ثانی الاثنین ، صاحب الغار ،اعلمہ العلماء ،افضل البشر بعد الانبیاء، دولت اسلام کے اَسبق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ تاریخ اسلام میں گل ِسر سبد ہیں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ ؓ کا بے حد پیار اور والہانہ عقیدت ،نبی رحمتؐ کی آپؓ سے غیر معمولی قربت محبت ،دربار ِ رسالت مآب میں آپ ؓ کا سب سے زیادہ چہیتا ہونا،اس تاریخ کے بعض درخشندہ باب ہیں ۔ صدیق اکبرؓ کی روز اول سے ہی اسلام کے تئیں بے مثال ایثار پیشہ خدمات، آپ کی عدیم المثال تقویٰ شعاری ، اتباع رسول میں سب پر سبقت ، آپ ؓ کی خلافت ِ راشدہ میںگراں قدر فتوحات،ارتداد کی آندھی ، مانعین ِزکوٰۃکی سر کوبی میں آپؓ کی قابل ِرشک کاکردگی کے علاوہ ایک مضبوط خلافت اسلامیہ کی تاسیس اس سنہری تاریخ کو چار چاند لگاتے ہیں۔آں جناب ؓ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ملت اسلامیہ کے اتحاد کا شیرازہ بکھرنے سے بچالیا۔ خلافت ِ صدیقیؓ کا دور شروع ہی ہوا کہ اطراف واکناف میں ارتداد کی شیطانی لہر مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کی صورت میں اُٹھی ۔ رقیق القلب اور نرم مزاج مانے جانے والے صدیق اکبرؓ نے غیر معمولی حمیت ِایمانی اورجرأت وشجاعت کے ساتھ ان گمراہ لوگوں کے خلاف اعلانِ جہاد کرکے اس فتنے کو برمحل زمین بوس کردیا۔ اگرچہ حضرت سیدنا فاروق اعظم ؓ نے مشورہ دیا تھا کہ ان آزمائشی حالات میں نرمی برتنے کی ضرورت ہے مگرخلیفہ ٔاول نے دوٹوک لفظوں میں جواب دیا ’’دین میںنقص پیدا ہوجائے ابوبکرؓ زندہ ہو؟ یہ ناممکن ہے‘‘ ۔ آنحضور ﷺ نے بہ نفس نفیس اپنی موجودگی میں آپ ؓ کو ہی امامت کا منصب بخشا جو آپؓ کی خلافت کا بلیغ اشارہ تھا ۔مسجد نبوی میں داخلے کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم حضور اقدسؐ نے دیا ،سوائے دروازۂ حضرت ابوبکر ؓکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ا س وقت بھی صرف باب السلام اورباب الصدیق رات دن مسجد نبوی میں کھلے رہتے ہیں ۔آپ ؓ ہی کوحج فرض ہونے کے بعد امیر حج مقرر کیا گیا۔ آپ ؓ کے وصال پر امیر المومنین سیدنا علی ابن طالب کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ نے فرمایا : اے ابوبکر! خدا آپ ؓپر رحم کرے کہ آپؓ خلیفہ رسولؐ ہیں ، اب آپؓ کے بعد جو بھی آئے گا ،وہ آپ ؓکا خلیفہ ہوگا ۔ آپ ہی کے حق میں اللہ نے فرمایا :اور وہ جو حق لے کے آگیا اور وہ جس نے اس حق کی تصدیق کی یہی لوگ متقین ہیں۔‘‘ آنحضور ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی توصیف میں فرمایا :میں نے ہرایک کی حق ِادائیگی کی اُس کے احسانات کا،سوائے ابوبکر ؓکے ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کو ان کا بدلہ دے گا ۔اس نے مجھے مانا جب ہرایک نے انکار کیا ۔اس نے اسلام کی معاونت میں اپنا مال قربان کیا ۔اس نے میری اپنی صحبت ورفاقت سے اتنی خدمت انجام دی کہ قرآن نے اس کو’’ میر ا صاحب‘‘کہہ کر پکارا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کی موجودگی میں کسی معاملے میں بھی کوئی سبقت کرنے کی کوشش نہ کرے ۔
خلیفۂ اول کی عظمت وفوقیت کی اس کے علاوہ اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید نے اپنی نصوص سے اور حضوراقدسﷺ نے احادیث ِمشہور میں آپ ؓ کا ذکر خیر فرمایا۔ آپؓ کی دختر بلند اقبال اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا حضور اقدس ﷺ کی ازواج مطہرات میں فائق و نمایاں رہیں ۔ انہوں نے حضور اقدس ﷺ سے دو ہزار دو سو دس احادیث کی روایت کرتے ہوئے دین کی وہ بے مثال خدمت انجام دی جن کے اعتراف میں حضرت امیر المومنین علی المرتضیٰ ؓ نے جنگ جمل کے بعد اعلان کیا: خبردار! قرآن کی رُو سے اس دن کے بعد بھی اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کی حرمت و عظمت بر قرار ہے ۔’’نہج البلاغہ‘‘ میں اس بارے میں حضرت علیؓ کا بلیغ وفصیح خطبہ موجود ہے۔ روایت ہے کہ خلیفۂ اول کو ۳۳ ؍ہزار صحابہؓ کی بیعت پر خلیفہ رسول ؐ مقرر کیاگیا ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کو پیغمبر اسلام ﷺ کی نبوت سے قبل بھی مصاحبت ِرسولؐ کا شرف بخشا ۔قبول اسلام کی صف اول میں آپ ؓ اولین بالغوں میں تھے ۔آپ ؓہی وہ صاحب ہیں جن کو اپنی قید حیات میں چا ر نسلوں کو قبولیت ِاسلام دیکھنے کا قابل داد موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کو قبل ازاسلا م ہی فطرتاًاُن گناہوں لغزشوں سے پاک وصاف رکھا جنہیں پہلے فطرت نے اور بعد میں شریعت نے گناہ قرار دیا۔ اسلام کی آبیاری میں اولیت کا اعزا ز پانے اورپھر پیغمبر اسلام ؐ کے شانہ بہ شانہ دعوت اسلامی کی راہ میںمصیبتوں، آزمایشوں اوراستقامتوں کے سردوگرم مراحل سے گزرتے ہوئے آپ ؓ کو سرورکائنات ؐ کی دائمی رفاقت کا اختصاص بھی نصیب ہو ا۔ ہجرت کے موقع پر حضورﷺ نے آپ ؓ کو ہی اپنی ہمرازی ،اپنی ہمسفری اور سہ روزہ غار نشینی کاتاج بخشا ۔حضور اقدسﷺ نے اس غار میں خلیفہ اول کو بے پناہ مصیبت وخدشات کے عالم میں بھی ’’غم نہ کر‘‘ کی بشارت سنائی۔ یہی وجہ ہے کہ وصال پیغمبر اسلام ﷺ کی کڑی آزمائش میں بھی آپ ؓ جرأت ایمانی اور صبر وثبات کا پیکر ثابت ہوئے۔یہی وہ صاحب ہیں جنہوں نے بے شمار قربانیاں اور بے حساب خدمات انجام دے کر اسلام کی بہار بصورت فتح مکہ دیکھی ۔ اسی جلیل القدر صحابی نے اسلام اورحضور اقدس ﷺ کی محبت میں اپنے تمام رشتے تک توڑ د ئے اوربس اُسی سے رشتہ رکھا جس نے اپنا رشتہ رسول برحقﷺ سے جوڑا ۔ایک مثال ملاحظہ فرمایئے : جنگ بدر میں ایک طرف باپ( ابوبکر صدیق ؓ) اسلام کے حق میں دست بہ شمشیر ہیں اور ودسری طرف آپ ؓ کا بیٹا( قبل از قبولیت ِاسلام ) کفر کا سپاہی بنے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔اسی خلیفہ ٔبرحق نے قرآن مجید کی ہرآیت کودو گواہوں کی شہادت میں جمع کردیا، اگر چہ حفاظِ قرآن موجود تھے مگر اس ک باوجود احتیاطاً باوجود کلام اللہ تحریراً جمع کر نے کا دوراندیشانہ کام انجام دیا۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنی چند استعمالی چیزیں بیت المال سے حاصل کرنے کے بعد انہیںاپنی رحلت کے بعد واپس بیت المال میں جمع کرنے کی وصیت فرمائی ۔ جب یہ چیزیں خلیفہ ٔدوم حضرت امیر المومنین فاروق اعظم ؓ کی خدمت میں پہنچیں تو آپ ؓ نے روتے ہوئے فرمایا : اے ابوبکر! آپ ؓ نے مجھے ایک عظیم آزمائش میں ڈال دیا۔حضرت عمر ؓ نے ہی فرمایا :اگر تمام اعمال کے بدلے مجھے غار ثور کی رات ملتی، وہ میرے لئے کافی تھی۔ آپ ؐ کو ازروئے وصیت اُسی لباس میں مدفون کیا گیا جو بوقت وصال ابدی آپؓ نے زیت تن فرمائے تھے۔ آپ نے فرمایا تاھ کہ کفن کا کپڑا کسی زندہ انسان کی تن ڈھانپ دینے کے کام آئے گا ۔ اللہ اللہ !!!حضرت صدیق اکبرؓ نے زبانِ وحی سے اُس وقت’’ صدیق‘‘ کا لقب پایا جب فرش ِزمین پر معراج مصطفیٰ ﷺ کی تصدیق کرنے والے آپ ؓسب سے پہلے انسان بنے۔یہی وہ فقیدالمثال صحابی رسول ؓ ہیں جن کو قبل از اسلام ،بعد از اسلام ،بعد از وصال روضہ رسولﷺ میں صحبت پیغمبر ﷺ حاصل ہوئی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت ابو بکر ؓ میرا ساتھی اور جنت میں رفیق ہوگا۔آپ ؓکی زبان مبارک سے حضرت امام حسین ؓ کو دیکھ کر برجستہ یہ کلمات ادا ہوئے:’’ اے حسین ؓ میرا ماں باپ تجھ پر فدا ،تو علی ؓ کی شکل سے نہیں ملتا ،تیری صورت میرے محبوب آنحضورﷺ سے ملتی جلتی ہے ۔‘‘
۲۲؍ جمادی الثانی بروز سوموار ۱۳؍ہجری میں آپؓ اس جہان ِ فانی سے وصال فرما گئے۔ خلافت ِ راشدہ دیکھ کر غیر مسلم لیڈروں تک نے اعترافاً اپنی قوم سے یہ عہد کیا کہ اگر ہم آزاد ہوئے تو ہم تم کو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی طرح حکومت دیں گے کیونکہ شیخین ؓ کے مبارک دور میں مسلم تو غیر مسلم بھی سب کے سب حدزیادہ محفوظ ومامون تھے ۔ اسلام ملکی سربراہ کو عوام پرحاکم کے طور مسلط نہیں کر تا بلکہ اسے خلقِ خدا کا خادم اعلیٰ بناتا ہے ،اُسے اپنی رعیت میں شامل ہر ادنیٰ واعلیٰ شخص کوہی نہیں بلکہ تمام ابنائے آدم کو ایک عیال یا کنبے ماننے کا پابند بناتا ہے، اُسے بلا لحاظ مذہب و ملت ، نسل وزبان اور من وتُو سے بالا تر ہوکر ہر فرد بشر کی حفاظت کرنے، عزت دینے ، حقوق ادا کر نے کی فطری ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا مکلف بناتا ہے اور اُن تمام مظالم پر روک کرنے کا فرض عائد کرتا ہے جن کی موجودگی میں انسان یا حیوان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے دور خلافت میں ایک مسلمان کو کسی غیر مسلم کے بُت کی نقلی آنکھ نکالنے پر اس کی اصل آنکھ نکالنے کا حکم دیا لیکن اُس غیر مسلم کی سفارش پر پھر خطا کار مسلمان کو بخشا گیا یہی خلافت اسلامیہ کا خاصہ ہے جس کی آج دنیا متلاشی ہے مگر اس آہ !کا کہیں وجود نہیں ۔
رابطہ :صدر انجمن حمایت الاسلام جموں وکشمیر
�������