احمد مجید
بے شک جدت پسند معاشرتی بگاڑ اور ترقی کی دوڑ میں کوشاں خود ساختہ معاشرتی اقدار نے عورت کے تقدس کو پامال کر دیا ہے۔اس نئی معاشرتی لغت نے عورت کے مقام و منزلت معانی و مفہوم کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے۔گھر جسے عورت کا مسکن کہا جاتا ہے،اسے آجکل کے جدیدمعاشرے کی بیشترخواتین نے خیر آباد کہہ دیا ہے۔وہی گھر جو اُن کے لئے راحت وسکون عزت کی علامت اور امن کا گہوراہ ہے، آج اسی گھر میں ان کا دم گھٹا ہے،احساس کمتری کا احساس ہوتا ہے۔ جدید معاشرتی رجحان اور نئے طرز معاشرت نے اس خواتین کے ذہین سے انگار آبرو کو کھرچ ڈالا ہے۔نئی سوچ کے اس معاشرے نے اس عورت کی عصمتوںں کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ بے شمار ادارے تحفظ حقوق کی آڑ میں آبروئے نسواں کا شب خون کر رہے ہیں۔ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرے نے اس عورت کوکئی بے ہودہ اور نازیباالقابات سے نوازا ہے۔انتہائی غور طلب بات یہ بھی ہے کہ اس معاشرتی بگاڑ کا اصل ذمہ دار کون ہے۔فیشن کے افق پہ ابھرتا ہوا جدید ثقافت کا سورج،ہمارا جدید معاشرتی نظام قانون یافیشن کے نام پہ آزادی نسواں؟ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ مردو خواتین اپنی جملہ ذمہ داریاں اور تمام حقوق و فرائض پوری ایمانداری سے نبھا رہے ہیںلیکن کیا مستقبل کے عظیم معماروں کی صیحح معنوں میں پرورش،نگہداشت،تعلیم و تر بیت ہو رہی ہے؟کیا یہ تعلیم و تر بیت اور اعلی ٰتعلیم اور فیشن پرستی ستاروں پہ کمندیں ڈالنے کیلئے کافی ہے؟وہ ننھے اطفال جو کہ جدید و اعلیٰ اداروں میں زیر تعلیم ہیں،جنہیں ہم ڈاکٹر،انجنئیر،پروفیسراور اعلیٰ آفیسر کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں،کیا انہیں اچھا انسان اورمردمومن بنانے کے لئے قرآن حکیم کے قانون سے متعارف بھی کروارہے ہیں۔سوچ طلب بات تو یہ بھی ہے کہ جن نو نہالان چمن کو ہم نے انگلش تعلیم کی غرض سے انگلش میڈیم سکول میں جدید ماحول میں ڈھالنے بھیجا ہے۔کہیں وہ ہمارے روایتی تہذیب و اقدار سے دور تو نہیں ہو رہے ہیں۔کیا ہماری بیٹیاں جدید تعلیم سے آراستہ ہونے کے ساتھ اسلامی تعلیم سے اور کلچر سے محروم تو نہیں ہو رہی ہیں؟
غور طلب بات تو یہ بھی ہے کہ کیا ہماری آنے والی نسل ہماری نئی معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ اور قدیم اخلاقی اقدام سے روشناس ہے؟ایک بچہ جسے ماں کے دل کا ٹکڑا اور آنکھ کا تارا کہا جاتا ہے۔آج اسے پیدا ہوتے ہی حوا کی بیٹی کڈز کیئر ہاوس،چلڈرن کیئر سنٹر اور ڈبے والے دودھ کے حوالے کر دیتی ہے۔وہ بچی جس کی پہلی درس گاہ ماں کی گود اور ابتدائی مکتب آغوش ماں ہوتی ہے،اس کو جدید معاشرے کی جدید تعلیم و تربیت کی غرض سے جدید مشینی نظام کی نذر کر دیا گیا ہے۔عورت جو اپنے گھر کی عزت و تکریم کی پاسدار،اپنے کنبے کے مستقل کردار کی عکاس ہوتی ہے۔وہی عورت اپنے مقام و مرتبہ سے بے نیاز پاکیزہ رشتوں کے تقدس کو جھٹلا رہی ہے۔ اپنی عزت کو مجروح کر کے جذبوں کی صداقت کو بھی نہایت کمزور کر رہی ہے۔حالانکہ عورت مہر و و فا کا وہ چہکتا ہوا چمن ہے جو کنج گل کی آبیاری کرکے ہر کلی اور شگوفے کو گرم دھوپ کی تمازت سے بچاتا ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس دکھائی دیتی ہے۔عورت کی ذات سے منسوب کتنے کردار معاشرے کو بے شمار داستانوں میں تقسیم کر رہے ہیں اور صاف ستھری فضا کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ عورت کے لئے حجاب کو زنیت و تاج سے تشبیہ دی جاتی تھی ،اس دوپٹے کو عورت نے اپنے سر سے اُتار پھینکا ہے۔ آج گھر کی دہلیز سے عالی شان ایوانوں تک عورت کے حقوق کی باز گشت تو سنائی دیتی ہے۔لیکن اس سے عزت دار معاشرت کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔آج عورت ہر شعبہ زندگی میں حقوق کی جنگ کے لئے آوازبلند کرتی نظر تو آتی ہے،لیکن جدت پسندی اور معاشرتی روگردانی کی تصویر واضح جھلکتی نظر آتی ہے۔اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا تذکرہ تو بقدر شوق کرتی نظر آتی ہے،شوہر کے ظلم و ستم ساس کے امتیازی سلوک اور معاشرتی زیادیتوں کا پرچار سر عام کرتی ہے،لیکن زیادہ تر معاملات میںحقیقت اور صداقت نہیں ہوتی ہے۔کیو نکہ تمام تر المیے میں عورت برابر کی شریک اور لازم و ملزوم ہے۔بڑھتے ہوئے معاشرتی ترقی کے انقلاب میں عورت سب سے مضبوط آلہ کار کا کردار اداکر رہی ہے۔عورت اگر اپنے مقام و مرتبہ سے روشناس ہے تو جہاں شیریں گفتار،شائستہ مزاج ہے،وہاں ارادوں کی سب سے مضبوط چٹان بھی ہے۔یوں تو عورت ایثار و قربانی کی عظیم مثال بھی ہے۔عورت وہ مضبوط سلطنت ہے جسے اس کی منشاء اور رضا کے بغیر دنیا کا کوئی فاتح شہوار تسخیر نہیں کر سکتا۔معاشرتی ضمیر فروشی اور آسائشوں سے مزین پُر لطف زندگی کے بے شمار پہلوؤں سے اس سلطنت میں دراڑیں ڈال کے اس کی بلند و بالا مضبوط فصیلوں کو کمزور بنا دیا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کی آج بھی حوا کی بیٹی چھنے ہوئے افکار آبرو اور مقام و منزلت حاصل کر سکتی ہے۔اسے آج بھی کھویا ہوا وقار عزت و تکریم مل سکتی ہے،اگر وہ آج بھی اپنے قول و فعل سے اپنی عزت آبرو کی امین بنے۔غیر معیاری طرز معاشرت اور جدت پسندی کے خول سے نکل کے دکھاوے کے کاغذی پھولوں کو مسل دے۔ضمیر فروشی اور فیشن پرستی کے سیلاب میں نہ بہےاور فیشن پرستی کی بھٹی کا ایندھن نہ بنیں۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)