موسم سرما کی روایتی شروعات سے پہلے ہی غیر متوقع طور پر شدید برفباری نے وادی کے طول و عرض اور خطہ چناب و پیر پنچال کے کئی علاقوں میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔ جہاں ایک طرف بجلی کے ترسیلی نظام پر جیسے برق گری وہیں میوہ باغات کو بے بیاں نقصان کا سامنا ہوا ہے جبکہ گائوں دیہات میں زیلی سڑکوں پر آمد و رفت بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ موسم سرما سے نمٹنے کی تیاریوں کے حوالے سے خواب خرگوش میں تھی اور اس کی آنکھ جبھی کھلی ہے جب معمول کی زندگی پر چہار اطراف سے اندھیرا چھا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ تقریباً ایک دہائی کے بعد اس طرح نومبر کی ابتدا میں برفباری ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود جس عنوان سے انتظامیہ کا ردعمل ظاہر ہوا ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ محکمے ابھی موسم گرما سے ہی بغلگیر تھے۔ حالانکہ موسمیاتی تغیر اس وقت دنیا بھر میں اولین ترجیح ہے اور ضروری ہے کہ اگر آج کے برق رفتار دور میں انتظامی صیغوں اور انکے سربراہان کی نظر یں اس پر نہ رہیں تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال دیرسے ہی سہی اب انتظامیہ جاگنے لگی ہے اور بنیادی سہویات کی بحالی کےلئے ہمہ گیر پیمانے پر کام جاری ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ کم از کم بجلی اور سڑکوں کی بحالی کا کام جلد از جلد تکمیل تک پہنچ جائیگا۔ جہاں تک برفباری کی وجہ سےمیوہ باغات کو پہنچے نقصان کا معاملہ ہے، اسے اگر ایک آفت تصور کیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ کم و بیش وادی کشمیر کے تمام اضلاع میں میوہ باغات تباہی کے مناظر پیش کر رہے ہیں، خاص کر جنوبی کشمیر اور شمالی کشمیر کے اُن علاقوںمیں جو پہاڑوں سے متصل ہیں اور جہاں بھاری مقدار میں برف گرکر پیڑوں کے اُوپر جمع ہوگئی ہے۔ ابھی چونکہ سیبوں کی فصل اُتار نے کاکام جاری تھا لہٰذا پھلوں کو پہنچے نقصان کا فوری اندازہ لگانا مشکل ہے، تاہم یہ یقینی طور پر سینکڑوں کروڑ روپے پر محیط ہے۔ انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر نقصان کا تخمینہ مرتب کرکے متاثرہ باغ مالکان کی امداد و اعانت کرنے میں پہل کرے۔ چونکہ وادی میں زعفران کی فصل اُٹھانے کی شروعات ہوچکی تھی اور ابتدائی مرحلے کے پھول اُٹھائے جا چکے تھے، جبکہ دوسرے مرحلہ کی چنائی چل رہی تھی، لہٰذا اس کے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، جواقتصادی تباہی کا ایک اورپہلو بن کر سامنے آسکتا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ انتظامیہ بنیادی سطح پر متحرک ہو کر درپیش نقصانات کی تخمینہ کاری کرکے اسکی بھرپائی کرنے کےلئے نقشہ راہ مرتب کرنے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مرکوز کرے ۔ چونکہ وادی کی معیشت پہلے ہی تباہی کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذ ا یہ تازہ نقصان عوام کی گزر بسر کےلئے شدید منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ چونکہ موسم سرما کی باضابطہ شروعات ہو نے جارہی ہےلہٰذا آیندہ ایام میں کیا کچھ دیکھنے کو ملتا ہے، اس کےبارے میںابھی کچھ کہنا اگر چہ مشکل ہے، لیکن سرمائی طوالت عام لوگوں کی مشکلات کو یقینی طور پر طول دے سکتی ہے۔ بے موسم کی یہ برفباری انتظامیہ کےلئے آنے والے ایام کی تناظر میں ایک انتباہ سے کم نہیں ، لہٰذا حالات کی کسی بھی قسم کی نامساعدت سے نمٹنے کےلئے حکومت کو لنگر لنگوٹ کس کر ایک فعال روپ میں سامنے آنا چاہئے،تاکہ عوام کےلئےوہ ایام مصائب کا پیش خیمہ نہ بنیں، جب شدتِ سرما میں درجہ حرارت منفی ہو جائےگا۔