عوامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے حالیہ عرصہ میں کئی مقاما ت پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی اسامیاںمعرض وجود لاکر وہاں اس کی تعیناتی عمل میں لائی ہے تاہم ضلع راجوری میں ایک اے ڈی سی پوسٹ کے اعلان کے بعد حالات پچھلے ایک ماہ سے خراب بنے ہوئے ہیں اورحکومت بھی خامو ش بیٹھی ہے ۔واضح رہے کہ پچھلے ماہ کوٹرنکہ سب ڈیویژن کیلئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرپوسٹ کا اعلان کیاگیا جس کے دوسرے روز ہی نوشہرہ ، سندر بنی اور دیگر علاقوں سے شدید رد عمل سامنے آنے لگا۔اگرچہ خطہ پیرپنچال کے سب ڈیویژن مینڈھر ، سب ڈیویژن تھنہ منڈی اور کچھ دیگر مقامات سے بھی لوگوںنےمتعلقہ علاقوں کے لئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کےپوسٹ کی مانگ کی لیکن نوشہرہ ، سندر بنی اور کالاکوٹ کے لوگ اس کیلئے پچھلے کئی ہفتوںسے سراپا احتجاج ہیں اورجموں پونچھ شاہراہ کو کئی کئی گھنٹے بند کرکے دھرنے دیئے جارہے ہیں ۔نوشہرہ کے لوگوں کا الزام ہے کہ ضلع راجوری کیلئے اعلان کردہ اے ڈی سی پوسٹ ان کا حق تھا، جس کیلئے بارہا حکام اور سیاسی جماعتوں نے ان سے وعدے بھی کئے لیکن سیاسی دبائو میں آکر اسے کوٹرنکہ منتقل کیاگیا ۔ اس معاملے کوگزشتہ دنوں اُ س وقت بھاجپا سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے صحت بالی بھگت سنگھ نے بھی سیاسی رنگت دینے کی کوشش کی جب انہوںنے یہ کہاکہ کوٹرنکہ اے ڈی سی پوسٹ کو نہ توکابینہ میں منظوری دی گئی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے حکمران اتحاد میں شامل بھاجپا کو اعتماد میں لیاگیا ۔نوشہرہ کے لوگ گزشتہ گیارہ دنوںسے لگاتاربازاراور سرکاری دفاتر بند کرکے ہڑتال پر ہیں جبکہ سندر بنی اور کالاکوٹ میں بھی یہی صورتحال بنی ہوئی ہے ۔ جوں جوں ہڑتال کی مدت بڑھ رہی ہے،لوگ اپنے مطالبات کی فہرست میں بھی اضافہ کرتے جارہے ہیں ۔ کل تک اے ڈی سی کے دفتر کی مانگ کرنے والے نوشہرہ کے لوگوںنے اب اپنا مطالبہ تبدیل کرلیاہے اور وہ اب نوشہرہ کو ضلع کا درجہ دینے پر زور دے رہے ہیں ۔وہیں سندر بنی کے لوگوں کی ہڑتال اس بات پر ہے کہ ممکنہ طور پر کھلنے والا ڈپٹی کمشنر یا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا دفتر سندر بنی میں کھولاجائے ۔سندر بنی کے آس پاس کے علاقے بھی اس کیلئے اپنا اپنا حق جتلارہے ہیں جبکہ کالاکوٹ کے لوگوں کو یہ خدشہ ہے کہ انہیں انتظامی طور پر کوٹرنکہ کے ساتھ جوڑ دیاجائے گا،جسےوہ اپنے لئے ناقابل قبول سمجھتے ہیں اور ان کی ہڑتال نوشہرہ ، کالاکوٹ او رسندر بنی پر مشتمل ایک علیحدہ ضلع کیلئے ہے ۔ایک طرح سے ضلعی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر دفتر کیلئے ان علاقوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور یہ سمجھ ہی نہیں آرہا کون کیا چاہتاہے ۔باوجود اس کے حال ہی ریاستی حکومت نے یہ بات واضح کردی کہ ریاست میں کوئی نیا ضلع بنانے کا معاملہ زیر غور نہیں ، لیکن اس کے باوجود نئے ضلع کیلئے ہڑتالیں ، مظاہرے اور بند جاری ہیں۔نوشہرہ،سندر بنی اور ملحقہ علاقہ جات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لحاظ سے بڑے حساس علاقے ہیں جہاں اس طرح کی افراتفری اور غیر یقینیکےعالم کا حالات پر منفی طور اثرانداز ہونے کا خدشہ موجود ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی اپنی رپورٹ میں ان علاقو ں میں امن و قانون کی صورتحال بگڑنے کااندیشہ ظاہر کیاہے ۔ لیکن اس کے باوجود حکومت خواب غفلت میں ہے اور اب تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیاگیا اور نہ ہی اس کے آثار کہیں نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ چند روز قبل بھاجپا سے تعلق رکھنے والےچند وزراء اورقائدین کے ایک گروپ نے نوشہرہ کا دورہ کرکے لوگوں سے بات چیت کے ذریعہ ہڑتال ختم کروانے کی کوشش کی لیکن ایسا ظاہر ہوتاہے کہ لوگوںکو بھاجپا پہ یقین ہی نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ نوشہرہ میں ہڑتال اس کے بعد بھی جاری ہے جبکہ سندر بنی میں تو بھاجپا وفد کا مظاہرین نے گھیرائو کرنے کی کوشش بھی کی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، خاص کر طور پر وزیر اعلیٰ، مداخلت کرکے اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے اور ہڑتال فوری طور پر ختم کروائی جائے تاکہ ایسے عناصر کواپنے مذموم عزائم روبہ عمل لانے کا موقع نہ ملے جن کے مفادات سیاسی اور سماجی انتشار کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور جن کی ہماری ریاست میں کوئی کمی نہیں۔