ریاست میں پانی کے بے پناہ قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود بہت بڑی آبادی بوند بوند کو ترس رہی ہے ۔پینے کے پانی کا مسئلہ لگ بھگ ہر ایک جگہ درپیش ہے لیکن کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں محکمہ پی ایچ ای کے لاپرواہانہ طرز عملنے لوگوں کیلئے بہت زیادہ مشکلات پید اکردی ہیں ۔اس کی ایک زندہ مثال راجوری کی تحصیل منجاکوٹ ہے، جہاں تحصیل صدرمقام پر آباد چار ہزار سے بھی زائد نفوس کےلئے پانی کی فراہمیکاانحصار صرف ایک ہینڈ پمپ پر ہے، جو بعض اوقات خراب رہتاہے ۔منجاکوٹ میں محکمہ کی طرف سے لوگوں کو پانی سپلائی کرنے کیلئے کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے اور اگر متذکرہ ہینڈ پمپ کسی وجہ سے خراب ہوجائے تو پھر لوگوں کو قریب سے بہہ رہے نالے کا آلودہ پانی استعمال کرناپڑتاہے ۔اگرچہ قصبہ میں متعدد جگہوں پر ہینڈ پمپ نصب کئے گئے تھے تاہم وہ سبھی خراب ہوگئے ہیں اور اب پوری آبادی کا انحصار اسی ایک ہینڈ پمپ پر ہے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب تک ان خراب پڑے ہینڈ پمپوں کو ٹھیک کیا جاتا، لوگوں کو کسی دوسرے ذریعہ سے پانی فراہم کیا جاتا لیکن متعلقہ حکام خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں اور انہیں لوگوں کی مشکلات کا کوئی اندازہ نہیں۔پورے جموں صوبہ میں ایسے سینکڑوں علاقے ہیں جہاں پینے کے پانی کی شدید قلت پائی جارہی ہے ۔خاص طور پر پیر پنچال اور چناب خطوں کے متعدد دور دراز علاقوں میں آج بھی لوگوں کو پانی کیلئے دربدر بھٹکناپڑتاہے اور کہیں تویہ حال ہے کہ لوگ کرایہ ادا کرکے گھوڑا گاڑیوں پر پانی لاد کے لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔قلت ِآب والے ان علاقوں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ خواتین اور سکولی بچے پورا پورا دن اسی کام میں مصروف رہتے ہیںاور کئی جگہوں پر پانی کے حصول کے معاملے پر لڑائی جھگڑوں کی بھی نوبت آجاتی ہے۔ حیرت کا مقام ہے کہ یہ صورتحال اس ریاست کی ہے جہاں پانی کے قدرتی ذخائر کی کوئی کمی نہیں اور ہرایک خطے میں ندی نالے یہاں تک کہ دریابھی بہتے ہیں ۔سرحدی ضلع پونچھ میں اکثرو بیشتر علاقوں میں پانی کی ہاہاکار مچی رہتی ہے جبکہ اسی ضلع سے سال بھر چلنے والا دریا بہتاہے جس کے پانی کوکہیں استعمال میں نہیں لایاجارہا۔حالیہ برسوں کے دوران اگرچہ کچھ علاقوں میں لفٹ سکیموں کے ذریعہ پانی سپلائی کرنے کا پروگرام شروع کیاگیاتاہم بدقسمتی سے یہ سکیمیں بھی ناکارہ بنی ہوئی ہیں اور کہیں ان کی موٹریں خراب ہیں تو کہیں کوئی اور مسئلہ درپیش ہے ۔چاہے ہینڈ پمپ ہوں یا لفٹ سکیمیں ،اگر ایک بار ان میں کوئی خرابی آجائے تواسے ٹھیک کرکے دوبارہ چالوکرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جاتی ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے قدرتی ذخائر کا مؤثر استعمال کرکے لوگوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچایا جائے۔ اگر جموں وکشمیر جیسی ریاست میں بھی لوگ پانی کی وجہ سے مشکلات کاشکار رہیں تو یقینی طور پر یہ شرمساری کی بات ہے۔