خواب فروش

Mir Ajaz
3 Min Read

 افسانہ

رحیم رہبر

شام ہوتے ہی میں نے آئینہ توڑ ڈالا، جس میں میں پچھلے ساٹھ برسوں سے قید تھا۔کانچ کے ٹکڑے اکھٹے کرنے میں رات بیت گئی۔ نمازِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد جب میرے ہاتھ دُعا کے لئے اُٹھے تو میں یہ دیکھ کر چونک گیا کہ کانچ کے وہ نوکیلے ٹکڑے مجھے حسرت بھری نگاہوں سے تک رہے تھے!
’’تم نے اُسی کو قتل کیا جو ساٹھ برس تمہیں سنوارتا رہا!‘‘ اس وحشتناک آواز نے میری سوچ کے سمندر میں طلاطم بپا کیا۔
’’وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔مجرم تھا۔‘‘ میں نے کاپنتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجرم۔۔۔۔!؟‘‘ اُس نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں ۔۔۔۔ہاں ہاں وہ مجرم تھا۔۔۔ اُس کی آنکھوں پہ خود غرضی کی دھول جمی تھی۔ وہ مجرم سب کچھ کر بیٹھا جو اس کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘‘
’’تم اِس طرح اپنی کرتوتوں کی وکالت کرتے ہو گویا تُم نے کوئی نیک کام کیا ہے۔‘‘ وہ انہماک سے بولا۔
میں کچھ دیر خاموش رہا۔
’’چُپ کیوں ہوئے۔ بول کیوں نہیں رہے ہو؟‘‘ وہ غُرایا۔
’’اُس کا قتل ہونا ضروری بنتا تھا۔ وہ خود غرض تھا۔ اُس نے انسانی اقدار سے آنکھیں موندلی تھیں، اُس کی شرمناک حرکات دیکھ کر ابلیس بھی محوِ حیرت تھا!‘‘
’’مطلب۔۔۔!؟‘‘ اُس نے غضبناک لہجے میں پوچھا۔
’’وہ احسان فراموش سب کچھ بھول گیا۔ یہاں تک کہ اُس نے اپنے آنگن کی دیوار توڑ ڈالی۔ اندر کی دُنیا سڑک پر آگئی۔۔۔۔ اُس نے مجھے بے پردہ کردیا۔‘‘
’’کیا۔۔۔!؟‘‘ اُس نے حسرت سے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔ہاں یہاں تک کہ اُس نے بنت حوا کے تقدس کو چند ٹکوں کے عوض نیلام کردیا!‘‘
’’تقصیر۔۔!‘‘ اُس نے لمبی آہ بھر دی۔ وہ اپنے کہنے پہ نادم ہوا۔ میں سسکیاں سُن رہا تھا!
’’اتنا ہی نہیں۔‘‘ میں چلایا۔
’’اور۔۔۔۔اور کیا ہوا؟‘‘ اُس نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
’’اس نے ایک شراب کی بوتل کے لئے راج ترنگنی بیچ ڈالی۔! وہ بے غیرت نکلا۔ اُس نے اپنی ہی دوشیزہ کے قبا کا سودا کیا۔۔۔! وہ ظالم نکلا۔ اُس نے ماں کے آنچل کو دائو پر لگادیا! اُس نے میرے سپنوں کا محل گرادیا۔ وہ نکما نکلا اُس نے آسمان بیچ ڈالااُس کا ٹوٹنا اور ٹوٹ کر بکھر جانا ضروری تھا۔ وہ آئینہ تھا میں نے اس کے حصار سے خود کو آزاد کیا ہے۔!‘‘
’’تم اب آزاد ہو‘‘۔ سسکیاں لیتے ہوئے آواز خاموش ہوگئی۔!!!
���
آزاد کالونی، پیٹھ کانہامہ ماگام،کشمیر
موبائل نمبر؛9906534724

Share This Article