اگرچہ گجر بکروال طبقہ کی پسماندگی کو دور کرنے اور اسے دیگر طبقوں کے برابر ترقی کے مواقع فراہم کرنے کی غرض سے حکومت کی طرف سے لگ بھگ تیس سال قبل شیڈیول ٹرائب کادرجہ دیاگیا تھا تاہم کچھ علاقوں میں آج بھی یہ آبادی قبائلی دور کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور اسے کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں ۔خاص طور پر خطہ چناب میں گجر بکروال آبادی کسم پرسی کی زندگی گزار رہی ہے جہاں اس طبقہ کی بستیوں تک نہ ہی سڑک روابط قائم کئے گئے ہیں ، نہ ہی انہیں بجلی وپانی کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی تعلیمی و طبی سہولیات دستیاب ہیں ۔ خطے میں سیاسی و ترقیاتی محاذ پر یہ طبقہ بالکل نظرانداز ہے اور اگرچہ اس طبقہ کے چنندہ لوگ حکومت یا سیاستدانوں سے اپنا ذاتی فائدہ اٹھالیتے ہیں تاہم مجموعی آبادی تک ترقی کا تصور دور دور تک بھی نظر نہیں آتا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ چناب میں گجر بکروال آبادی کا تناسب دس سے پندرہ فیصد ہے اور راجوری پونچھ کے برعکس اس خطے میں مقیم اس طبقہ کے لوگ انتہائی پسماندگی کاشکار ہیں ۔چند علاقوں کو چھوڑ کر زیادہ ترگجر بکروال بستیوں میں زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں اور سب سے زیادہ تشویشناک حال شعبہ تعلیم کاہے ۔محکمہ تعلیم کی طرف سےان کی بستیوں میں سکول تو قائم کئے گئے ہیں لیکن ان میں اساتذہ کی شدید قلت پائی جارہی ہے اور چونکہ یہ بستیاں دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں واقع ہیں اس لئے کوئی ٹیچر ان علاقوں میں ڈیوٹی دینے کیلئے تیار ہی نہیںہوتا۔حالت یہ ہے کہ سکولوں میں ایک سو طلباء کو پڑھانے کیلئے ایک یا دو ٹیچر تعینات ہیں ۔ایسے تعلیمی نظام کا اثراس طبقہ کے طلباء کے امتحانی نتائج پر پڑتاہے اورہر سال مایوس کن نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔چونکہ اس طبقہ کے لوگوں کوگرمیوں کے موسم میں مال مویشیوں کے ساتھ بالائی علاقوں میں ڈھوکوں میں جانا پڑتا ہے، وہاںان کے بچوں کیلئے درس و تدریس کا کوئی انتظام نہیں ۔ حالانکہ کچھ سال قبل انہی بچوں کو تعلیم دینے کیلئے موبائل سکول کھولے گئے تھے تاہم یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہواہے اور ڈھوکوں میں تعلیم و تدریس کا خواب پورا نہیںہوسکا۔ جہاںریاست کے باقی علاقوں میں اس طبقہ کے حوالے سے ایسی صورتحال نہیں ہے اور اس طبقہ کے کئی نوجوان آئی اے ایس اور کے اے ایس جیسے مقابلہ جاتی امتحانات میں نمایاں کارکردگی پیش کررہے ہیں، جو ایک خوش آئندبات ہے، وہیں خطہ چناب اور ا س کے آس پاس کے علاقوں کی گجر آبادی زندگی کے ہر شعبے میں پسماندگی کا شکار بنی ہوئی ہے جو ریاست کی مجموعی ترقی کے حوالے سے تشویشناک امر ہے۔اسی پسماندگی کی وجہ سے ملازمت میں بھی ان کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔شعبہ تعلیم کی ہی طرح دیگر شعبوں میں بھی یہ بستیاں نظرانداز ہوئی ہیں۔ ان بستیوں میں سڑک روابط بھی بہت کم ہیں جبکہ بجلیبھی کہیں کہیں ہی ہے اور اس کا کوئی شیڈولنہیں اوراسی طرح سے پانی کیلئے انہیں کئی کئی کلو میٹر کا دشوار گزارسفر طے کرناپڑتاہے ۔ اس طبقہ کی ترقی کیلئے حکومت کی طرف سے متعدد سکیمیں تو چلائی جارہی ہیں لیکن ان سکیموں کی عمل آوری میں ناقص منصوبہ بندی کے باعث کچھ علاقوں میں یہ طبقہ ترقی کی ڈگر پر گامزن نہیں ہوسکاہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خطہ چناب کی گجر بکروال بستیوں کو بنیاد ی سہولیات فراہم کی جائیں اور مناسب منصوبہ بندی کے ذریعہ اس طبقہ کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے عملی سطح پر اقدامات کئے جائیں کیونکہ جب تک سماج کے دبے کچلے طبقوں کی ترقی نہیںہوسکے گی تب تک ریاست کی مجموعی ترقی ناممکن سی بات ہے ۔