مسعود محبوب خان
اسلام نے عورت کو ذلت سے نکال کر عزّت کا تاج پہنایا، اسے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں میں اعلیٰ مقام دیا اور اس کے تمام فطری حقوق کو محفوظ بنایا۔ یہی وہ حقیقی آزادی ہے جو عورت کو وقار، تحفّظ اور سکون عطا کرتی ہے۔ اسلام نے سب سے پہلے عورت کے حقوق اور اس کے تحفّظ کا اعلان کیا اور اسے وہ عزّت و مقام عطا کیا جس سے وہ صدیوں محروم رہی تھی۔ اسلام نے عورت کو عظمت اور احترام بخشا اور اس کی حقیقی حیثیت کو واضح کیا تاکہ وہ معاشرے میں باوقار زندگی گزار سکے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و حدیث کے اصولوں پر کاربند رہے، وہ دنیا میں سربلند رہے۔ لیکن جب ان اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا اور مغربی خیالات کو اختیار کیا جانے لگا، تو زوال مقدر بن گیا۔رسول اکرمؐ نے خواتین کے لیے جو راستہ بتایا، وہ حیاء اور حجاب کا راستہ تھا جو عورت کے تحفظ، عزّت اور وقار کا ضامن ہے۔ بے حیائی او
ر بے حجابی شیطان کی چال تھی اور آج بھی ہے، جو عورت کو عزّت و وقار کے بلند مقام سے گرا کر ایک استحصالی نظام کا حصّہ بنانا چاہتی ہے۔ حقیقی ترقی وہی ہے جس میں عورت اپنی عزّت، عظمت اور اسلامی اقدار کے ساتھ محفوظ رہے، نہ کہ ایسی آزادی جہاں اس کی حیا اور وقار داؤ پر لگ جائے۔
مسلمان معاشرہ جس اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام بکھرتا جا رہا ہے اور اسلامی اقدار پس پشت ڈال دی گئی ہیں۔ علامہ اقبال نے بنتِ حوا کو نصیحت کی تھی کہ اگر وہ اپنی زندگی حضرت فاطمہؓ کی طرز پر گزارے، تو اس کی گود سے حسینؓ جیسے عظیم شخصیتیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔ مگر آج کی دنیا نے مسلمان عورت کو اس کے اصل مقام سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔
معاشرے کی ستم ظریفی دیکھئےکہ اگر ایک کیتھولک راہبہ مکمل لباس اور حجاب میں نظر آئے تو اسے پاکیزہ اور باوقار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب ایک مسلمان عورت اپنے ربّ کے حکم پر حجاب کرتی ہے تو اسے مظلوم یا پسماندہ کہا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار دراصل اسلامی اقدار کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے تحت مسلمان عورت کو اس کے اصل مقام سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن حقیقی عزّت اور وقار وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں ہے، کیونکہ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی پوشیدہ ہے۔یہ سب دراصل ترقی یافتہ اور سیکولر ممالک کے وہ ہتھکنڈے ہیں، جن کے ذریعے بے حیائی اور بے حجابی کو عام کیا جا رہا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی مجرمانہ خاموشی نے اس سازش کو مزید تقویت دی ہے۔ یہ قوتیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہیں جہاں بیٹی اپنی ماں سے اپنے باپ کے بارے میں نہ پوچھ سکے، جہاں والدین اپنی اولاد سے بازپرس نہ کر سکیں، اور جہاں خاندانی اقدار مکمل طور پر مٹ جائیں۔ مغربی معاشرہ جسے نیم برہنہ عورتوں کی سڑکوں پر آزادانہ گھومنے سے کوئی مسئلہ نہیں، مگر جب ایک مسلمان عورت اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے حجاب کرتی ہے تو انہیں خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ منافقت اور دوہرے معیار کی انتہا ہے کہ بے حجابی کو آزادی کہا جاتا ہے، مگر حجاب کو جبر۔ یہ دراصل اسلامی اقدار کے خلاف ایک عالمی سازش ہے، جس کا مقصد مسلمان خواتین کو ان کی اصل شناخت سے محروم کرنا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان عورت کا وقار اس کے ایمان، حجاب اور پاکدامنی میں ہے، وہ اس کی حفاظت کے لیے ہر آزمائش کا سامنا کر سکتی ہے۔یہ مغربی دنیا کا دوہرا معیار اور تعصب ہی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ وہی مغرب جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے، اسلام کے اصولوں اور اسلامی لباس کو آزادی کے خلاف تصور کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ذمّہ داری کو سمجھیں اور دنیا کو یہ باور کرائیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو معاشرے میں حقیقی عزّت، وقار اور حقوق فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے ایسا بلند مقام دیا جو کسی اور مذہب یا تہذیب میں نظر نہیں آتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بے حیائی اور بے حجابی کے کلچر کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اسلامی اقدار اور عورت کے حقیقی وقار کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
رابطہ۔09422724040
[email protected]