ساریہ سکینہ
دروازے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے۔ میاں صاحب…میاں صاحب… میاں اشرف خان صاحب ابھی چارپائی پر لیٹے تھے -آنکھ لگنے والی تھی کہ دروازه زور سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی- میاں صاحب نے پاؤں چارپائی سے نیچے کئے اور پاؤں سے جوتیاں ٹٹولتے ہوئے کہا، كون کمبخت ہے جو سونے بھی نہیں دے رہا ہے- کمرے سے باہر آئے- میاں صاحب…. میاں صاحب… دروازے سے آواز آرہی تھی۔
مر گیا میاں.. اور مرگیا صاحب.. ابے دروازہ توڑ رہی ڈالے گا کیا…؟ لگتا ہے توڑنے کے ارادے سے ہی آیا ہے… ابے كون ہے تو …..؟ میاں صاحب نے غصے سے پوچھا۔
میں ہوں… میاں صاحب…
میں کون …..نام توکچھ ہوگا نا تمہارا ….؟
میں جگنو ….
کون جگنو…..؟
جی میں حاجی صاحب کا ملازم.. جگنو …..
اچھااچھا…. جگنو… تبھی تو میں سونچوں اتنا دم كس كے ہاتھوں میں ہے جو میاں اشرف خان صاب کا دروازہ اتنی زور سے پیٹے۔
میاں صاحب نے دروازہ کھولا لیکن جگنو کی آنکھیں نیند کے مارے ابھی بھی بند تھیں اور وہ ابھی بھی دروازہ پیٹ رہا تھا۔
میاں صاحب نے کہا، دروازہ تو کھلا ہے اب کیوں پیٹ رہے ہو….۔
جگنو نے آنکھیں کھولیں تو میاں صاحب كو سامنے دیکھا- میاں صاحب غصے میں تھا اور آنکھوں سے هی پوچھ بیٹھا.. تو یہاں کیوں آیا ہے….؟
میاں صاحب…. حاجی صاحب نے آپ کو کل دعوت پہ بلایا ہے… جگنو نے کہا ۔
میاں صاحب نے غصے سے كها،دعوت…؟ ایسی کونسی دعوت آن پڑی جس كا بلاوا رات كو دیا جاتا ہے..؟
سب كو بلایا هوگااب جا كے آخر میں میرا نام آیا ہوگا۔ تبھی تو اتنی رات کو بلانے آیا ہے ورنہ آج تک توحاجی نے کبھی ایسی غلطی نہیں کی,خود سے بڑبڑاتے ہوئے ۔ ۔ ۔
نہیں… نہیں… میاں صاحب…..جگنو نے بات كاٹتے ہوئے کہا، وہ حاجی صاحب نے مجھے کل شام کو ہی کہا تھا آپ کو آج صبح بتانے کے لئے پر میں بھول گیا.. اب یاد آیا تو آپ کو بتانے کیلئے آیا۔
ارے…. نہیں …کوئی بات نہیں …خیر یاد توآگیا ورنہ دعوت ختم بھی ہو جاتی اور ….تو یاد کرتا رہتا۔میاں صاحب جگنو سے دروازے پہ هی بات کر رہا تھا تو اندر سے آواز آئی ، کون ہے میاں صاحب… میاں صاحب کی بیوی رضیہ بیگم نے آواز دی ۔
میاں صاحب نے جگنو کو رخصت کیا اور دروازه بند کیا- اندر كے دروازے کی کنڈی مارتے ہوئے کہا ، بیگم یہ جگنو تھا… حاجی صاحب کا ملازم…. اور چارپائی پر لیٹ گیا جو کمرے کے بائیں جانب بچھی تھی- اس نے دائیں طرف کروٹ لی اور سو گیا۔
کچھ دیر بعد دروازہ زور سے کھٹکھٹانے کی آواز آئی- میاں صاحب کی نیند ٹوٹی – دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی تو خود سے هی بڑبڑانے لگے ,لگتا ہے آج میری قسمت میں چین سے سونا نہیں لکھا ہے اور وہیں سے آواز لگائی ، کون ہے ……؟
اس بار کوئی آواز نہیں دے رہا تھا- بس اندر کا دروازہ پیٹنے کی آواز آ رہی تھی- میاں صاحب نے رضیہ بیگم کی اور نظر ڈالی جو کمرے کی دوسری جانب چارپائی پر گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی- پورے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی- آج تو رضیہ بیگم کی خراٹوں كی آواز بھی نہیں آرہی تھی – ایک دم سے دروازہ پیٹنے کی آواز تیز ہوگئی- میاں صاحب کے دل میں دہشت سی بیٹھ گئی- اب وه ڈر كے مارے ہل بھی نہیں پا رہے تھے- مانو جیسے لقوہ مار گیا ہو- آواز لگانے کی کوشش کر رہے تھے پر گلے سے آواز نہیں نکل رہی تھی -پر كوشش كركے پوچھا,..كون.. ہیں…..؟
کوئی جواب نهیں ملا- صرف دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز تیز ہو رہی تھی۔ میاں صاحب کی نظر دروازے کی کنڈی پڑھ گئی- دروازہ اتنی زور سے ہل رہا تھا کہ لگتا تھا کہ کنڈی نکل جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کی کنڈی ٹوٹ گئی اور دروازہ کھل گیا-اب میاں صاحب کی جان حلق پر آگئی۔ اپنے دل كی دھڑکن کے علاوہ انہیں کچھ بھی سنائی نهیں دے رهی تھا۔
میاں صاحب نے رضیہ بیگم کی اور نظر ڈالی پر وہ چین سے سو رهی تھی -اب بیگم کو آواز دینے والے ہی تھے کہ دروازے سے ایک لمبا چوڑا آدمی نہایت ہی عمده پوشاک پہنے هوے کمرے کے اندر داخل ہوا- میاں صاحب اس شخص کو دیکھتا ہی رہا- اس شخص نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا… کیا تم میاں اشرف خان صاحب ہو…..؟
میاں صاحب نے ڈر کے مارے سر ہلاتے ہوئے هاں کہا۔ ۔
كیا تمهارے والد کا نام میاں عارف خان صاحب ہے۔ ۔ ۔ ؟
جی….- میاں صاحب کچھ کہتے کہ اس شخص نے اس کو کہا, تمہارا بلاوا آیا ہے۔ ۔۔
بلاوا….. کہ۔ ۔کہ۔ ۔ کہاں سے …..؟ میاں صاحب کی زبان لڑکھڑانے لگی۔
وہیں سے جہاں سے سب کو بلاوا آتا ہے۔ ۔ ۔
پر..تم کون ہو۔ ۔ ۔ ؟
میں موت کا فرشتہ ہوں۔ ۔ ۔
یہ بات سنتے ہی میاں صاحب کی جان آدھے جسم سے نکل گئی بس اب حلق پر كچھ سانسیں باقی تھیں۔
موت کا فرشتہ۔ ۔ ۔ ! ۔
ہاں.. میں تمہاری روح قبض کرنے آیا ہوں….. وہ مزید بولا , پر آج نہیں۔ ۔ ابھی تمہارے پاس 24 گھنٹے ہیں۔ ۔ تمهارے جتنے بھی آدھے ادھورے کام ہیں ان کو پورا کرو،جن سے قرضہ لیا ہے وہ لوٹا دو…. اور ہاں اس ملاقات کے بارے میں کسی سے بھی ذکر نہ کرنا ورنہ تمہارے پاس جتنا بھی وقت بچا ہے وہ تم سے چھین لیا جائے گا۔ ۔ ۔
میاں صاحب نے ڈری آواز میں پوچھا, اب تو مرنا ہر حال میں طے هے…. اب یہ بھی بتا دو کہ میری موت کیسے ہوگی۔ ۔ ۔؟
تمہاری موت۔ ۔ ۔ اتنا سنتے ہی میاں صاحب کی آنکھوں پر نیند طاری ہوگئی۔ آنکھیں بند ہوگئیں اور وہ کچھ سن نہ پایا-جب آنکھ کھلی تو صبح ہو گئی تھی- اس نے اپنی نظریں پورے کمرے پر دوڑائیں, دروازے کی کنڈی دیکھی تو وہ صحیح تھی-اپنے جسم پر هاتھ پھیر لیا-پورا جسم بھی
ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔
میاں صاحب جلدی سے اٹھ کر غسل خانے میں گھس گئے ۔ وهاں سے نہا دھو کر فارغ ہوگئے تو آئینے کے سامنے بال بنا رہے تھے کہ رضیہ بیگم نے آواز دی۔
میاں صاحب ناشتہ کرلو… رضیہ بیگم نے پھر آواز دی, كهاں كھوگئے… ناشتہ کرلو ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ ۔ ۔
میاں صاحب کے ذہن پر رات والے واقعے کا پورا اثر ہو رہا تھا اس لئے ساری باتیں اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں- کہی هوئی باتیں کہیں سچ ثابت نہ ہو ،اس لئے بھوک ہونے کے باوجود ناشتہ کرنے سے انکار کر دیا- رضیہ بیگم نے وجہ پوچھی توكها بھوک نہیں ہے۔
میاں صاحب نے رضیہ بیگم سے پوچھا۔ بیگم،کل شام کو کوئی آیا تھا کیا۔ ۔ ۔ ؟
رضیہ نے جواب دیا,
ہاں… جگنو آیا تھا آپ هی نے تو بتایا تھا۔ ۔ ۔
اور اس کے بعد… کوئی اور آیا تھا۔ ۔ ۔ ؟
اس کے بعد…. تو یاد نہیں میں سو گئی تھی… پر دیر رات تم کسی سے باتیں کر رہے تھے…. لگا تھا مجھے… پر رات کو نیند کی دوا لی تھی ،اس لئے آنکھ نہ كھل پائی- پر تم پوچھ كیوں رہے ہو…..كیا کوئی آیا تھا۔ ۔ ۔ ؟
نہیں نہیں …..کوئی نہیں آیا تھا… وہ تم رات کو خراٹے نہیں مار رہی تھی اس لئے پوچھا نیند تھی یا نہیں۔
میاں صاحب کو اب یقین ہو گیا کہ کل کا واقعہ خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی اور خود سے ہی بڑبڑھانے لگا،کہ میرے پاس اب کچھ ہی گھنٹے بچ گئے ہیں۔
میاں صاحب كرسی پر بیٹھ گئے-هاتھ میں قلم اوركاغذ لیا-اور حساب لگانے لگا کہ كس سے كتنا اُدھار لیاتھا-كمرے كی بائیں جانب ایک چھوٹا ساباورچی خانہ تھاجس میں رضیہ بیگم سبزی كاٹ رهی تھی-اس كو كچھ عجیب سا تو لگ رها تھا، اس لئے وه باورچی خانے سے هی كبھی میاں صاحب کی اوردیكھ رهی تھی اور كبھی سبزی كاٹ رهی تھی۔
رضیہ بیگم نے پوچھ هی ڈالا،كیا بات هےآپ ٹھیک تو هیں۔ ۔ ۔ ؟ ناشتہ بھی نهیں كیا…کہیں کوئی خواب دیکھا گیا۔ ۔ ؟ جو سویرے سویرے حساب لگانے بیٹھ گئے۔
یہ بات سنتے هی میاں صاحب كے چهرے كا رنگ اُڑ گیااوربات ٹالتے هوئےكها،بیگم تم كئی دنوں سے نیا شلوار سوٹ لینے كو ضد كر رهی تھی….اپنی جیب میں هاتھ ڈالا اور كچھ روپے بیگم كی اور بڑھائے اور كها ،یہ لو…..اپنے لئے نیا شلوار سوٹ لینا۔ ۔ ۔
رضیہ بیگم نے كھڑے هو كے روپے ہاتھ میں لئے اور حیرانگی سے میاں صاحب كی اور دیكھتے ہوئے طنز كے لهجے میں كها،میاں صاحب….جو جان دے …پر دوا كے لئے ایک آنہ نہ دے وه میاں صاحب مجھے ….رضیہ بیگم كو شلوار سوٹ كے روپے دے…یہ بات كچھ ہضم نہیں هورهی هے۔
میاں صاحب نے كچھ نهیں كها بس پھر سے حساب كرنے میں لگ گیا۔
میاں صاحب كبھی حساب كے كاغذ دیكھتا تھا اور كبھی گھڑی كی سوئی كی اور دیكھ رہا تھا -اس نے گھڑی دیكھتے هوے کہا ، یہ كمبخت گھڈی روز آرام سے چلتی ہے…. بس آج ہی كے دن نہ جانے كیوں تیز چل رہی هے۔ میاں صاحب كھڑے هوگئے اور كچھ روپے دراز میں ركھے تھے وه نكال كر ہاتھ میں ركھے اور باہر كی اور جاتے ہوئے کہا،بیگم میں باہر جارہا ہوں ….دوپهر كا کھانا باہر سے ہی کھا كر آوں گا….انتظار نہ كریو۔
باہر نكلتے ہوئے روپے جیب میں ڈالے اور بازار كی اور چلے- تھوڑی دیر چلتے ہی اگلے نكڑ كی آخری دوكان كے سامنے پہنچے- یہ كپڑوں كی دوكان ,ان كے دوست حاجی صاحب كی تھی-حاجی صاحب حُقہ پی رهے تھے-میاں صاحب پر نظر پڑی اور مسكراتے ہوئے کہا ،سلام میاں …آج سواری كس اور جارہی ہے…آج دعوت پر آرہے ہیں نا۔ ۔ ۔؟
میاں صاحب نے سلام كا جواب دیا اور حاجی صاحب كی دوكان پر چڑھ گیا-حاجی صاحب نے حُقے كی پا ئپ میاں صاحب كے هاتھ میں تھمادی-جیسے ہی دو كش مارے ان كی نظر دیوار پر ٹنگی گھڑی پر پڑھ گئی تو وه یک دم اُٹھ كھڑے هو گئے اور باہر كی اور چل پڑے – حاجی صاحب نے پوچھا،كیا میاں.. جلدی میں كهاں جارهے هو ۔ ۔ ؟ شام كو دعوت۔ ۔ ۔
میاں صاحب نے بات كاٹتے ہوئے كہا ,ہاں….ہاں…..شام كو ملتے ہیں۔
میاں صاحب اپنی حالت میں مست خود سے حساب لگاتے ہوئے جا رہے تھے- تھوڑی دور پهنچے تو اچانک سے دو لڑكے آگے سے دوڑ لگاتے هوے اِن سے ٹكرا كے بھاگ گئے- ایسا لگ رہا تھا جیسے ان لڑكوں كا كوئی پیچھا كر رها هو پر ایسا نه تھا۔
ارے….ارے…..كیا ہوا…میاں صاحب نے اپنی حالت درست كی اور كہا, بال بال بچ گیا…..ورنہ نالی میں ہی گرا دیتے……آگے بڑھتے ہوئے كہا ,پتہ نہیں كیا ہوگا آج كل كے لونڈوں كا۔
جمن، جو جمن حلوائی كے نام سے مشهور تھا، اس كی كریانہ كی دوكان بس دو قدم دور تھی-اس كی دكان كے پاس پہنچتے ہی میاں صاحب نے جمن حلوائی كو سلام كیا اور دكان پر چڑھ گیا-دراصل میاں صاحب جمن كا قرضدار تھا- كچھ سال پهلے جمن سے پانچ هزار روپے ادھار لیئے تھے- اگلے مہینے دونگا كہہ كر اب تیسرا سال چڑھ گیا تھا- جیسے ہی جمن كی نظریں میاں صاحب پر پڑی تو وه حیرانگی سے پو چھنے لگا،
میاں صاحب تم یہاں…..؟ آنكھوں پر یقین نہیں ہو رہا ہے- تین سال پہلے تم كو اس گلی سے گزرتے دیكھا تھا-اب آج ۔ ۔ ۔
جمن نے زور سے ہنسی اُڑھائی اور كها،لگتا هے پیسوں كا انتظام ہو گیا هے ۔ ۔ ۔
میاں صاحب نے شرم كے مارے مسكراتے هوے كها, ہاں…. ہاں ہو گیا ہے …اور جیب میں ہاتھ ڈالا۔
جمن كی خوشی كا ٹھكانہ نہ رہا- كہاں روز روز میاں صاحب كے دروازے پر وصولی كے لیئے جا نا اور اگلے مہینے كا وعده لے كر خالی ہاتھ واپس آنا-اور آج تو خود پیسے آرہے تھے- جمن تو بس اس انتظار میں تھا كہ كب میاں صاحب جیب سے هاتھ نكال كر ان كے هاتھ میں روپے تھمادے-پر جمن كے دل كا خیال،خیال ہی ره گیا، جب میاں صاحب كے چہرے كا رنگ اُڑتے ہوئے اور انہیں اپنی جیب ٹٹولتےهوے دیكھا- تو كها،
ارے كیا ہوا میاں….. ؟ كیا بات هیں-چهرے كا رنگ كیوں اڑ گیا….سب خیریت تو هے نا۔ ۔ ۔ ؟
وه….اسی میں تو ركھے تھے….كهاں گئے۔ ۔ ۔ ؟
دیكھو میاں,اب ایسا نہ كہنا كہ روپے چوری ہو گئے ہیں-تین سال سے نئے نئے بہانے سُن سُن كے كان پک گئے ہیں….اب ۔ ۔ ۔
نہیں نہیں….واقعی میں نے اسی میں ركھے تھے۔ ۔ ۔
اچھا پھر كہاں گئے…؟ جمن نے غصے سے پوچھا۔
لگتا هے چوری ہو گئے ہیں۔
جمن كو اب غصہ چڑھ گیا اور كہا،میاں…اب میرا پاره مت چڑھاؤ بہت ہو گیا – ایک تو روپئے لوٹانے نہیں ہیں, اوپر سے میرا وقت خراب كر رہے ہو۔ دیكھو میاں…جمن اگر دینا جنتا ہیں تو لینا بھی جانتا ہیں….. اب تم ایسے تو نہیں دوگے….اب میں شام كو تیرے گھر آو نگا ….اگر خود نہیں دیئے نا….تو قسم اپنے دھندے كی تیرے چولہے سے ہانڈی اُٹھا كر بیچو نگا اور اپنی وسولی پوری كرونگا….تب میرا نام جمن نہیں….سمجھے…..چل نكل یہاں سے….جمن نے دھكا مارتے ہوئے كہا۔
میاں صاحب كی حالت اب خراب تھی اور بھی خراب هوئی جب دیكھا كہ اِرد گِرد كے لوگ جمع ہو كر باتیں بنا رہے ہیں – وه جلدی سے دكان سے اُترا اور واپس اسی گلی سے گھر كی اور روانہ ہوا – راستے میں وه خود سےباتیں كرنے لگاکہ روپے آخر گئے كہاں ۔ ۔ ۔ ؟
اب وه یاد كرنے لگا كہ گھر سے لیكر جمن كی دوكان تک كیا كیا ہوا – تو اس كو یاد آیا كہ دو لڑكے راستے میں اس سے ٹكرائے تھے- ابھی یہ خیال آیا ہی تھا كہ اس كو ان دو لڑكوں پرنظر پڑی وه دونوں گلی كے آخر پر کھڑے كسی تیسرے شخص سے بات كررهے تھے-اس نے آواز لگانی چاهی پر دل میں خیال آیا كہ یہ دونوں لڑكے اچھی پوشاک میں ہیں اور چہرے سے بھی ٹھیک ٹھاک ہیں – چور تو نہیں لگ رہے اوراگر پوچھنے پر انهوں نے انكار كردیا تو جو بچی کچھی عزت ہے وه بھی جائے گی- اس لئے دونوں كا پیچھا كرنا هی مناسب سمجھا۔ کہ كسی جگہ اكیلے موقعہ ملنے پر دونوں سے پوچھونگا ،کہیں انهوں نے میری جیب تو نهیں كاٹی۔
جب دونوں لڑكے دوسری گلی سے نكلے تو میاں صاحب ان كا پیچھا كرنے لگا- دن پورا چڑھ چكا تھااور میاں صاحب كو شدّت سے بھوک بھی لگ رہی تھی پر جیب میں پھوٹی كوڈی بھی نہیں تھی- كہ تبھی دیكھا كہ دونوں لڑكے كسی دوكان پر چڑھ كر بریانی کھانے لگے۔
كمینے میرے پیسوں سے بریانی کھارہے ہیں اور میں یہاں بھوک سےتڑپ رہا ہوں…..میاں صاحب غصے میں خود سے بڑبڑانے لگا – كہ دیكھا دونوں نے بریانی ختم كی اور سو كے نوٹ نكالے بِل چكانے كے لئے- تو میاں صاحب تڑپ كر كہنے لگا، ہائے میرے نوٹ۔ ۔ ۔
دونوں لڑكے اٹھے اور آگے چلے اور دوسری گلی سے نكلے- میاں صاحب ان كا پیچھا كر رہا تھا اور اندر سے تڑپ رها تھا كہ میرے روپے تو گئے-تھوڑی دیر اور پیچھا كركے میاں صاحب تھک گیا اور خود سے كہنے لگا كچھ فائیدہ نہ ملا….لگتا هے اب رضیہ بیگم سے ہی روپیے واپس لینے ہونگے اور ادھار چكانا ہوگا ۔ ۔ ۔
شام ہونے كو تھی كہ میاں صاحب كو یاد آیا كہ مدت ختم ہونے كو ہے- اس نے اب گھر جانا هی مناسب سمجھا – اس نے اِدهر اُدهر دیكھا تو پایا وه گھر كے پاس كھڑا ہے- كچھ سمجھ نہ آیا اور گھر كے اندر داخل ہو گیا-رضیہ بیگم نے جلدی سے رسوئی گھر سے پانی كا گلاس لایا- میاں صاحب نے ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس خالی كیا اور سانس لی- اور كہا،بیگم میں نے سویرے تمہیں كچھ روپے دیئے تھے۔ ۔ ْ
كون سے روپے….بیگم نے چونک كر كہا۔
وه جو تمہارے سوٹ كے لئے دیئے تھے۔ ۔ ۔
آپ كی عادت سے واقف ہوں میں ۔ ۔ ۔ پهلے دیتے ہو پھر واپس لیتے ہو…اس لئے اس بار میں تم كو یہ موقع نہ دونگی…میں نے وه روپے خرچ كر دیئے۔ ۔ ۔
ٹیبل پر ركھے بیگ كی اور اشاره كرتے ہوئے كہا, میں نے سوٹ لایا…اور گلاس اٹھاكر رسوئی گھر میں رکھنے گئی۔
میاں صاحب یہ سنتے ہی بے سود ہوگیا اور ماتها پكڑ كر كہا, اب كیا ہو گا۔ ۔ ۔
رضیہ كو نظر پڑی تو پوچھا،كیا بات ہے۔ ۔ ۔؟
میاں صاحب نے جواب نہ دیا اور تبھی یاد آیا كہ حاجی صاحب كے یہاں چائے پینے جانا تھا اور اس سے ہی كچھ مدد لی جا ئے۔ ۔ ۔
رضیہ بیگم نے رسوئی گھر میں كام كرتے ہوئے كہا ،آج میں جب سبزی لینے بازار جا رہی تھی تو برآمدے پر روپے پڑے ملے…رسوئی گھر سے باهر نكلتے ہوے كہتی ہے، مجھے لگتا ہے وه آپ۔ ۔ ۔
وه چپ كر جاتی ہے یہ دیكھ كر كہ میاں صاحب بغیر بات سنے ہی گھر سے باہر نكل چكا ہے اور وه برآمنده سے ہی آواز دیتا هے،
دیكھو بیگم میں حاجی صاحب كے یہاں جا رہا ہوں ….میرے آنے تک دروازه بند ہی رکھنا…كوئی آئے تو دروازہ نہ کھولیو۔ ۔ ۔
یہ کہہ كر حاجی كے یهاں کی طرف نكلتا ہے۔ راستے میں وه سوچنے لگتا ہے کہ حاجی صاحب سے اُدھار لیا جائے اور جمن كا قرضہ چكایا جائے- پھر خیال آیا نہیں ایک اُدھار چكا نے كیلئے دوسرا قرضہ لینا صحیح نہیں-اس لیئے میں اپنی دوكان گروی رکھوں گا…..خیال ختم ہوتے ہوتے حاجی صاحب كا گھر آگیا۔
میاں صاحب نے سلام كی تو گھر كے اندر حاجی صاحب كے علاوه اور دوشخص موجود تھے -رضا صاحب اور شیخ صاحب جو میاں صاحب كے بھی جاننے والے تھے ان كو بھی دعوت تھی-سب نے سلام كا جواب دیا اور حاجی صاحب نے ہاتھ سے اشاره كیا اور كہا،آؤ میاں ابھی تک كهاں تھے…..؟ یهاں بیٹھو….
سامنے كی كرسی خالی پاكر میاں صاحب جا بیٹھے۔
رضا صاحب نے كہا ،اور كہو…میاں…كیا حال چال ہے….اب اپنے دیدار نہیں كراتے ہو کبھی ہمیں بھی اپنے گھر دعوت پہ بلاؤ۔ ۔ ۔
سب كو معلوم تھا كہ میاں صاحب ایک كنجوس شخص ہیں وه اس كی پھركی لے رہے تھے-
میاں صاحب نے غور نہ كیا ، كیوں كہ وه اپنے هی غم میں گم تھا-وه موقع پاكر حاجی سے بات كرنا چاهتا تھا مگر موقع نہ مل رہاتھا۔
چاروں نے چائے ختم كی تو ایک ایک كر كے حقہ پینے لگے- رضا صاحب اور شیخ صاحب نے رخصتی لے لی۔ اب میاں صاحب نے موقع غنیمت سمجھ كر بات كرنی چاہی- اب وه دوكان گروی رکھنے كی بات كرنے والے ہی تھے كہ ٹیلیفون كی گھنٹی بجی ۔ حاجی صاحب جلدی سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور فون كا رسیور اٹھا كر كان تک لایا اور گفتگو شروع كی- میاں صاحب اب انتظار میں تھا کہ كب حاجی صاحب فون سے فارغ ہونگے تو روپے كے بارے میں بات كی جائے۔
اُدھر میاں صاحب كے گھر رضیہ بیگم نے دروازه اندر سے ہدایت كے مطابق بند كیا تھا-اور اپنے كام میں جٹ گئی تھی تو یاد آیا آج مرزا صاحب كا جنم دن ہے تو كیوں نہ آج حلوه بنایا جائے۔ اس لئے وه رسوئی گھر میں جلدی سے کڑھائی میں گھی ڈال كر چولہے پر چڑھایا اور دیگر ضروری اشیاء كو نكالنے لگی تو دروازے پر زور سے كسی نے هاتھ مار دیا۔
ابھے باہر نكل… عورتوں كی طرح اندر كیا چھپا ہے آج تو فیصلہ ہو كے رہے گا……چل دروازه کھول …..یہ جمن تھا۔
جمن كی آواز سنتے ہی رضیہ گھبرا گئی اور اندر سے ہی آواز لگائی, کہ میاں صاحب یہاں نہیں ہیں… وہ شام تک لوٹ آئیں گے…. رضیہ نے گھبراتے ہوئے کہا,اور آپ كا سارا قصہ ختم کریں ۔ ۔ ۔
ختم تو آج میں اس کو کروں گا… اگر اس نے میرے روپے نہ لوٹائے.. آنے دو جائیگا کہا… ہم بھی یہیں پر ہیں ۔ ۔ ۔ جمن نے غصّے سے کہا۔
رضیہ بیگم ان سب باتوں میں بھول گئی کی چولہے پر گھی چڑھا کر رکھا ہے۔ کبھی اتنا گرم ہو گیا کہ کڑھائی نے آگ پکڑ لی ۔
رضیہ بیگم کو نظر پڑی تو دوڑتی ہوئی باہر نکل آئی اور وایلا کرنے لگی۔ آس پڑوس کے لوگ جمع ہونے لگے اور سب نے آگ بجھانے کی کوشش کی پر آگ قابو میں نہیں آ رہی تھی ۔
ادھر میاں صاحب ہر بات سے بے خبر حاجی صاحب سے روپے لے لیتے تو جگنو نے خبر پہنچا دی کہ میاں صاحب كے یہاں آگ لگ گئی ہے اور کچھ بھی نہیں بچا – یہ سننا تھا کہ میاں صاحب کا پورا جسم پسینے سے تر ہو گیا اور سینے میں درد ہونے لگا- سر بھاری سا ہوگیا اور وہ وہیں زمین پر پیٹھ کے بل گر گیا- ایسا لگ رہا تھا کہ پوری دنیا گھوم رہی ہے اور وہ دنیا کے بیچ میں جھولا جھول رہا ہے- اس کی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی اب ایک فلم کی طرح چلنے لگی جس میں کبھی وہ اپنی رضیہ بیگم کو دیکھتا ہے اور کبھی ان لوگوں كو جن سے اس نے قرض لیا تھا اور کبھی اپنے آپ کو اور ایسے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا تا گیا- اب اس کو لگا کہ مرنے کا وقت آگیا پر اس کا کام نامکمل ہی رہ گیا کہ جس کام کے لئے مہلت ملی تھی وہ کام نہ ہو پایا اور خیال کرنے لگا کی پوری زندگی کنجوس طبیعت ہونے کے سبب کوئی بھی کام اپنے وقت پر مکمل نہ ہو سكا جس کی وجہ سے رضیہ بیگم بھی بے گھر ہو کر رہ گئی اور قرضداروں کا قرضہ بھی رہ گیا – آنکھیں بند ہوگئیں تو ایسا لگا کہ سب اس کو بلا رہے ہیں ۔
میاں صاحب کیا ہوا اٹھو … بار بار ہر طرف سے یہی آواز گونج رہی تھی کہ تبھی لگا كہ آسمان پھٹ گیا اور آسمان سے پانی برسنے لگا، جس نے اس کے پورے جسم کو بھگو دیا۔
اُٹھو میاں صاحب…. اُٹھو….. اب کی بار یہ رضیہ بیگم کی آواز تھی۔
اب بارش تیز ہونے لگی جس نے میاں صاحب کی آنکھیں کھولیں تو دیکھا رضیہ بیگم اس کے پاس کھڑی ہے اور سارا ماحول اپنے گھر جیسا لگ رہا ہے-رضیہ بیگم کافی غصّے میں تھی۔ اٹھو میاں صاحب.. دن سر پر چڑھ گیا آپ ابھی تک سو رہے ہیں … چھت پر ٹینکی کا نل پھٹ گیا ہے اور پورا پانی نیچے ٹپک رہا ہے۔
میاں صاحب کو ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں چارپائی پر سو رہے تھے-محسوس ہوا کہ جو ماجرا تھا وہ ایک خواب تھا -اب میاں صاحب نے قصد کر لیا کہ وہ ہر کام وقت پر کریں گے اور کنجوسی سے کام نہیں لے گا- وہ جلدی سے اٹھا اور نہا دھو کر ٹینکی کا نل ٹھیک کرانے کے لئے کاری گر لایا -رضیہ بیگم نے ناشتہ تیار کیا اور دونوں ساتھ میں بیٹھ کر کھانے لگے اب رضیہ بیگم تھوڑی خوش لگ رہی تھی تو کہا ,رات کو جگنو آیا تھا شاید,آپ کو بلانے کے لئے۔ ۔ ۔
میاں صاحب کے ہوش اُڑ گئےاور کہا،نہیں وہ صرف خواب تھا…. اور دونوں زور سے ہنسنے لگے۔