سہیل سالم
اس نے مجھے سے کہا۔۔۔
’’تجھے اس کے من میں آگ لگانی ہوگی جو ہماری نئی نسل اور نئی صدی کو اندھیرے سے نوازنے والا ہے۔نئی نسل کو اندھیرے سے دور رکھنے کے لئے اس کے من کے آنگن میں آگ لگا دینی ہوگی ‘‘۔
وہ بھیانک تاریخ کا مورخ تھا جو ساٹھ سال کی عمر میں بھی تیس سال کا رنگ و روپ اختیار کر کے ایک اور بھیانک تاریخ لکھ رہا تھا ۔خوف ،ڈر ،اداسی ،بے چینی اور بدنصیبی کی فضا قائم کرنے کے علاوہ وہ اپنی باتوں سے سب کو ڈرانے والا اور اپنی تقریر سے ایسا سماں باندھتا کہ سننے والے انتشار کے موسم کے پرندے بن جاتے ہیں۔
وہ جادوگر اکثر کہتا رہتا تھا۔
’’اگر تم میں یہ جذبہ ہو،توتم بھی روشنی کی زمین میں اندھیرے کے پھل اُگا سکتے ہو‘‘ اور اس کی باتوں سے میرے اندر کے گلستان میں خزاں کے کانٹے پیدا ہوتے تھے اور آج میں اس کے من کے آنگن میں آگ لگا دینے کا خاکہ تیار کر رہا تھا ۔
اس جادوگر مورخ کا خوبصورت عجائب خانہ جہلم کے کنارے پر واقع تھا۔اس خوبصورت عجائب خانے کے سامنے ایک قبرستان تھا۔بڑے بڑے چناروں نے قبرستان کو ایک گلستان کا روپ دے دیا تھا۔اسی قبرستان میں چنار کی شاخوں سے بنی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر وہ عجائب خانے کی بے بسی اور جہلم کی اداسی کو اپنی آنکھوں میں قید کر کے خوش ہو رہا تھا ۔عجائب خانے میں کتنی لوگوں کے خواب ریزہ ریزہ ہوکر بکھر چکے تھے اور قبرستان میں کتنی زندہ لاشوں کو دفن کیا گیا تھا اس کا اندازہ لگانا ہر ایک بس کی بات نہیں ۔
مجھے اس جادوگر مورخ کے عجائب خانے میں ضروری جانا تھا۔عجائب خانہ،جہلم اور قبرستان کے آس پاس لوگوں کی زندگی کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا پہلی شرط تھی۔
اپنے خاکہ میں رنگ بھرے سے پہلے عجائب خانہ،جہلم اور قبرستان کے ماضی کو حال اور مستقبل کے ساتھ جوڑ کر رکھ دینا بھی اہم تھا۔
جب میں اس کے سامنے روبرو ہوا….
تو اس نے کہا؟
“کہاں سے آئے ہو؟کس کام کے لئے آئے ہو؟”
میں نے بھی جواب دینے سے پہلے سوال کیا
’’تم کہاں سے آئے ہو؟تمہیں کہاں جانا ہے‘‘؟
اس نے کہا—
“ہمارا راستہ بھی ایک اور ہمارا کام بھی ایک ہے”
اس کے جواب نے پھر سے میرے اندر کے موسم میں تبدیلی لائی۔کئی دونوں تک میں نے اس کے سائے کو پکڑنے کی کوشش بھی کی۔وہ مختلف موسموں کے ساتھ ملتا رہا ۔ان کے سامنے مختلف خوشبو بکھیرتا رہا۔میں اس کی ایک ایک حرکت کو پرکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا ۔
اب میں اسی فکر میں مبتلا تھا کہ اس کے من میں آگ لگا کر اس کے تمام ارادوں کا گلا گھونٹ دوں گا ۔لیکن ایک بار پھر وہ میرے سامنے کھڑا ہو۔
اور بولا……
“تم اپنے خاکے میں رنگ نہیں بھر سکتے ہو”
“تمہارا خواب کبھی بھی پوار نہیں ہوگا”
“تمہارا سایہ تمہارا حریف ہے”
“تمہارے خواب کی زیراکس کاپی بہت پہلے مجھے موصول ہوئی اور یہ بات سُنتےے ہی میں اسے دیکھتا رہ گیا-”
���
رعناواری سرینگر ، کشمیر
موبائل نمبر؛9103930114