمل سے تحریک پاکر نفسیاتی طور پر غیر مستحکم افراد کے بھی ایسے واقعات میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔بہر حال فی الوقت صورتحال ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین بنتی جارہی ہے، کیونکہ اس مجرمانہ فعل سے نہ صرف قانون شکنی عام ہو رہی ہے بلکہ نشانہ بننے والی خواتین نفسیاتی طو رپر تنائو کا شکا رہو رہی ہیں، جو انکی زندگیوں کو تباہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں عمومی طور پر طبقہ نسوان میں خوف و دہشت کی لہر دوڑ گئی ہے، خاص کر ان خواتین کے لئے جو چھوٹے چھوٹے کنبے ہونےکے بہ سبب دن کے اوقات میں گھروں کے اندر تنہا ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کا فوری طور پر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر اس وباء کو پھیلنے سے روکے اور ایسے واقعات کے پس پردہ عناصر کو ننگاہ کرکے خواتین کے پیدائشی اور اُس بنیادی حق کو تحفظ عطا کرے جو ابتداے آفرنیش سے دنیا بھر میں فروغ پائے سماجی ڈھانچوں کا ایک اٹوٹ حصہ رہا ہے ۔ اگر چہ پولیس کی جانب سے گزشتہ روز ریاسی کے کچھ دیہات میں ایک خصوصی تلاشی مہم کا آغاز کیا گیا تاہم سرکار کے ذمہ دار اداروں کے ساتھ ساتھ سماجی اور مذہبی سطح پر کام کرنے والے حلقوں کو بھی اس حوالے سے ایک آگاہی مہم چلا کر طبقہ نسوان کےعزت نفس کی حفاظت اور خصوصیت کے ساتھ خواتین کے حقوق کی پاسداری کی ترغیب کے لئے کام کرنا چاہئے تاکہ اس شیطانی مہم کا صدباب ممکن ہو۔