مختار احمد قریشی
خواتین کی ذہنی صحت ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اکثر معاشرتیخاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ توقعات، خاندانی ذمہ داریاں، اور روایتی کردار خواتین پر وہ دباؤ ڈالتے ہیں جو اکثر ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عورتیں اپنے ذہنی مسائل کو چھپاتی ہیں، کیونکہ سماج میں انہیں کمزور، جذباتی یا توجہ کی طلب گار سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذہنی صحت کا یہ بحران دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے، مگر اس پر گفتگو کم ہی کی جاتی ہے۔
خواتین کی ذہنی صحت متاثر ہونے کی بڑی وجوہات میں معاشی انحصار، گھریلو تشدد، تعلیم کی کمی، جنسی ہراسانی اور کام کے دوہرے بوجھ شامل ہیں۔ ایک عورت جب گھر کی بھی ذمہ داری اٹھاتی ہے اور دفتر میں بھی اپنی صلاحیتیں ثابت کرتی ہے، تو وہ اکثر خود کو فراموش کر بیٹھتی ہے۔ ذہنی دباؤ، اضطراب، اور ڈپریشن جیسے مسائل انہیں اندر ہی اندر کھوکھلا کرتے ہیں، مگر وہ سماج کے خوف سے مدد نہیں لیتیں۔ بعض اوقات یہ خاموش تکلیف خودکشی جیسے انتہائی اقدام تک بھی لے جا سکتی ہے۔
خواتین کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ ذہنی بیماری کو ایک حقیقت تسلیم کرے اور اس پر کھل کر بات ہو۔ حکومت، تعلیمی ادارے، اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ ذہنی صحت سے متعلق آگاہی مہمات چلائیں، تاکہ خواتین خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔ خاندانوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو صرف خدمت گزار نہ سمجھیں بلکہ ان کے احساسات اور جذبات کا احترام کریں۔ ذہنی صحت کا تحفظ دراصل معاشرے کی مجموعی فلاح کا ضامن ہے، اور اس کی شروعات عورت کے دل و دماغ سے ہوتی ہے۔ایک ماں کی ذہنی صحت صرف اس کی ذاتی کیفیت نہیں بلکہ اس کے بچوں اور پورے خاندان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر ماں ذہنی طور پر دباؤ کا شکار ہو، تو وہ بچوں کی پرورش میں بھی مشکلات محسوس کرتی ہے۔ بچے ایسے ماحول میں یا تو خود بھی ذہنی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں یا عدم توجہی کا شکار ہو کر بگڑتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماں کی ذہنی کیفیت پر نظر رکھی جائے، اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور اسے جذباتی سپورٹ فراہم کی جائے تاکہ وہ ایک بہتر نسل کی تربیت کر سکے۔
دیہی علاقوں میں خواتین کی ذہنی صحت کا بحران اور بھی پیچیدہ ہے۔ تعلیم کی کمی، صحت کی سہولیات تک عدم رسائی، ثقافتی پابندیاں اور مردوں کی اجارہ داری دیہی خواتین کو خاموشی کا قیدی بنا دیتی ہیں۔ وہ نہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکتی ہیں، نہ کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کر سکتی ہیں۔ اکثر انہیں جناتی اثر، جادو یا توہم پرستی کے نام پر ذہنی علاج سے دور رکھا جاتا ہے۔ ان کی خاموش چیخیں صرف اندر ہی اندر گونجتی ہیں، جنہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔
میڈیا اور تعلیمی اداروں کا کردار خواتین کی ذہنی صحت کو اجاگر کرنے میں نہایت اہم ہے۔ ڈراموں، فلموں اور خبروں میں ایسے موضوعات کو مثبت انداز میں پیش کیا جانا چاہیے تاکہ ذہنی بیماری کو بدنما داغ نہ سمجھا جائے۔ تعلیمی نصاب میں ذہنی صحت سے متعلق مضامین شامل ہونے چاہئیں تاکہ نئی نسل میں شعور پیدا ہو۔ ساتھ ہی حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لیے علیحدہ ذہنی صحت مراکز قائم کرے، مشاورتی سہولیات بڑھائے اور ذہنی صحت کو بنیادی صحت کا حصہ قرار دے۔
اسلام سمیت دیگر مذاہب نے خواتین کی عزت، وقار اور ان کی نفسیاتی حالت پر زور دیا ہے۔ اسلام میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر نہایت عظمت دی گئی ہے، اور اسے اذیت دینا سختی سے منع ہے۔ روحانی طور پر بھی اگر عورت کو اطمینان نصیب ہو، تو وہ ذہنی طور پر مستحکم رہتی ہے۔ نماز، ذکر، دعا اور مثبت سوچ اس کی اندرونی کیفیت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرتی نظام کو بھی چاہیے کہ مذہب کی اصل تعلیمات کو سامنے رکھ کر خواتین کی ذہنی کیفیت کا خیال رکھے۔
خواتین کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں صرف سرکاری سطح پر نہیں بلکہ گھریلو، تعلیمی، اور سماجی سطح پر بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہر فرد کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عورت بھی احساسات، جذبات اور ضروریات رکھنے والی انسان ہے۔ اس کی بات سننا، اس کا احترام کرنا، اور وقت پر اس کی مدد کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس خاموش بحران کا حل نکال سکتے ہیں، ورنہ آنے والی نسلیں بھی اسی اندھیرے میں پروان چڑھیں گی۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]