تاریخ گواہ ہے کہ مرد جنگیں لڑتے ہیں اور دنیا اُجاڑتے ہیں لیکن خواتین گھر بسا دیتی اور بکھری ہوئی زندگیوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔کشمیر کی خواتین بھی یہ بھاری ذمہ داریاں بخوبی انجام دیتی جا رہی ہیں ۔اس سر زمین میںجوں جوں سیاسی ہلچل بڑھتی گئی توں توں خواتین بھی خاص کر نامساعدحالات کی چکی میں پستی رہیں۔ یوںبہ حیثیت ایک ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے کشمیری خواتین معمول کی خوشیوں سے محروم ر ہیں اوروہ ذہنی اورنفسیاتی تشدد سب کچھ برداشت کر تی رہیں اور لگاتار برداشت کرتی جارہی ہیں۔وہ اپنے عزیزوں کو خون و خرابہ کے بھینٹ چڑھتی پا تی رہیں ،اپنی دنیا کواُجڑتے دیکھتی رہیں ، اپنے حقوق کی خلاف ورزیاں سہتی رہیں، آبرداؤ پر لگتی پاتی ر ہیں مگر پھر بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے کبھی منہ نہ موڑا ۔وہ بدترین مصائب کا منہ دیکھتے ہوئے بیوہ اورنیم بیوہ اور بیوہ بنتی ر ہیں ، اور اپنے دردوکرب کاعلاج صرف آنسوؤں کے سیلاب سے کر تی رہیں۔
تواریخ میں بہت ساری سرکردہ کشمیری خواتین کا نام نمایاں طور درج ہے جیسے کوٹہ رانی ،لل دید ،حبہ خاتون ،ارنیہ مال ، روپہ بھوانی وغیرہ ۔تاریخ کوان پر فخر ہے ۔ صدیوں پہلے کشمیری سماج میں خواتین کو مردوں سے کم تر درجہ دیا جاتا تھا۔ ماضیٔ بعید میںان کو تعلیم یا ملازمت کے بہت ہی کم مواقع میسر ہوتے تھے ،اس طرح وہ سماجی اور اقتصادی طور کمزور رہتی تھیں ۔ نتیجہ یہ کہ انہیں دبائو سے جھوج کر زندگی جینے پر مجبور ہوناپڑتا تھا مگر گزشتہ ستر سال کے دورانیے میں چونکہ کشمیر ی سماج میں خواتین کے رول میںکافی بدلائو آیا،اس لئے آج کی ایک کشمیری خاتون مرد کے شانہ بشانہ چلتی دیکھی جارہی ہے ۔ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر میں سنہ 1901ء میں فی ہزار خواتین میں سے فقط ایک ہی خاتون تعلیم یافتہ ہوا کرتی تھی لیکن اب یہ تعداد 50فیصدی سے زائدتک بڑھ گئی ہے ۔خواتین آج ہر شعبہ ٔ حیات میں آگے آگے ہیں ، سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں وہ سرگرم اور فعال ہیں۔ آج کافی تعداد میں یہاںخواتین ٹیچر ، افسر ، ڈاکٹر ،انجینئر ،آئی ٹی ماہراور صحافی وغیرہ ہیں جو سر اٹھاکراپنے پیشہ ورانہ فرائض بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں بھی یہاں کی خواتین کو برتری حاصل ہے ۔کشمیری خواتین کی پُر مشقت زندگی کا یہ پہلو بھی قابل دید ہے کہ یہاں برسوں سے انتشار ی صورت حال پائی جاتی ہے اور بیچ منجدھار میں پھنسی کشمیرمیںحواکی بیٹیاں برہم زمانے کے چیلنجوں میں بھی اپنی بقاء اور وقار کی لڑائی لڑنے کی ہمت دکھا رہی ہیں ۔ چنانچہ کہیں کہیں انہیں غیر یقینی حالات کے چکر میں نہ صرف اپنی زندگی اپنے بل پر گزارنا پڑتی ہے بلکہ اپنے کنبے کی کفالت بھی کر نا پڑتی ہے اور اسے صحیح سلامت رکھنے میں پہاڑ جیسی ذمہ داریاں بھی مردانہ وارنبھانی پڑتی ہے ، گھر کاکماؤ مرد حالات کے بھنور میں کھو جائے تو خاتون کو ہی بسااوقات بے گھر بھی ہونا پڑتا ہے ، زندگی کی جنگ میں تن تنہاچٹا نوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے ، بھلے ہی ایسا کر تے ہوئے اس کی نجی اورسماجی زندگی اورصحت پر کافی بُرے اثرات بھی پڑیں، یا اسے ذاتی خواہشات تک کنبہ کی خاطر قربان کرنے پڑیں ۔
آج کل کشمیر میں نامساعد حالات کے باوجود ایسی کثیر التعدادخواتین ہیں جو اپنے خوابوں کو پورا کرنے میں کوشاں ہیں ۔ دیگر شعبوں کے علاوہ کھیلوں کے میدان میں بھی کشمیر ی خواتین کی ہمت اور ان کے ارادے قابل داد ہیں ۔ مثلاً ندیال نگہت کشمیر کی ایک فٹ بال کھلاڑی ہے جس نے 10؍قومی اور ریاستی سطح کے ایوارڈ حاسل کئے ہیں۔وہ کشمیر کی پہلی خاتون فٹ بال کوچ بھی ہیںجو تاحال 30بچوں بشمول تین لڑکیوں کو تربیت فراہم کرچکی ہے۔اقراء رسول بارہمولہ ایک جوں سال کرکٹ کھلاڑی ہیں جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کی جدو جہد کررہی ہے ۔ڈاکٹر شرمین مشتاق پہلی کشمیری خاتون ہے جس نے گلمرگ میں سنوکار ریلی میں جوش وجذبے سے شرکت کی ۔اقراء ایوب ایک سینئر رگبی کھلاڑی ہیں اورسب سے زیادہ مشہور کم سن بچی تجمل اسلام ہے ،جس نے 2016میں اٹلی میں منعقدہ انڈر 8عالمی کک باکسنگ میں طلائی کا تمغہ حاصل کیا ۔کھیلوں اور ملازمت کے علاوہ ایسی بھی بیشتر کشمیری خواتین ہیں جنہوں نے بطور اینٹر پرینورس کام سنبھالا ہواہے۔ بعض کشمیری لڑکیاں بڑی رسک کے باوجود صحافت کے شعبہ میں متاثر کن کارنامے انجام دے رہی ہیں ۔اس قسم کی بہادرانہ روشوں سے کشمیری خواتین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ۔وہ اپنی خواب پورا کر نے کی راہ میںدرپیش مشکلات مسائل سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔تواریخ نے کشمیر یوں کو منفرد طاقت بخشی ہے ، یہ قوم نامساعد حالات کے تھپیڑے سہنے کے باوجود بھی ہمیشہ فاتح بنی اُبھر کر آئی ہے ۔یہی موروثی صلاحیت کشمیر کے حالات میں مثبت بدلائو لانے میں مدد گار ثابت ہو گی۔کشمیر میں خواتین کو با اختیار بنانے سے خطہ میں امن قائم رکھنے میں نتیجہ خیز مدد مل سکتی ہے ،اگر ان کا اپنا باعزت روزگار ہے تو اُن کی آواز کو کنبے میں زیادہ سنوائی مل سکتی ہے ۔
آئیں ہم سب اپنے سماج میںجدید تعلیم ، سماجی بیداری ،بہتر اقتصادی حالت پیدا کر نے کے لئے سماج میں خواتین کے مفید رول کو تسلیم کریں اور کشمیری خواتین کو میدان ِ عمل میں اپنی جیت کے جھنڈے گاڑنے کاحوصلہ دیں ۔