سبزار احمد بٹ
مغرب کا وقت تھا ۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا تھا ۔ میں مسجد کے احاطے میں گیٹ نمبر دو کے قریب دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔ میں بڑے شوق سے مسجد کے اونچے اونچے میناروں کو دیکھ رہا تھا۔ جن پر قمقمے جگمگا رہے تھے بلکہ پوری مسجد جگمگا رہی تھی۔ اس مسجد کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا تھا۔ یہ مسجد تو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک شاندار نمونہ بلکہ شہکار تھا مجھے بے حد سکون ملا ۔ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچی ۔ مسجد کا صحن کافی بڑا تھا ۔ تقریباً ایک لاکھ لوگوں کے ایک ساتھ نماز ادا کرنے کی گنجائش تھی ۔ پوری مسجد اپنے عہد کی نمائندگی کر رہی تھی۔ پتھروں سے بنی ہوئی اس مسجد کے مینار بھی پھتر کے تھے اور صحن بھی ہلکے سرخ پتھروں کا بنا ہوا تھا ۔مسجد کی دائیں جانب والا مینار اتنا اونچا تھا کہ اس پر چڑھ کر پورے شہر کو دیکھا جاسکتا تھا ۔اس پورے شہر میں فقط یہ مسجد ہی سکون اور اطمینان کی جگہ تھی ۔
ہائے کیا منظر تھا ۔نمازی جوق در جوق مسجد میں داخل ہو رہے تھے ۔ صحن میں مختلف جگہوں پر بچے دائروں میں بیٹھے تھے اور ہر دائرے میں ایک استاد موجود تھا۔تمام بچوں اور اساتذہ نے سفید کپڑے پہنے تھے اور سروں پر سفید لیکن سادہ ٹوپیاں تھیں ۔ پرندوں کے جھنڈ ایسے گھوم رہے تھے جیسے ان پرندوں کو ان معصوم بچوں سے عشق ہوا ہو ۔ کہیں پر بچوں کے ہاتھوں میں قرآن پاک تھا اور بچے بہت خوبصورت آواز میں اپنے استاد کے سامنے تلاوت کر رہے تھی تو کہیں پر بچوں کو قرأت سکھائی جاتی تھی ۔ ایک ایک لفظ کو دس دس بار پڑھایا جاتا تھا اور بچے بھی بڑی لگن اور محنت سے سیکھ رہے تھے ۔صحن کے کونے میں بڑے لڑکے تھے جنہیں اپنے استادِ محترم مختلف دینی مسائل سکھا رہے تھے جبکہ گیٹ نمبر ایک کے قریب دائرے کی شکل میں بیٹھے بچوں کو احادیث کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ میرے بغل میں بھی بچوں کا ایک گروپ بیٹھا تھا جنہیں اپنے استادِ محترم نماز جنازہ پڑھنا سکھا رہے تھے ۔ ایک بچہ مردہ ہونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ۔ استاد محترم جنازہ پڑھا رہا تھا اور باقی بچے بڑے ہی دھیان سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ مسجد کے دونوں طرف وضو خانے بنے ہوئے تھے جہاں پر کچھ بچے وضو بنا رہے تھے ۔ ان بچوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جسے فرشتے زمین پر اُتر آئے ہوں ۔ مسجد کے حسیں میناروں سے بھی حسیں تھے یہ بچے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ جنت کا ایک باغ ہے اور یہ بچے اس باغ میں پھولوں کی مانند تھے ۔ ان سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چا رہا تھا۔ دل کرتا تھا کہ بس انہی کو دیکھتے رہیں۔ پورے صحن میں کچھ نہ کچھ کام ہو رہا تھا ۔ مسجد کا سامنے والا حصہ کافی خوبصورت تھا، اس حصے کی دیواریں اور چھت پتھروں کی بنی ہوئی تھیں ۔ اس حصے میں بھی تقریباً دو ہزار لوگوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش تھی ۔مسجد کے تین بڑے دروازے تھے ۔ تینوں دروازوں کے باہر پتھر کی بنی ہوئی لمبی لمبی سیڑھیاں تھیں ۔ جو نہایت ہی صاف ستھری تھیں ۔جہاں پر چند نمازی بڑی بے صبری سے اذان کا انتظار کر رہے تھے ۔اتنے میں مسجد سے اذان گونجنے لگی ۔ اللہ اکبر سنتے ہی میں ایک دم سے جاگ گیا اور اپنی آنکھیں موند لیں ۔ سامنے والا منظر دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ مرد و زن ننگے سر مسجد کے صحن میں گھوم رہے تھے، سب کے ہاتھوں میں موبائل فون تھے ۔ کوئی سیلفی کھینچ رہا تھا تو کوئی اپنے دوست کی تصویر لے رہا تھا۔ کوئی ویڈیو ریکارڈنگ کر رہا تھا تو کوئی اپنے کسی چاہنے والے کو ویڈیو کال کر کے مسجد کا مناظر دکھا رہا تھا ۔ کوئی فیس بک دیکھ رہا تھا تو کوئی وٹسیپ پر چیٹ کر رہا تھا ۔ کچھ لوگ ریلز بنا رہے تھے اور کچھ گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے ۔مختلف ممالک کے لوگ ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ کچھ خواتین نیم برہنہ حالت میں تھیں جنہیں دیکھ کر کوئی بھی باغیرت شخص اپنی نظریں جھکانے پر مجبور ہو جاتا تھا ۔ کچھ لوگ گھپیں مار رہے تھے اور زور زور سے ہنس رہے تھے ۔مسجد اگر چہ قدرے خوبصورت تھی لیکن مسجد کا منظر دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ مسجد نہیں بلکہ کوئی tourist place ہو ، جہاں پر لوگ محض سیر و تفریح کے لئے آئے تھے ۔یہ سب تماشے صحن میں ہی ہو رہے تھے فقط پانچ دس لوگ ہی اذان سن کر مسجد کے اندر نماز کے لئے حاضر ہوئے ۔ کچھ لوگ نمازیوں کی بھی ویڈیو بنا رہے تھے، یہ سب دیکھ کر میرا دم گھٹنے لگا ۔ میری آنکھیں ان بچوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جنہیں میں نے ابھی ابھی دین کے کام میں منہمک دیکھا تھا ۔ ہائے افسوس وہ منظر میری آنکھوں سے غائب ہوا ۔ میں بجھے ہوئے قدموں سے دروازے کے جانب گیا جہاں سیڑھیوں پر بھکاریوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں ۔ جو آنے جانے والوں سے چِلا چِلا کر بھیگ مانگ رہے تھے ۔ یہ شور کانوں پر کچھ کچھ گراں گزرتا تھا۔ میں حسرت بھری نظروں سے پھر ایک بار مسجد کو دیکھنے لگا ۔ مجھے بار بار وہ حسین منظر یاد آرہا تھا جو ابھی ابھی میں نے خواب میں دیکھا تھا اور مجھے اپنے جاگ جانے پر بلکہ حقیقت کا یہ منظر دیکھ کر بے حد پشیمانی ہوئی ۔ کاش میں خواب میں ہی رہتا۔ ایسی حقیقت سے تو خوابوں کی وہ مسجد ہزار درجہ بہتر تھی ۔
���
اویل نورآباد ، کولگام،کشمیر، موبائل نمبر؛7006738436