ستمبر2014کے سیلاب کے دوران وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ خطہ پیر پنچال میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور کئی لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں ۔خطے کے دونوں اضلاع راجوری اور پونچھ میں آج بھی سیلاب کے نشانات باقی ہیں اور جہاں دریائے سرن آس پاس کی اراضی اور مکانات کو اپنے ساتھ بہاکر لے گیا وہیں نوشہرہ میں باراتیوں سے بھری ایک گاڑی بھی طغیانی کی نذر ہوگئی جس کے نتیجہ میں لگ بھگ ستر افراد ہلاک ہوئے جن میںسے بعض کی لاشیں آج تک نہیں ملی ہیں ۔خطے میں کئی دیگر مقامات پر بھی لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں ۔تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ ہی آج تک حکومت کی طرف سے متاثرہ کنبوں کے ساتھ محفوظ مقامات پر زمین کی فراہمی کا وعدہ ایفا کیاگیا اور نہ ہی انہیںامداد ملی اور نہ تباہ ہوئے بنیادی ڈھانچے پلوں و سڑکوں کی تعمیر نو ہوئی ۔سیلاب کے فوری بعد حکومت اور انتظامیہ و سیاسی جماعتوں نے متاثرہ علاقوں کادورہ کرکے متاثرین کو امداد کی فراہمی کا یقین دلایا ،یہاں تک کہ ضلع انتظامیہ پونچھ نے دریا کنارے آباد لوگوں کو وہاں نہ رہنے کی صلاح دیتے ہوئے یقین دلایاکہ ان کیلئے محفوظ مقامات پر زمین کی نشاندہی کرکے وہاں پلاٹ دے کر بسایاجائے گالیکن آج تین سال گزرنے کوآرہے ہیں مگر یہ وعدہ ایفا نہیں ہوا۔ ایک بار اجڑ جانے والے یہ کنبے بہت عرصہ تک پناہ گزیں کیمپوں میں رہے اورکئی ماہ تک اس امید کے ساتھ اپنے کھنڈربنے گھروںمیں واپس نہیںلوٹے کہ انہیں اب محفوظ مقام پر زمین الاٹ ہوگی، جہاں وہ آشیانے تعمیر کرکے زندگی بسر کریںگے لیکن جب انہیں یہ احساس ہواکہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی تو پھر انہوںنے مجبوراًاپنے انہی خستہ حال مکانات کی راہ لی اور اب وہ کافی عرصہ سے وہیں رہ بھی رہے ہیں ۔ انہیں پھرسے سیلاب کا خوف بھی ستارہاہے مگر شومئی قسمت کہ حکومت اور انتظامیہ نے ان کی بازآبادکاری کیلئے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا ۔ نہ ہی آئندہ سیلاب سے بچنے کیلئے حفاظتی باندھ تعمیر کئے گئے ہیں اور نہ ہی ان کو محفوظ جگہ پر بسانے کیلئے کچھ کیاجارہاہے ۔ محکمہ فلڈ کنٹرول و اریگیشن کاکہناہے کہ حفاظتی باندھ تعمیر کرنے کیلئے کروڑوں روپے کا منصوبہ مرتب کرکے حکام کو بھیجاگیاہے تاہم اب تک اس کو منظوری نہیں ملی جس وجہ سے کوئی کام نہیں ہوسکا ۔سیلاب متاثرین کی امداد کے نام پر سیاست تو بہت کی گئی، یہاں تک کہ 2014کے الیکشن میں بھی یہ نکتہ خاص اہمیت کا حامل رہالیکن متاثرین کی داد رسی کیلئے ابھی تک اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی حکومت نے 2014میں ہوئی تباہی سے کچھ سبق حاصل کیا ۔ چونکہ سیلاب کے دوران دریائوں نے کئی مقامات پر اپنا راستہ تبدیل کرلیا تھا۔ جس سے سینکڑوں کنال اراضی بنجر میں تبدیل ہوگئی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ حفاظتی باندھ وغیرہ کی تعمیر تیزی سے ہوتی اور آس پاس کی آبادی کو تحفظ دینے کیلئے اقدامات کئے جاتے لیکن ایسا لگتاہے کہ حکومت اس معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مستقبل میں مزید تباہی کے مناظر دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ حال ہی میں معمولی سی بارش ہونے پر بھی دریائے سرن میں کئی کنبے پانی کے بیچ پھنس گئے جن کو پھر ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نکالاگیاتھا۔متاثرین کی امداد تو ہوئی ہوگی لیکن حکومت کی طرف سے تباہ ہوئے ڈھانچوں بالخصوص سڑکوں اور پلوں کی تعمیر نو کاکام بھی ہاتھ میں نہیں لیاگیا۔اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پروجیکٹوں پر کام ہواہے لیکن اکثر کام ایسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ پلوں کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کاسامناہے اور انہیں دریا سے عبور و مرور کرنے کے دوران اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالناپڑتاہے ۔صورتحال کا تقاضہ ہے کہ ریاست بھر میں متاثرہوئے کنبوں کی امداد کی جائے اور سیلاب سے تباہ ہوئے ڈھانچوں کی تعمیر نو کی جائے۔ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایاجائے کہ آئندہ سیلاب کے خطرات کم سے کم ہوں جس کیلئے حفاظتی باندھ تعمیر کرنے اور خطرات والی جگہوں بس رہی آبادی کو محفوظ مقامات پر زمین الاٹ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔