2014کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ریاست میں سیلاب کا خطرہ منڈلانے لگاہے اور جہاں وادی میں حالیہ دنوں سیلابی صورتحال پیداہوئی وہیں صوبہ جموں کے کئی علاقوں میں ندی نالوں میں طغیانی دیکھی گئی اور کئی مقامات پر پسیاں بھی گرآئیں جس کے باعث انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہواہے ۔یہ بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے ایسے خطرات سر پر منڈلاتے رہیں گے لیکن انتظامی سطح پر چار سال قبل آئے سیلاب سےکچھ بھی سبق حاصل نہیں کیاگیا اور نہ ہی کوئی طویل مدتی احتیاطی اقدامات کئے گئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ کہیں کہیں 2014کے سیلاب میں تباہ ہوئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو بھی نہیں کی گئی ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ پونچھ ضلع کے سرنکوٹ علاقے میں گزشتہ دنوں ایک نوجوان دریا عبور کرتے ہوئے لقمہ اجل ہوگیا کیونکہ لوگوں کو عبورومرور میں سخت مشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے۔واضح رہے کہ پیر پنچال کی پہاڑی سے نکل کر سرنکوٹ سے ہوکرپونچھ کی طرف بہنے والے دریا ئے سرن میں چار سال قبل آئے سیلاب کے دوران کئی مقامات پر ایسے پل مکمل طور پر بہہ گئے جن پر پیدل آمدورفت کے ذریعے عبورومرور ہوتا تھا جبکہ اسی دوران دریاکنارے کئی جگہوں سے سڑک کانام و نشان بھی مٹ گیا اور اسی طغیانی کے باعث ضلع کو جانے والی 132کے وی لائن بھی تباہ ہوگئی تاہم اگرچہ اس وقت کی انتظامیہ کی طرف سے سڑک کو ٹھیک کرکے اس پر گاڑیوں کی آمدورفت بحال کی گئی اور پھر انتہائی سست روی سے شیرکشمیر پل سمیت کچھ پلوں کی تعمیر بھی ہوئی تاہم کئی پل ایسے ہیں جن پر آج تک کام شروع بھی نہیں ہوا اور اسی طرح سے ترسیلی لائن بھی تعطل کاشکار پڑی ہوئی ہے۔موسم برسات کے دوران ہر سال ریاست کے دیگر ندی نالوں کے ساتھ ساتھ اس دریا میں بھی زبردست طغیانی دیکھی جاتی ہے جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاًقیمتی انسانی جانوں کا اتلاف بھی پیش آتا ہے۔ چار برسوں کا عرصہ گزرنے کے باوجود تباہ شدہ پلوں کا تعمیرنہ ہونا افسوسناک ہے اورپل نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر دریا عبور کرناپڑتاہے جس کی وجہ سے ان کے ڈوبنے کا خطرہ ہمیشہ لگا رہتاہے۔چنانچہ گزشتہ دنوں بھی ایک بائیس سالہ نوجوان دریا عبور کرتے ہوئے پانی کی تیز موجوں میں بہہ گیا جس کے بعد مقامی لوگوں نے انتظامیہ کے خلاف سخت احتجاج بھی کیااور الزام عائد کیاکہ پلوں کی تعمیر میں لیت و لعل سے کام لیاجارہاہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست کے پہاڑی علاقوں میں آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور ہر علاقے سے بہنے والے ندی نالے طغیانی کے دوران انسانی جانوں کیلئے خطرہ بنتے ہیں۔بے شک حالیہ برسوں کے دوران ان ندی نالوںکے اوپر کافی تعداد میں پل تعمیر کئے گئے ہیں تاہم ایک بار ان پلوں کے منہدم ہوجانے کے بعد پھر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور کسی نئے حادثے تک انتظار کیاجاتاہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دریائے سرن سمیت تمام ندی نالوں میں پلوں کی تعمیر کی جائے اور ساتھ ہی چار سال قبل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوئے ڈھانچے کی تعمیر نو کی جائے ،نہیں تو آنے والے وقت میں لوگوں کو پھر سے نقصان کاسامناکرناپڑسکتاہے ۔اگرچہ انتظامیہ کی طرف سے سیلابی صورتحال پید اہوجانے پر کنٹرول رول قائم کرکے مشینری کو متحرک کرکے تمام تر لازمی اقدامات کئے گئے تاہم سیلاب کے وقت تیاریاں کرلینے سے یہ خطرات ٹل نہیں جائیں گے بلکہ اس کیلئے طویل مدتی پالیسی پر عمل کرناہوگا اور انسداد سیلا ب کیلئے حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔