عصرحاضر جس سے دور جدید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے درحقیقت ترقی اور روشن خیالی کا زمانہ ہے۔اس تیز رفتار دور جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی اور تحقیق کے بل پر انسان تسخیر کائنات کا دعویٰ کر رہا ہے ۔ گلوبلایزیشن میںاگرچہ تمام اطلاعات و معلومات پر آسانی سے دسترس حاصل ہوچکی ہے لیکن وائے حسرتا! اس دور میں بھی صنف ِنازک خاص کر دیار مغرب میں عزت و احترام اور تقدس سے محروم ہیں۔انہیں صرف ایک کھلونے کی حیثیت سے دیکھا جاتاہے۔یورپ اس معاملے میں سرفہرست ہے۔ دوسری طرف دنیا کے کونے کونے میں حقوق نسواں کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔اٹھارویں صدی میںپیرس سے لے کرلندن تک حقوق نسواں کی بے شمار تنظیمیں اور تحریکیں منظر عام پر آگئیں مگر نتیجہ ندارد۔عورتوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی غرض ایک عالمی دن منانے کا فیصلہ اسی طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
عورتوں کا عالمی دن 1909سے منایا جارہا ہے لیکن یہ عالمی دن دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو منانے کا فیصلہ سنہ انیس سو تیرہ(1913)میںکیا گیا۔سنہ 1908میں پندرہ سو(1500)عورتیں مختصر اوقات کار،بہتر اُجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کرنے نکلیں ۔ان کے خلاف نہ صرف گھڑسواردستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر کوڑے برسائے گئے اوران میں بہت سی عورتوںکو گرفتار بھی کیا گیا۔ سنہ 1909 میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے عورتوں کا دن منانیکی قرار داد منظور کی اور پہلی بار اسی سال اٹھائیس فروری کو امریکہ بھر میں عورتوں کا دن منایا گیا اور اس کے بعد سنہ1913 تک ہر سال فروری کے آخری اتوار کو عورتوں کا دن منایا جاتا رہا ۔سنہ1910میںکوین بیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلاراز یٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں عورتوں کادن منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک سترہ17ملکوں کی شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کیا۔سنہ1911میں11مارچ کو پہلی بار عورتوں کا عالمی دن منایا گیااور آسٹریا،ڈنمارک ،جرمنی اور سوئیزرلینڈ میںدس لاکھ سے زائد عورتوںاور مردوں نے اس موقع پر کام ،ووٹ ،تربیت اور سرکاری عہدوں پر عورتوں کے تقرر کے حق اور ان کے خلاف امتیاز کو ختم کرنے کے لیے نکالے جانے والے جلوس میں حصہ لیالیکن اسی سال 25مارچ کو نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقع پیش آیا۔’’ٹرائی اینگل فائر‘‘ کے نام سے یاد کی جانے والی اس آتشزدگی میں ایک سو چالیس (140)ملازمت پیشہ عورتیں جل کر ہلاک ہوئیں جس سے نہ صرف امریکہ میں کام کرنے والی عورتوں کے خراب ترین حالات سامنے آئے بلکہ ان حالات کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سارازور بھی امریکہ کی طرف ہوگیا۔اس کے بعد فرور ی 1913ء میں پہلی بار روس میں خواتین نے عورتوں کا عالمی دن منایا۔
مارچ1907بھی و ہ عالمی سطح پر تاریخی دن تھاجب امریکہ کے ایک کپڑا مل میں مزدور 8مزدور خواتین نے کام کے اوقات کو سولہ (16)گھنٹے سے دس (10 )گھنٹے کرنے اور اُجرت بڑھانے کے لیے صدائے احتجاج بلند کی تھی،اعتراض اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور آخر کا ر ان مزدور خواتین کو 1908میں جدوجہد کا صلہ ملا۔8مارچ 1915 کواوسلو (ناروے)کی عورتوں نے پہلی عالمی جنگ میں انسانی تباہی وبربادی بھی پرسخت ردِعمل کا اظہار کیا تھا۔8مارچ1917کو روسی خواتین نے امن اور بقائے باہم کے لیے آواز اٹھائی دھیرے دھیرے یہ8مارچ عالمی سطح پر خواتین کے لیے حق ،خود اختیاری اور عزت وافتخار کے پیغام کا دن بن گیا اور مسلسل خواتین کے مطالبات نے اقوام متحدہ کو آخر کار مجبور کردیا۔چنانچہ اس نے خواتین کے حقوق اور انصاف کیلئے 8مارچ 1975سے8 مارچ1985تک عالمی خواتین دہائی کا اعلان کیاکہ اس دہائی میں عالمی سطح پر خواتین کے ساتھ ہورہے ناروا سلوک ، ظلم،تشدد ،بربریت، استحکام اور ناانصافی کو ختم کرائیں۔حقوق انسانی کا تحفہ دینے کے ساتھ ساتھ قومی اور بین الاقوامی سطح کی ترقی رفتار میں شامل کیا جائے۔1980میں کوپن ہیگ میں دوسری بین الاقوامی خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور 1985میں نیروبی میں خواتین کی ترقی کے لیے بہت ساری پالیسی اور حکمت عملی تیار کی گئی۔1992میں خواتین اور ماحولیات کا جائزہ لینے کے لیے اس بات کو بطورخاص نشان زد ہ کیا گیاکہ خواتین اور ماحولیات ،ان دونوں پر تباہی کے اثرات نمایاں ہیں۔1993 میں یوم خواتین کے مواقع پر انسانی حقوق پر منعقدہ ،ویتنام عالمی کانفرنس میں حقوق نسواں کے مدّعے کوحقوق انسانی کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی ایسی کوششوں کا ترقی یافتہ مما لک میں مثبت نتائج دیکھنے کو ملے،لیکن دوسرے بہت سارے ممالک بشمول ہندوستان میںیوم عالمی خواتین بس ایک رسم کی ادائیگی تک محدودرہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین کے حقوق اور انصاف کے لیے بہت ساری کوششیں رائیگاںہوئی ہیں۔جان اسٹوراٹ مل جیسے مفّکر نے انسانی آزادی کے تصورکو ظاہر کرتے ہوئے حقوق نسواں کی طرف داری کی اور سچ کو سچ کہنے کے لیے حوصلہ اور جرأت کو وقت کی ضرورت بتایا تھا۔
اس کے برعکس مسلمان عورت کو یہ حقوق من وعن چودہ صدیاں قبل سال پہلے مل چکے ہیں اور یہ حقوق دینے والا واحد مذہب اسلام ہے۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو بن مانگے حقوق دئے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آکر ان حقوق کو عملاََ اپنی زندگی میںامہات المومنینؓ اور صحابیات ؓ کو عطا کرکے معاشرے میں خواتین کا مقام ِ بلند متعین کیا۔سب سے پہلے اسلام نے عورت کو مکمل انسان تسلیم کیا۔ معاشرے کا فکری رویہ اور شعور تبدیلی کرکے عورت کو عزت و احترام دیا۔بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا۔نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع بنایا اور ماں کے قدموں تلے جنت کا تصور دیا۔اسلام نے بتایا کہ عورت صرف مرد کی خوشنودی کے لیے نہیں بنائی گئی بلکہ اس کی زندگی کا مقصد بھی اللہ کی اطاعت ورضا جوئی ہے۔وہ بھی اللہ کے ہاں نیک اعمال کی بناء پر بہترین اجر کی مستحق ہے۔اسلام نے نکاح کے لیے عورت کی رضامندی کو اہم رکھا اور شادی کے بعد بھی والدین /بھایئوںکوبیٹی/بہن کی پشت پناہی کی تاکید کی۔والدین کے گھر سے رخصت ہوئے وقت نکاح کے سبب اس کی تمام معاشی وسماجی ذمہ داری شوہر پر منتقل کر تے ہوئے شوہر کی بیوی کی کفالت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور مہر کو بطور نشانی لازم کردیا۔نکاح کے ذریعے سے وجود میں آنے والی بنیادی اکائی خاندان کے لیے قرآن کریم نے مودّت اور رحمت کی بنیاد قرار دیا۔اسلام نے عورت کی جدوجہد کا میدان خاندان کو قرار دیتے ہوئے انفرادی اور معاشرتی حالات کے مطابق دیگر محاذوں پر بھی کام کی اجازت دی۔معاشرے میں عورت کی جان ،مال اور آبرو کو تحفظ عطا کیا۔معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اسے معاشرے کی تعمیر وترقی کا اسی طرح ذمہ دار ٹھرایا جس طرح مرد کو۔
ساتویں صدی عیسوی میں نبی آخر ی الزماں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو حقوق ملکیت اور حقوق وراثت عطا کیے جو یورپ کی خواتین کو 17ویں صدی عیسوی میں انتہائی جدوجہد کے بھی حاصل نہ ہوئے۔اسلام نے عورت کو خلع اور فسخ نکاح کے اختیارات دئے۔ مطلقہ اور بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی اور اس مرحلے پر اس کی رائے کو نسبتاََ ترجیح دی گئی۔ماں کی حیثیت کو باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ مرتبہ دیا۔خواتین کو عطا کردہ حقوق کی ضمانت دی،معاشی ذمہ داری سے اُسے فراغت دی۔ نماز باجماعت،نماز جمہ اور نماز جنازہ سے استثنیٰ کیا۔جہاد سے مستثنیٰ رکھا اور گھر کی دیکھ بھال ،حمل ،رضاعت اور حج وعمرہ کی ادائیگی پر جہادکے درجات ملنے کی خوشخبری سنائی،فطری مجبوریوں کے سبب عبادت سے رخصت دی اور قانونی گوہی سے بھی رخصت دی۔
محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات پوری نوع انسانی پر ہیں لیکن صنف نازک اس احسان کی خصوصی طور پر مرہون ِمنت ہے جس کو اس کا حقیقی مقام دلاکر آپ ؐ نے گویا ایک نئی زندگی عطا کی ،یہ حقیقی مقام کیا تھا؟آدم اور حوا کی تخلیق کے وقت مرد اور عورت کی اس حیثیت کا تعیّن کردیا گیا تھا کہ دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہے:’’ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڈا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔‘‘(النساء :1;4)
انسانیت کے شرف اوراکرام میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی:’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پید اکیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرو۔اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوزیادہ پرہیز گار ہو‘‘(سورۃالحجرات ، 13:49)۔دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے بھی جنس کی کوئی بنیاد نہیں رکھی گئی۔’’جو شخض بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘(النحل:97)۔اس ہدایت ِ ربانی سے تحریف کرتے ہوئے یہودیت اور مسیحت نے عورت کو ازلی گناہ کا سرچشمہ ،شیطان کا آلۂ کار اور معصیت کا دروازہ قرار دیا۔دیگر مذاہب اور اقوام نے بھی اسے قابل فروخت جانا اور تمام تمدنی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا ۔تاریخ کے مختلف ادوار میں عورت کی اس گم کردہ حیثیت کے برعکس نبی ٔمہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ عزت ورفعت سے ہم کنار کیا۔آپ ؐ نے صرف اسے باعزت طور پر زندہ رہنے کا حوصلہ دیابلکہ جنت ماؤں کے قدموں تلے کے اعلان کے ساتھ اسے مردوں سے بھی بلند درجہ عطا فرمایا۔
آج 21ویں صدی میں Girl Childکے مفاد کو پہلے Bejing Platform For Action (BPA)اور پھرMDGS Millinum(Dev. Goals)میں اہم مقام دیا گیا۔آپ ؐ نے 1500سال قبل فرمایا،’’جس شخص کے لڑکی ہو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے ،نہ اس سے حقارت آمیز سلوک کرے ،نہ اپنے لڑکے کو اس پر ترجیح دے ،اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘(ابوداؤد ۔کتاب الادب)۔نیز فرمایا’’جس شخص کے تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو علم وادب سکھائے اور ان کی پرورش کرے اور ان پر مہربانی کرئے، ا س کے لیے ضرور جنت واجب ہوجاتی ہے۔‘‘(بخاری)