مختار احمد قریشی
معاشرہ مرد اور عورت دونوں کے باہمی تعاون سے تشکیل پاتا ہے۔ عورت کی ترقی صرف عورت کی ذمہ داری نہیں، بلکہ مردوں کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جب مرد خواتین کی تعلیم، روزگار، اور سماجی ترقی میں مدد کرتے ہیں، تو ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
تعلیم میں مردوں کا کردار:تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور مرد حضرات اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ گھر کی بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں تعلیم حاصل کریں۔ ایک تعلیم یافتہ مرد اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی تعلیم کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرتا ہے۔بہت سے والدین بیٹیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے، لیکن جب ایک مرد، خواہ وہ باپ ہو یا بھائی، خواتین کی تعلیم کے لیے کوشش کرتا ہے تو وہ معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پیشہ ورانہ زندگی میں مدد:خواتین کو نوکریوں اور کاروبار میں آگے بڑھنے کے لیے مردوں کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک مرد جب اپنی بیوی، بہن یا بیٹی کو نوکری یا کاروبار میں ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے تو وہ معاشی خودمختاری کی راہ ہموار کرتا ہے۔دفاتر، کاروباری اداروں اور فیلڈ ورک میں خواتین کی موجودگی کو مثبت نظر سے دیکھنا اور ان کے ساتھ پیشہ ورانہ تعاون کرنا مردوں کی ذمہ داری ہے۔ اس سے خواتین کو آگے بڑھنے اور معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
خواتین کے حقوق کی حفاظت:عورتوں کے حقوق کا دفاع بھی مردوں کا فرض ہے۔ گھر، دفتر، تعلیمی اداروں اور سماجی میدان میں خواتین کو تحفظ دینا اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آنا ایک مہذب معاشرے کی پہچان ہے۔جہیز، کم عمری کی شادی، اور خواتین پر تشدد جیسے مسائل کے خلاف آواز بلند کرنا بھی مردوں کا فرض ہے۔ اگر ایک مرد ان برائیوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، تو وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔ مرد جب خواتین کے ساتھ گھر کے کاموں میں تعاون کرتے ہیں، بچوں کی پرورش میں ساتھ دیتے ہیں اور فیصلہ سازی میں ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، تو خواتین کا اعتماد بڑھتا ہے۔
مردوں کا سب سے اہم کردار سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض اوقات خواتین کو کمزور سمجھا جاتا ہے اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا جاتا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور مرد ان فرسودہ خیالات کو ختم کرکے ایک ایسا ماحول بنا سکتا ہے جہاں خواتین کو ان کے حقوق، عزت اور مواقع دیے جائیں۔مثال کے طور پر اگر ایک باپ اپنی بیٹی کی شادی کے بجائے اس کی تعلیم کو ترجیح دے یا اگر ایک بھائی اپنی بہن کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے، تو یہ پورے خاندان کے لیے ایک مثبت مثال بن جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو سپورٹ کرے اور اس کی خودمختاری کو تسلیم کرے تو اس سے معاشرے میں ایک اچھی روایت جنم لے سکتی ہے۔
خواتین کو ان کی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی دینا بھی مردوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر عورت کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے، چاہے وہ تعلیم کا معاملہ ہو، پیشہ ورانہ زندگی ہو، یا شادی کے بارے میں فیصلہ ہو۔ ایک باشعور مرد وہی ہوتا ہے جو خواتین کی آزادی کا احترام کرے اور ان پر غیر ضروری پابندیاں نہ لگائے۔کئی بار مرد نادانستہ طور پر خواتین کی حوصلہ شکنی کر دیتے ہیں، جیسے ’’یہ کام تمہارے بس کا نہیں‘‘، ’’تم گھر سنبھالو، باہر کا کام ہمارا ہے‘‘، یا ’’لڑکیوں کو زیادہ آزادی دینا مناسب نہیں‘‘ جیسے جملے کہہ کر خواتین کے اعتماد کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک باشعور مرد ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کہتا ہے، ’’تم یہ کر سکتی ہو‘‘، ’’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ’’اپنے خوابوں کو پورا کرو۔‘‘
خواتین کے خلاف تشدد ایک بڑا سماجی مسئلہ ہےاور اس کے خاتمے کے لیے مردوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اکثر خواتین گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور کام کی جگہ پر امتیازی سلوک کا شکار ہوتی ہیں اور اگر مرد اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور خواتین کی مدد کریں، تو یہ برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ایک بھائی دیکھے کہ اس کی بہن کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے یا اگر ایک دوست محسوس کرے کہ اس کی ساتھی کو ہراساں کیا جا رہا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ خاموش نہ بیٹھے، بلکہ اس کے لیے آواز بلند کرے۔ جب تک مرد اس ظلم کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے، تب تک خواتین محفوظ اور خودمختار محسوس نہیں کریں گی۔
معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب مرد اور عورت برابری کے ساتھ کام کریں۔ مردوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو حریف یا کمزور نہ سمجھیں بلکہ انہیں برابر کا شریک سمجھیں۔ جب مرد اور عورت مل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے تو پورا معاشرہ خوشحال ہوگا۔
تاریخ میں کئی ایسے مرد گزرے ہیں جنہوں نے خواتین کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ نبی کریمؐ نے خواتین کے حقوق کو تسلیم کر کے انہیں تعلیم، وراثت، اور فیصلہ سازی کا حق دیا۔
سر سید احمد خان نے خواتین کی تعلیم کے لیے جدوجہد کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے ماہرین نے خواتین کو سائنسی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔آج بھی دنیا میں بہت سے مرد خواتین کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔مردوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کی ترقی ان کی اپنی ترقی ہے۔ جب ایک عورت پڑھ لکھ کر خودمختار بنتی ہے، تو وہ صرف اپنی زندگی بہتر نہیں بناتی بلکہ اپنے خاندان، معاشرے اور ملک کی ترقی میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔مردوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد کریں۔ جب مرد اور عورت برابری اور محبت کے ساتھ مل کر کام کریں گے تو ایک خوشحال اور مضبوط معاشرہ تشکیل پائے گا۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]>