شوکت الحق کھورو
مشرق وسطیٰ کے ترقی یافتہ شہروں کی شاندار عمارتوں اور عالیشان منصوبوں کے پیچھے لاکھوں مزدور اپنی محنت سے دن رات کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ مختلف ممالک سے آتے ہیں، اپنے خاندانوں کی زندگی بہتر بنانے کے خواب لیے، لیکن اکثر وہ سخت حالات اور ناانصافی کا سامنا کرتے ہیں۔جس کی مثال’’Goat Life‘‘ ہے۔
کام کرنے کی مشکلات اور فلم: ان مزدوروں کی کام کرنے کی حالتیں بہت مشکل ہیں۔ زیادہ تر افراد 12 سے 16 گھنٹے تک شدید گرمی یا سردی میں کام کرتے ہیں، حفاظتی اقدامات ناکافی ہوتے ہیں اور اکثر چھوٹے حادثات بھی مہلک ثابت ہو جاتے ہیں
فلم ’’Goat Life‘‘ : ایک حقیقی کہانی پر مبنی ہے جو مشرق وسطیٰ میں مزدوروں کی زندگی کو دکھاتی ہے۔ یہ فلم ہمیں دکھاتی ہے کہ کس طرح ایک مزدور دھوکہ، سخت محنت، اور تنہائی کے باوجود بقا کی جدوجہد کرتا ہے۔ میں نے یہ فلم اس آرٹیکل میں اس لیے ذکر کی ہے تاکہ قارئین کو یہ سمجھ آئے کہ یہ محنت صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک زندہ انسان کی جان و مال کی قربانی ہے۔
رہائش اور بنیادی سہولیات : رہائش کے حالات بھی افسوسناک ہیں؛ کئی مزدور چھوٹے کمروں میں دسیوں افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں، بنیادی سہولیات تک رسائی محدود ہے۔ یہ زندگی محنت کے عوض ایک انتہائی مشکل امتحان ثابت ہوتی ہے۔
حقوق کی کمی، آواز دبائی جانا اور عزت کی کمی : حقوق کی کمی اور قانونی مسائل بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے مزدوروں کی تنخواہیں کم ہیں، اور اگر وہ اپنی شکایت اٹھائیں تو مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اکثر مزدور مقامی عربوں یا حکام کے سامنے اپنی بات کرنے کی آزادی نہیں رکھتے۔مزید افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ چاہے ایک غیر ملکی مزدور دن رات کتنی بھی محنت کرے، اسے مقامی لوگ کبھی عزت نہیں دیتے۔ یہ عدم احترام اور سماجی امتیاز ان کی محنت کی قدر کو نظر انداز کرنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
کشمیر کے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی : حال ہی میں کویت میں دو یا تین مزدور ایسے تھے جو پچھلے پانچ مہینوں سے یہاں مقیم تھے، مگر انہیں ایک دن کا بھی کام نہیں دیا گیا۔
انہیں صرف ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا، بس کھانا دیا جاتا تھا تاکہ زندہ رہ سکیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی پانچ مہینے ضائع کر دیے۔اب سوال یہ ہے کہ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کی ذہنی اذیت، انتظار، اور مایوسی کا حساب کون دے گا؟
یہ صرف تین افراد کی کہانی نہیں بلکہ ہزاروں مزدوروں کی خاموش تکلیف کی تصویر ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں روز بروز دہرائی جا رہی ہے۔اسی طرح کشمیر کے تین مزدوروں کے ساتھ بھی ظلم ہوا۔ انہیں روز یہی کہا جاتا رہا کہ’’آج نہیں، کل کام ملے گا، کل نہیں، پرسوں ملے گا‘‘ — اور اسی طرح کرتے کرتے پانچ مہینے گزر گئے۔انہیں نہ کام دیا گیا نہ تنخواہ اور نہ ہی ان کے نقصان کی کوئی تلافی کی گئی۔سوچئے، پانچ مہینوں کا یہ نقصان، یہ انتظار، یہ بے بسی — آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟کیا ان کے خوابوں اور امیدوں کی کوئی قیمت نہیں؟
خاندان کی فکر: مزدوروں کے خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں اور کس طرح ان کی محنت کے بدلے ان کے حقوق اور زندگی کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ اکثر خاندان سوچتے ہیں،’’ہماری زندگی کی بہتری کے لیے یہ قربانی ضروری ہے، لیکن کیا وہ محفوظ ہیں؟ کیا ان کی محنت کا انصاف ہو رہا ہے؟‘‘ یہ سوال ہمارے معاشرے کی اخلاقی ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے۔
ملک میں کام کرنے کی اہمیت: یہ حقیقت واضح ہے کہ اپنے ملک میں کام کرنا بہتر ہے، چاہے تنخواہ کم ہو، کیونکہ کمائی سے زیادہ اہمیت خاندان کے ساتھ رہنا اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں غیر ملکی مزدور اکثر ناانصافی، سخت محنت، اور سماجی امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ لوگ اپنے ملک میں کام کرنے کی اہمیت کو سمجھیں، اور محنت کے بدلے انسانی عزت اور خاندان کے ساتھ سکون حاصل کریں۔
میرا ذاتی تجربہ اور دوسرے مزدوروں کی حقیقت : میں خود پچھلے کئی سالوں سے یہاں مشرق وسطیٰ میں کام کر رہا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہاں حالات کیسے ہیں، بیرون ملک سے آئے لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بہت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ایک انسان، جو دن رات پسینہ بہا رہا ہے، اسے نہ عزت دی جاتی ہے، نہ انصاف۔اور یہ صرف میرا تجربہ نہیں ہے — آپ یہاں جتنے بھی مزدوروں سے بات کریں، ہر ایک کی کہانی دُکھ اور ناانصافی سے بھری ہے۔ کوئی بتائے گا کہ تنخواہ وقت پر نہیں ملتی، کوئی کہے گا کہ دو سال سے وطن نہیں جا سکا اور کوئی صرف یہ کہے گا کہ ’’یہاں انسان کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘یہ سب سن کر دل ٹوٹ جاتا ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان ممالک کی بنیاد کھڑی کرتے ہیں، مگر ہمارے لیے کوئی نرم لفظ بھی نہیں۔
محنت کے باوجود کردار : اس کے باوجود، یہ مزدور اپنی محنت سے مشرق وسطیٰ کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی محنت سے بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل ہوتے ہیں، شہر کی معیشت چلتی ہے، اور ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
ذمہ داری اور پیغام : ہماری ذمہ داری ہے کہ ان مزدوروں کے حقوق کی حفاظت ہو، ان کی حالتیں بہتر بنائی جائیں اور ان کی محنت کو پہچانا جائے۔ دنیا کی ترقی انہی کے پسینے اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہم نے ان کی قدر نہ کی تو یہ کامیابی صرف چند لوگوں کے لیے ہوگی، عام مزدور کے لیے نہیں۔
اختتامیہ : مشرق وسطیٰ کے شہر خوابوں کے ہیں، لیکن ان خوابوں کی تکمیل میں جو لوگ پسینے سے بھیگتے ہیں، اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے اور عزت بھی نہیں پاتے، انہیں نظر انداز کرنا انصاف نہیں۔’’Goat Life‘‘ فلم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہر مزدور کی محنت ایک کہانی ہے اور جب ہم ان کے خاندان کی امیدیں اور فکر بھی دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وقت ہے کہ ہم ان کی آواز بنیں اور ایک بہتر، منصفانہ معاشرہ قائم کریں۔
[email protected]