ہمیں علم نہیں کہ خواتین کا عالمی دن، گوبر تھوپنے والی ایک دیہی غریب خاتون نے کیسے منایا ہو گا، البتہ وطن کے پوش علاقے میں یہ مشاہدہ ضرور ہوا جب فراٹے بھرتی ہوئی ایک گاڑی ہمارے قریب سے گزری جس کے کھلے ٹرنک یعنی ڈگی میں تین لڑکیاں ٹانگیں باہر لٹکائے بیٹھی تھیں جب کہ گاڑی کے اندر بیٹھی ہوئی لڑکیاں کھڑکیوں سے باہر لٹک رہی تھیں اور فضا میں بے ہودہ ہلڑ بازی میں مشغول تھیں۔ ان کے بے قابو انداز شباب نے تمام ٹریفک کو اپنی جانب متوجہ کر رکھا تھا۔ لباس ڈینگی مچھر کو کھلے عام چیلنج کر رہا تھا۔ یہ نقشہ مادر پدر آزاد امریکہ میں دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں۔ ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر امریکہ میں فوری طور پر گاڑی روک کر ٹکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن وطن کی یہ بگڑی ہوئی نسلیں ہیں، ان کو کون روک سکتا ہے؟ان بگڑی ہوئی نسلوں کے والدین بھی بگڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ خواتین کا عالمی دن منا رہی تھیں یا مشرقی عورت کے منہ پر کالک مل رہی تھیں؟ سگریٹ نوشی اور منشیات الا ماشا اللہ قوم کی خواتین میں عام ہو رہی ہے۔ مزید تشویشناک پہلو اخلاق باختگی کا ہے جس میں الا ماشا اللہ ملک میں نوجوان خواتین کی صورت حال شرمناک ہوتی جا رہی ہے۔ والدین بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ سمجھتے ہیں ان کی بیٹی لڑکوں سے میل ملاپ نہیں رکھتی لیکن لڑکیوں سے میل ملاپ کی حد کیا ہے، اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سگریٹ نوشی، نشہ آور اشیا اور اخلاق باختگی کا رحجان لبرل خاندانوں میں ہی نہیں نیچے سے اوپر تک الا ماشا اللہ شرح میں افسوس ناک اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے زمانے میں لڑکے شوقین مزاج سمجھتے جاتے تھے، اب خواتین اور لڑکیوں کی شوقین مزاجیاں قابل دید ہیں۔ اس ملک میں جو کچھ اندر خانے بگاڑا جا چکا ہے اگر اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو یہ ملک بیہودہ حرکتوں کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گا۔ والدین اور بے کار شوہر اپنی خواتین اور بہو بیٹیوں کی نفسیاتی حالت پر بھی توجہ رکھیں۔ مرد اپنی کمزوریاں تو چھپا لیتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے ان کی عورتیں کس راستے پر چل نکلتی ہیں ،کچھ اس کا بھی احساس ہے؟ خواتین کا دن منانے والے خواتین پر تشدد کا ذکر کرتے ہیں، عورت کے فطری تقاضوں کو دبانے والوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ مسلم معاشرے میں الا ماشا اللہ خواتین کی نجی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، کسی نے ہائی لائٹ کرنے کی جرأت کی؟ ایک ظالم مرد عورت پر جسمانی تشدد کا ہی مجرم نہیں، اپنی عورت کو ازدواجی زندگی سے محروم رکھنے کا بھی مجرم ہے اور اس جرم کی سزا عورت اپنے آپ کو خود دیتی ہے، غلط راستے استعمال کر کے۔ عورت کی بے راہ روی کا مجرم اس کا مرد ہے اور بگڑی نسل کے مجرم اس کے والدین ہیں۔ عورت کے فطری تقاضوں کو نظر انداز کر کے اسے کام کی مشین سمجھنے والا انسان مرد کہلانے کا حقدار نہیں۔ اگر تو آپ اس معاشرے کو اس گھٹن سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو مناسب آگہی دینی ہو گی۔ جب قرآن و احادیث میں بھی انسان کی تخلیق کے حوالے سے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے تو ہم اپنے بچوں کو وہ معلومات مناسب انداز میں کیوں نہیں پہنچا سکتے؟ اسلام اس معاملے میں بہت واضح احکام دیتا ہے۔ اسلام میں سات سال کے بچے کا بستر علیحدہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ماوؤں کو آگاہی دینی ہو گی کہ وہ اپنے بچوں پہ اعتماد کریں اور ان کو اچھے برے کی پوری آگاہی دیں ماوؤں کو اپنی بیٹیوں کی سب سے اچھی دوست بننا سیکھنا ہو گا، تاکہ ان کی بیٹیاں بلاجھجھک اپنے ذہن میں اٹھتے سوال کے جواب کیلئے خفیہ ذرائع تلاش نہ کریں اور کوئی دوسری عورت یا سہیلی ان کے معصوم ذہن کو بھٹکا نہ سکے اور جنس کے حوالے سے غلط معلومات دے کر اس کو کسی اور راہ پہ نہ چلا سکے۔ کسی مسئلے کی سنگینی سے آنکھ چرانا اور اس پہ کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ آج کے دور میں ہر قسم کی انفارمیشن تک حد سے زیادہ اور آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہے جس کے باعث نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا غلط راستے پر چل نکلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کے ان حصوں کا تعلق ہے جہاں عورت کی حالت ابھی تک پسماندہ ترین ہے ،وہاں اس طرح کے مسائل کی نفسیاتی وجہ قطعی مختلف ہوتی ہے۔ مردوں کا نامناسب رویہ، کثرت ازدواج اور گھر کے مردوں کا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا کچھ ایسے نفسیاتی عوامل ہو سکتے ہیں جو کہ گھروں تک محدود رہنے والی خواتین کو اس طرف مائل کر سکتے ہیں۔ عصمت چغتائی نے کئی دہائیوں پہلے اپنے افسانے میں انہی نفسیاتی مسائل کو بیان کیا تھا لیکن یہ مسئلہ اب بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے جسے ایک مسلمان اور انسان کی حیثیت سے ہمیں نہ صرف سوچنا ہو گا بلکہ اسے سمجھنے اور حل کرنے کی جانب بھی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔