سائرہ الفت
اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کے بھیجا ہے اور اپنی تخلیق میں سب سے بلندی پر انسان کو ہی رکھا ہے یہ پوری کائنات یہ دنیاوی مزے صرف اور صرف انسان کے لیے رکھا گیا ہے۔قران کا موضوع بھی انسان ہی ہے اور انسان کو انسان بنانے کے لیے قران کو بھیجا گیا ۔
ہمارا پروردگار بھی ہم سے کہتا ہے کہ بنا تحقیق کیے کسی پہ بھروسہ نہ کرو۔قران کو سمجھنے کے لیے اللہ اشارہ ہمیشہ ان چیزوں کی طرف ہی کرتا ہے جن چیزوں پے انسان تدبر کرے اور پھر یقین کامل رہے لیکن جب انسان کو پیاس ہی نہیں ہے تو وہ پانی کا کیا کر سکتا ہے۔
یہ تو ایک بات ہے کہ ہم نے قران کو اپنی ہدایت کا ذریعہ ہی نہ سمجھا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک انسان میں ضمیر رکھا ہے اور وہ ضمیر انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتا ہے لیکن اس کے برعکس ہمارا کیا حال ہے ہم اتنے گناہوں کے دلدل میں ڈوبے رہے ہیں کہ ہمیں اب اس ضمیر سے آواز انا ہی بند ہو گیا ہے !جب انسان ایک دفعہ غلطی کرتا ہے تو وہ بےزار بھی ہوتا ہے۔اپنے اس ضمیر کی وجہ سے لیکن جب وہی گناہ وہ بار بار کرتا ہے پھر وہ گناہ انسان کو گناہ ہی نہیں لگتا ۔
اسی رسوائی سے ہم اپنے ضمیر کو قتل کر دیتے ہیں اور پھر انسان سے درندے بننے کے سفر میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہمارے پاس بظاہر تو انکھیں ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ہم اندھے ہوتے ہیں ۔ہمارے پاس تو کان بھی ہوتے ہیں لیکن حق سننے کے لیے ہم بہرے ہوتے ہیں ہمارے پاس تو زبان ہوتی ہے لیکن حقیقت بولنے پر اس پر بھی تالا لگا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاتھوں سے ریت کی مانند وقت گزر رہا ہے اور ہم لاپرواہ اور بے حسی کے عالم میں زندگی کا مزہ لے رہے ہیں۔
جو دنیا بظاہر ہمیں خوبصورت نظر آرہی ہے باطن کی نگاہ سے وہ ایک حسین خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہم نے اپنی زندگی میں ان چیزوں کو ترجیح دینا بند کر دیا ہے جو ہماری آنکھیں کھولتا اور ہمیں اس خواب سے بیدار کرتا ۔
ایک طرف سے اگر ہم آج آسائشوں میں گرے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ہم تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکے ہیں ایک طرف اگرچہ لڑکیوں کو لڑکوں کے برابر کیا گیا ہے لیکن دوسری طرف عورت اپنا اصل مقام کھو چکی ہے اور درندوں کا شکار ہو رہی ہے، اسی طرح ہم کہتے آئے ہیں کہ قوم کی بنیاد بچوں سے ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی اعتبار سے ہمارے بچے آج پڑھائی میں ترقی کر رہے ہیں لیکن وہی دوسری طرف ہمارے بچے ان کاموں میں ملوث ہے کہ وہ ڈرگز اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اور جوان ہونے سے پہلے اپنی زندگی کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔اصل وجہ یہ ہے کہ ماں باپ نے بچوں کو لاپرواہ چھوڑا ہے، اگرچہ دنیاوی اعتبار سے انہیں آنکھیں دی لیکن حقیقی زندگی میں روشنی دینا بھول گئے یعنی وہ تعلیم جس سے ان میں حیا ،احترام ،عزتا اور حقیقت کو پرکھنے کی روشنی ہوتی ۔
یعنی قران کی تعلیم بظاہر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج ماشاءاللہ ہر جگہ قرآن کو پڑھایا جاتا ہے چھوٹے چھوٹے بچے حفظ کر رہے ہیں جو کہ بہت ہی نیک کام ہیں لیکن پھر بھی ہمارا سماج گناہوں سے باز نہیں آتا، اس کی مثالی اسی طرح ہے کہ آپ پیاسے کے سامنے پانی تو رکھتے ہیں لیکن اس کو پینے نہیں دیتے ۔جب تک ہم قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھیں گے تب تک ہم برے کاموں سے کیسے روک سکتے ہیں جبکہ ہمیں حکم الہی سمجھ ہی نہ ایا ہوگا ۔ہماری قوم کی حالت اس نتیجے پہ پہنچ چکی ہے کہ عورت جو کہ حیا کا دوسرا نام تھا وہ برہانگی کو ازادگی سمجھ رہی ہے جب حیا ہم لڑکیوں میں ہی نہ رہی ہے کل ہم اپنے اولادوں کو حیا کا درس کیا دے سکتے ہیں!
جہاں پر عورت کو پردے کا حکم ہوا تھا وہاں تو مردوں کو بھی پلکے جھکانے کا حکم ہوا ہے۔ مردو ں کی حالت تو اس وقت ایسی ہے کہ ان کے ہاتھوں سے اپنی بہن، بیٹی کی عزت محفوظ ہی نہیں ہے۔ جب تک ہم خود کو بدلنے کی کوشش نہ کریں گے، تب تک ہم نہیں بدل سکتے ۔لہٰذا ضرورت تو اسی بات کی ہے کہ ہم اسی راہ پہ چلے جو حقیقت، صاف اور سیدھی راہ یعنی( اللہ کی راہ) ہے اسی میں ہماری دنیا و اخرت کی آبادی ہے۔