ریاست کے دور افتادہ علاقے جدید دور کی طبی سہولیات سے بالکل محروم ہیں جبکہ حکام کی طرف سے روزانہ اس بات کے دعوے کئے جاتے ہیں کہ ہر ایک علاقے کو بنیادی طبی سہولیات بہم پہنچائی جارہی ہیں ۔ان سہولیات کے فراہمی کے دعوئوں کی حقیقت خطہ چناب کے گول علاقہ کے ایک معمولی مگر چشم کشاواقعہ سے عیاں ہوجاتی ہے جہاں ہسپتال میں ایک زخمی کے علاج کیلئے بجلی کا بھی بندوبست نہیں تھا اور طبی عملہ نے موبائل فون کی ٹارچ کا استعمال کرتے ہوئے آپریشن تھیٹر میں اس کاعلا ج کیا ۔واقعہ یوں ہواکہ چند رو ز قبل ضلع رام بن کے گول بازار میں شام کے وقت ایک موٹر سائیکل سوار نے راہگیر کو ٹکر ماردی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہواتاہم محکمہ صحت کو اس وقت خفگی برداشت کرناپڑی جب اس زخمی شخص کو علاج و معالجہ کے لئے ہسپتال پہنچایا گیا جہاںآپریشن تھیٹر میں بجلی کاکوئی انتظام نہ تھااورطبی عملے کوموبائل فون کی ٹارچ کی روشنی میں اس کی مرہم پٹی کرنا پڑی ۔سننے میں تو یہ واقعہ معمولی نوعیت کا ہے مگر اس سے سرکاری ہسپتالو ں میں طبی نظام اور سہولیات و بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے دعوئوں کی صورتحال عیاں ہوجاتی ہے ۔طبی اداروں میں پانی و بجلی کی بغیر کٹوتی کے فراہمی لازمی ہے مگرعموماً یہ دیکھنے میں آیاہے کہ دور افتادہ علاقوں میں قائم بیشتر طبی مراکز میں بجلی اور پانی کا الگ سے کوئی نظام نہیں ہوتا اور یہ ادارے محکمہ بجلی و محکمہ پی ایچ ای کی سپلائی کے مرہون منت ہی ہوتےہیں کہ وہ کب بجلی و پانی کی سپلائی فراہم کریں اورکب اس میں کٹوتی ہوجائے ۔جہاں تک بجلی کٹوتی کا سوال ہے تو ان علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں نصف وقت بھی بجلی فراہم نہیں کی جاتی اور غیر اعلانیہ کٹوتی ایک معمول بناہواہے ۔اگرچہ ضلع ہسپتالوں اور کچھ سب ضلع ہسپتالوں میں شمسی توانائی کا نظام موجود ہے تاہم نچلے درجے کے طبی مراکز میں صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے جہاں بجلی کی سپلائی کا سارا انتظام محکمہ بجلی پر ہی منحصر رکھاگیاہے اور باوجود اس کے کہ طبی نظام اور مشینری چلانے کیلئے بجلی یا کسی متبادل کا ہونا ضروری ہے ،ان طبی مراکز میں ابھی تک کسی متبادل کا انتظام نہیں ۔اس طرح سے علاج کے نام پر انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کیاجاتاہے اور بجلی کا نہ ہونا مریضوں یا زخمیوں کو بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے پر مجبور کرتاہے ۔جب بجلی نہیں ہوتی تو نہ ہی ایکسرے مشینیں چلتی ہیں اور نہ ہی الٹراسائونڈ و دیگر مشینری ،جس کے سبب لوگوں کو مقامی سطح پر علاج کی سہولت نہیں ملتی۔حالانکہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے بیشتر ہسپتالوں میں مشینری یاتو نصب ہی نہیں یاپھر ناکارہ بنی ہوئی ہے تاہم جہاں یہ مشینری قابل استعمال حالت میں ہے ،وہاں بھی بعض اوقات بجلی کاناقص نظام اس کے آڑے آجاتاہے ۔متعدد مرتبہ ایسی شکایات سامنے آئی ہیں کہ مریضوں یا زخمیوں کو محض بجلی کے نہ ہونے کی وجہ سے نچلے درجے کے ہسپتالوں سے سب ضلع ہسپتال یا ضلع ہسپتال منتقل کرناپڑاہو۔یہ صورتحال ریاست کے طبی نظام کی ایک دردناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے ۔جہاں اضلاع ہی نہیں بلکہ صوبائی سطح پر بھی ہم جدید دور کے معیار سے کوسوں دورہیں اور جموں و سرینگر کے بڑے ہسپتالوں میں بھی وہ طبی ڈھانچہ اور سبھی سہولیات دستیاب نہیں جو دوران علاج مریضوں یا زخمیوں کوضرورت ہوتی ہیں،جس کے باعث زیر علاج افراد گرمیوں کے موسم میں جاںبلب ہوتے ہیں اور سردیوں کے موسم میں ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں ۔شعبہ صحت میں کسی انقلابی تبدیلی کی فوری امید تو نہیں کی جاسکتی مگر حکام کی مداخلت سے ایسا ضرور ممکن بنایاجاسکتاہے کہ پرائمری ہیلتھ سنٹروں سے لیکر سب ضلع ہسپتالوں تک تمام طبی مراکز میں بجلی یا اس کا متبادل انتظام رکھاجائے تاکہ کسی مریض کو محض بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور نہ ہوناپڑے ۔