حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الشریف جامع کمالات تھے۔وہ نوجوانوں اور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے ۔ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق حضور پاکؐ کی بعثت پیر کے روز ہوئی اور حضرت علی صرف ایک دن بعد یعنی منگل کو ایمان لائے ۔اس وقت آپ کی عمر مشکل سے آٹھ یا دس سال تھی۔حضرت علی ؓکو یہ شرف حاصل ہے کہ ا ن کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی۔اسی وجہ سے ان کو ’’مولود کعبہ‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔اسی طرح حضرت علی حضور پاک اور سیدہ خدیجہ ؓ کے ساتھ نماز پڑھنے والے پہلے شخص تھے۔چونکہ حضور پاک کے چچا حضرت ابوطالب کثیر العیال تھے، اس لئے حضور پاک ﷺ نے حضرت علیؓ کو گود لے لیا تھا اور آپؐ ہی کے سایۂ عاطفت میں حضرت علیؓ کی پرورش ہوئی۔جب حضور پاک ؐ مدینہ جانے پر مجبور ہوئے تو ان کی چارپائی پر حضرت علی ؓہی سوئے۔روایا ت میں آتا ہے کہ حضور پاک ؐنے ہجرت کے قبل اس وقت مکہ میں موجود صحابہ کرام ؓسے پوچھا کہ میرے بستر پر کون سوئے گا تو حضرت علی ؓ نے تین بار کہا کہ میں ’’سوؤں گا‘‘۔ قریش حضور پاکؐ کو قتل کرنے کاقطعی منصوبہ بناچکے تھے۔ایسے حالات میں حضرت علیؓ کا یہ فیصلہ ان کی حضور پاک ؐ سے انتہائی محبت اور ان کے لئے جان دینے کے لئے تیار رہنے کی دلیل ہے۔ حضرت علیؓ نے حضور پاک کی ہجرت کے صرف تین دن بعدمدینہ ہجرت کی۔ آپ ؓکے ساتھ ہجرت میں خاندان قریش کی تین ’’فاطمائیں ‘‘ بھی شریک تھیں: فاطمہ بنت اسدؓ، فاطمہ بنت محمدؐ اور فاطمہ بنت الزبیرؓ۔ اسی لئے اسے ’’فاطماؤں کا قافلہ‘‘ (رکب الفواطم) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ رات کو چلتے اور دن میں کہیں چھپ جاتے۔ یوں حضرت علیؓ مدینہ کے پاس کی بستی قباء پہنچے جہاں حضور پاک ﷺ ان کا انتظار کررہے تھے۔ اس سفر میں حضرت علی،ؓ جن کی عمر اس وقت ۲۲ سال تھی، کے پیر سوجھ گئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔حضور پاک ﷺ ان کو اپنے گھر لے گئے ۔ انصارومہاجرین کی مواخات کے بر عکس حضور پاک نے حضرت علیؓ کواپنا بھائی بنایا، یعنی دونوں بھائی مہاجر تھے۔ حضور پاک ؐنے اس موقعے پر حضرت علی ؓسے کہا: ’’تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو‘‘۔اگلے سال حضور پاکؐ نے حضرت علی ؓکو اپنا داماد بھی بنا لیا ۔ یوں وہ سیدۃ نساء الجنۃ (جنت کی خواتین کی سردار)کے شوہر بھی ہوئے اور سیدا شباب اہل الجنۃ (جنت کے نوجوانوں کے سردار) حضرت حسنؓ وحسینؓ کے والد ماجد بھی ہوئے۔ خیبر جب فتح نہیں ہوپارہا تھا تو حضرت علیؓ نے ہی اسے فتح کیا اور ’’اسداللہ‘‘(شیر خدا) کے لقب سے موسوم ہوئے ۔ وہ تمام غزوات میں شریک رہے، ما سوائے غزوۂ تبوک کے جس کے دوران آپؓ کو مدینہ میں حضور پاک ﷺ نے نائب کی حیثیت سے متعین کیا۔
غزوۂ بدر میں پہلے نکلنے والے تین کافر سورماؤں میں سے ایک کو آپؓ نے واصل جہنم کیا۔ غزوۂ خندق میں عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبدوُدّ نے جب خندق پار کرکے مسلمانوں کو للکارا: ’’ہل من مبارز؟‘‘( ہے کوئی مجھ سے لڑنے والا؟) تو حضرت علیؓ نے ہی اس کا چیلنج قبول کیا اور اس کی گردن اڑائی۔ غزوۂ خیبر میں یہودی پہلوان مرحّب کا سر بھی آپؓ نے ہی قلم کیا۔فتح مکہ کے بعد حضور پاک ؐنے خانۂ کعبہ کے اندر اور باہر بتوں کے بڑے بڑے اڈوں کو توڑنے کا کام بھی حضرت علیؓ کو دیا۔
حدیث مبا ہلہ اور حدیث کساء میں آیا ہے کہ حضور پاکؐ نے فرمایا کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین ان کے اہل بیت یعنی خاندان والے ہیں۔ ۱۸؍ذی الحجہ سنہ ۱۰ ھ کو حجۃ الوداع کے بعد مدینہ واپس آتے ہوئے حضور پاک ؐ غدیر خم (خم کا کنواں ) کے پاس رُکے اور وہاں فرمایا: ’’میں جس کا دوست ہوں ، علی بھی اس کے دوست ہیں۔اس حدیث پاک سے کسی کو انکار نہیں۔ اہل سنت اس کو حضرت علی ؓ کی عظمت اور حضور پاک ﷺ سے انتہائی قربت کا واشگاف اعلان سمجھتے ہیں۔حضور پاک ؐ نے فرمایا:میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؓ اس کے دروازے ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضور پاکﷺ نے دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والا اور سب سے زیادہ عدل وانصاف کرنے والا فرمایاتھا۔ حضور پاک ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’علی ؓسے کوئی منافق محبت نہیں کرسکتا اور ان سے کوئی مؤمن بغض نہیں کرسکتا‘‘ ۔ حضرت سعید الخدری ؓ کا کہنا ہے کہ ’’ہم انصار لوگ منافقین کوحضرت علیؓ سے ان کی نفرت کی وجہ سے پہچان لیا کرتے تھے‘‘۔آپ کرم اللہ وجہہ کے بارے میں حضور پاکﷺ نے فرمایا : ’’اے علی ! تیری وجہ سے دو گروہ جہنم میں جائیں گے۔ایک تیرے ساتھ محبت میں غلو کرنے والا اور دوسرا تیرے ساتھ دشمنی میں غلو کرنے والا‘‘۔
جب خارجیوں نے آپ ؓکا نام بگاڑنا چاہا تو مسلمانوں نے حضرت علی ؓکو ـ’ ’کرّم اللہ وجہہ‘‘ (اللہ آپ کے چہرے کو باعزت کریں) کے لقب سے پکارنا شروع کر دیا جو کہ صحابہ کرامؓ میں سے صرف حضرت علیؓ کے لئے مخصوص ہے۔’’کرم اللہ وجہہ ‘‘کے لقب کی ایک توجیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت علیؓ نے کبھی کسی بت کی پوجا نہیں کی۔ انہیں خارجیوں میں سے ایک شخص عبدالرحمٰن بن ملجم نے حضرت علیؓ کو ۱۷ رمضان المبارک سنہ ۴۰ ھ میں زہریلی تلوار سے حملہ کرکے شہید کردیا۔ آپؓ اس زخم سے جانبر نہ ہو سکے اور چوتھے روز ۲۱؍ رمضان المبارک کو شہادت پائی۔
آپ کرّم اللہ وجہہ صحابہ کرامؓ میں سب سے بڑے عالم، سب سے بڑے فقیہ اور سب سے فصیح شخص تھے ۔اس بات کی گواہی ’’نہج البلاغۃ‘‘ کا ایک ایک جملہ دیتا ہے۔ سوائے سلسلہ نقشبندیہ کے ، باقی تمام صوفی مذاہب حضرت علیؓ پر جاکر ختم ہوتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں تقریبا تمام صوفی طریقے آپ ؓسے ہی شروع ہوتے ہیں۔حضرت علیؓ نے ساری زندگی عیش و عشرت پر فقروفاقہ کو ترجیح دی حالانکہ اسلام میں داخل ہونے والوں میں سابقین و اولین کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے آپ ؓکو بیت المال سے حضور پاکؐ کے چچا حضرت عباسؓ کے بعد سب سے زیادہ وظیفے کی رقم ملتی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض سالوں میں آپؓ نے صرف زکوٰۃمیں ۴۰ ہزار دینا رخرچ کئے اور اللہ پاک کے حکم کہ ’’قل العفو‘‘، یعنی جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے اسے خرچ کرو ، کی تعمیل میں آپ جلد از جلد اپنی دولت خیرات وصدقات میں خرچ کر دیتے۔حضور پاک ؐکے وصال کے بعد خلافت کے لئے سب سے مناسب اور سب سے زیادہ حقدار حضرت علی ہی تھے ۔ آپؓ نے اپنے سے پیشرو تینوں خلفائے راشدین کے ساتھ عمدہ سلوک روا رکھا اور سب کے معین ومشیر رہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں آپ ؓاموال خمس کی تقسیم کے متولی تھے اور مرتدین کی سرکوبی کے لئے بھیجی جانے والی فوج کے قائد بھی۔ اسی طرح حضر ت علیؓ نے حضرت عمر الفاروق ؓ کے عہد خلافت میں حکومت وقت کے ساتھ پوراپورا تعاون کیا بلکہ قاضیٔ مدینہ کا عہدہ بھی سنبھالا اور جو آج چیف جسٹس کے برابر ہے۔ حضرت عثمان ذی النورین ؓ کے زمانے میں بھی آپ کا یہ عملی تعاون و اشتراک برقرا رہا، یہاں تک کہ سنہ ۳۵ھ میں آپ چوتھے خلیفہ بنے اور اگلے پانچ سال تین ماہ تک خلیفہ رہے۔خلافت قبول کرنے کے تیسرے ہی روز حضرت علی نے سبائی سازشی ٹولہ کو مدینہ سے نکلنے کا حکم دیا، جس کی وجہ سے وہ حضرت علی ؓکی جان کے دشمن ہوگئے۔یہ وہی لوگ ہیں جن کے خلاف حضرت علیؓ کو لڑائیاں لڑنی پڑیں حالانکہ اگر انہیں امن وسکون میسر ہوا ہوتا تو عالم اسلام کا رقبہ پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہوجاتا۔ یہی سبائی ٹولہ ہے جس نے اسلام ، مسلمانوں اور عالم اسلام کو بدنام اور تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔جب حضرت عمر بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے گئے تو حضرت علیؓ کو مدینہ کا گورنر بنا کرگئے۔حضرت عمرؓ امور سلطنت کے معاملات میں حضرت علیؓ سے مشورے کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر ؓکا ایک قول مروی ہے:’’ لاگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا‘‘۔حضرت عمرؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ انہوں حضرت علیؓ سے کہا: ’’اے حسن کے والد !میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں زندگی گزاروں جن میں آپ نہ ہوں۔ابن الاثیر کی تاریخ الکامل اور انھیں کی دوسری معروف کتاب اُسدُ الغابۃ میں آیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کی صاحبزادی اُم کلثوم سے شادی کی۔ حضرت عمرؓ نے فدک اور خیبر کے باغات بھی حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ اور بنی ہاشم کو واپس کردئے۔اپنے وصال کے وقت حضرت عمرؓ نے اپنے بعد جن چھ لوگوں کا نام لیا کہ ان میں سے ایک کو اگلا خلیفہ بنایا جائے، ان میں حضرت علیؓ کا نام شامل تھا ۔حضرت عثمانؓ کی شہادت کے اگلے دن مدینہ میں حضرت علیؓ کا انتخاب بطور چوتھے خلیفہ کے ہوا۔حضرت علی حضرت عثمان ؓکے قاتلوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن اندرونی حالات اتنے خراب تھے کہ فوری طور سے کارروائی کرنے کا مطلب خانہ جنگی تھا۔مسلمانوں اور خوارج کے درمیان متعدد جنگیں ہوئیں مثلا معرکۂ نہروان (سنہ ۳۹ھ؍659ء)۔ اس خانہ جنگی کے باوجود حضرت علی کے زمانے میں بہت سے اہم کام ہوئے مثلا پولیس کا محکمہ قائم ہوا، جیلوں کا قیام عمل میں آیا اورکوفہ میں فقہ و نحو کے مدرسے قائم ہوئے۔ حضرت علی ؓکے حکم سے ابوالاسود الدؤلی نے پہلی بار قرآن پاک کے حروف کی تشکیل کی یعنی زیر وزبر وغیرہ لگایا تاکہ قرآن پاک پڑھنے میں آسانی ہو۔ حضرت علی ؓ نے پہلا اسلامی درہم بھی جاری کیا۔اسی خانہ جنگی کی حالت میں عبدالرحمٰن بن ملجم نامی ایک خارجی نے حضرت علی ؓپر نماز پڑھتے ہوئے مسموم تلوار سے حملہ کردیا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ ایسی حالت میں بھی حضرت علی ؓنے عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا بلکہ حکم دیا: دیکھو میرے اوپر حملہ کرنے والا کون ہے ۔ اس کو میرا کھانا کھلاؤ اور میرا پانی پلاؤ۔ نفس کا بدلہ نفس ہوتا ہے ۔اگر میں مر جاؤں تو اسے قتل کردو جیسے اس نے مجھے قتل کیا اور اگر میں بچ گیا تو میں اس کے بارے میں غور کروں گا۔
حضرت حسن مجتبیٰ ؓ نے حضرت امیر المومنین کی تدفین کے موقع پر جو خطبہ دیا وہ آپ کی شخصیت کا ایک مکمل خلاصہ ہے۔ آپ ؓ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم سے ایک ایسا شخص رخصت ہوگیا جس سے نہ اگلے علم میں پیش قدمی کرسکیں گے اور نہ پچھلے اس کی برابری کرسکے۔رسول اللہ ﷺ اس کے ہاتھ میں جھنڈا دیا کرتے اور اس کے ہاتھ پر فتح نصیب ہوجاتی تھی ۔ اس نے چاندی سونا کچھ نہیں چھوڑا۔اس نے اپنے وظیفے میں سے صرف ۷۰۰ درہم ہم ورثاء کے لئے چھوڑے ہیں‘‘ ( ۷۰۰ درہم کے معنی ہیں آج کے ۸۰۱۳۴ روپئے)۔ درہم چاندی کا سکہ ہوتا تھا جس کا وزن2.97 گرام تھا جب کہ سابقین اولین میں ہونے کی وجہ سے حضرت علی کو بیت المال سے ہر سال لاکھوں دینار ملتے تھے جو کہ سونے کا سکہ تھا اور ایک دینار کا وزن 4.25گرام تھا یعنی آج (۱۸ جون ۲۰۱۷ء )کے لحاظ سے ایک دینار کی قیمت ۱۲۰۱۴ روپے تھی۔اہل سنت اور اہل تشیع دونوں امام علیؓ کے اعلیٰ ترین مرتبے کے قائل ہیں۔ احادیث شریفہ کے مطابق حضرت علی عشرۂ مبشرہ میں شامل ہیں یعنی ان دس خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت حضور پاک نے دے دی تھی۔ اہل سنت امام علی کو اہل بیت کا حصہ مانتے ہیں اور ان کو خلیفہ رابع سمجھتے ہیں ۔ ’’نہج البلاغۃ ‘‘ حضرت علیؓ کے اقوال وجوامع الکلم پر مشتمل غیر معمولی حکمت و بلاغت کی کتاب ہے جسے الشریف الرضی نے ترتیب دیا۔ یہ کتاب نہ صرف اسلامی تعلیمات کی اہم ترین کتب میں سے ہے بلکہ وہ انسانی علمی اور فکری ذخیرے کا بھی بہت اہم حصہ ہے۔ ان کے اقوال حکیمانہ کو عبدالواحد الآمدی نے ’’غرر الحکم ودررالکلم‘‘ میں جمع کیا ہے۔ حضرت علیؓ سے مختلف دعائیں بھی منقول ہیں ۔امام علیؓ کے ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن پاک کے تین نسخے آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک صنعاء (یمن )کے میوزیم میں ہے، دوسرا رام پور کی رضا لائبریری میں اور تیسرے نسخے کے اولین بارہ صفحات عراق کے المرکز الوطنی للمخطوطات میں اور باقی نجف اشرف میں واقع مکتبہ امیر المؤمنین میں محفوظ ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے حضرت علیؓ کے قول مبارک :’’ اے مالک! لوگ یا توتمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہاری ہی طرح پیدا کئے گئے انسان ہیں‘‘کے بارے میں کہا کہ اس عبارت کو تمام تنظیموں کے صدر دفاتر میں لکھ کر ٹانگ دینا چاہئے کیونکہ آج انسانیت کومساوات کے اس پیغام کی شدید ضرورت ہے۔ کوفی عنان نے اقوام متحدہ کی قانونی کمیٹی سے بھی یہ بھی درخواست کی کہ وہ حضرت علی ؓکے خط بنام مالک اشتر کے بارے میں غور کرے۔ چنانچہ مذکورہ کمیٹی نے کئی ماہ غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ خط بین الاقوامی قانون کا ایک منبع یعنی Sourceہے۔خلاصہ یہ ہے کہ سب کلمہ خوانوں کے نزدیک امام علیؓ ایک عظیم ترین اخلاقی، علمی، سیاسی اور قانونی نمونہ ہیں۔ ہمارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم سال میں ان کو ایک بار یاد کرلیا کریں بلکہ ان کی عظمت کا حق اسی وقت ادا ہوگا جب ہم ان کے پیغام اوران کے اسوہ کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا بھی حصہ بنالیں۔ اسی کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ماضی کی تلخیوں کو بھول کر ہمیں آج کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہئے۔ موجودہ دور میں اسلام کو جس چیلنج کا سامنا ہے بلکہ اسے مٹانے کی جو سازشیںمغرب ومشرق میںرچی جارہی ہیں، ان کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ ہم کتنے بد نصیب ہوں گے اگر ایسے وقت میں بھی آپس میں لڑتے رہیں جب مغرب اورمشرق میں اس کے ہم نوا شیعہ اور سنی دونوں اسلام کوختم کرنے کے درپے ہیں۔