شاہ محمد ماگرے۔ڈوڈہ
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی اس دنیا میں کوئی بھی شے نہیں۔ لیکن افسوس کہ انسان کی زندگی کو آج کئی طرح سے ہلکا لیا جا رہا ہے۔ حد تو اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایک طرف اگر کوئی انسان کسی حادثے کا شکارہوا ہے، یعنی کہیں گرا ہو یا اس کی جان کو کوئی خطرہ ہے تو وہیں دوسری طرف جہاں راہگیر اُسے نظر انداز کر کے نکل جاتے ہیں، وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس معاملےمیں تاخیر کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی بھی وارادت یا حادثہ میں اگر کوئی چیز متاثر ہوتی ہے تو اس کی مرمت ہو سکتی ہیں۔لیکن جب ایک انسان کی زندگی ختم ہوجاتی ہےتو دوبارہ واپس نہیں آسکتی ہے۔لہٰذا،اس پہلو پر ہم سب کو گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔یہ بات بھی سچ ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کی زندگیوں کوہر طرح کی حفاظت فراہم کرنے کیلئے مختلف قوانین بنائے ہیں، جن پر عمل درآمدگی کیلئے با ضابطہ کئی ادارے بھی قائم کئے ہیں۔مگر کیا وہ ادارے اپنا کام دلجوئی سے کر رہے ہیں؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان محکموں سے وابستہ افسر اور اہلکار اپنے فرائض منصبی ایماندار ی اور ہمدردی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ،اس کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔خصوصاً انسانی زندگی کی قدر و قیمت جان کر بھی جو اہلکار اور افسر اپنی غیر ذمہ داری اور نا اہلی کا مظاہرہ کرتے پھرتے ہیں ،اُن پر شکنجہ کسنے میں پہل کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ ان کی غری ذمہ دارانہ پالیسی اور غفلت کی وجہ سے ہی آئے روز یہ حادثات پیش آتے ہیں،جن میں انسانی جانیں برے پیمانے پر ضائع ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں سماجی کارکن محمد رفیع ساگر کہتے ہیں کہ’’حد تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک گاڑی جس میں محض دس مسافر بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے، اس میں پندرہ یا اس سے بھی زائد مسافر لاد ے جاتے ہیں اور ہمارے مجبور ونافہم مسافر بھی خوشی کے ساتھ سے ان گاڑیوں میں سوار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ معاشرہ لالچی اور غیر ذمہ داری کا پروردہ بن چکا ہے،جس میں ہمارا ڈرائیور طبقہ بھی شامل ہے،جو اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں کی جانوں سے کھلواڑ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں،گویا ہر سطح پر لاپرواہی اور غیر ذمی داری کے باعث ہی روازنہ کے ان حادثات میں انسانی زندگیوں کا خاتمہ ہوتا رہتا ہے اور جو کوئی زخمی ہوکر بچ جاتا ہے ،وہ بھی عمر بھر کے لئے اپاہچ ہوکر رہ جاتا ہے۔یہاں اگرجموں و کشمیر کے خطہ چناب کی ہی بات کریں، توتمام گائووں سے شہر جانے والی مسافر گاڑیاں ہمیشہ اووَرلوڈ ہوتی ہیں۔جبکہ اس اوور لوڈِنگ میں اُن بچوں کی ایک خاصی تعد اد شامل ہوتی ہے ،جنہیں حصول تعلیم قصبوں سے شہر آنے جانے کے لئے روزانہ ان گاڑیوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔جبکہ اس سفر کےدوران طلباء و طالبات کو بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔گاڑیوں میں ناجائز اور غیر قانونی اور لوڈنگ ہر وقت خطرے کا باعث ہوتی رہتی ہے۔‘‘
گندوؔ کے رہنے والے طالب علم محمد اکرم کہتے ہیں کہ’’ کم سے کم وقت میں زیادہ زیادہ پیسے کمانے کی لالچ میں ڈرائیور، مسافروں کی جان کی بالکل کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ جبکہ اس کی سب سے بڑی وجہ بدعنوانی ہے کیونکہ جب گاڑیوں کی چیکنگ کیلئے پولیس مامور ہوتی ہے تو اس کی خبر پہلے ہی ڈرائیور تک پہنچ جاتی ہے اور وہ چیکنگ پوسٹ کے پہلےہیاوور لوڈ سواریاں اُتار دیتت ہیں اور جب چیکنگ ہو جاتی ہے تو پھر کچھ دوری سے مسافروں کو دوبارہ بٹھاکرمنزل کی طف روانہ ہوجاتا ہے۔‘‘وہیں اس حوالے سے بھلیسہ کی رہنے والی طالبہ روبینہ اپنے تجربہ کااشتراک کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’وہ بس سے سفر کرتی ہیں اور روز بس اوور لوڈ ہو کر چلتی ہے، جسکی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں اور تیز رفتاری کا بھی چلن ہے اس لئے حادثوں کا خطرہ بدستور لگا رہتا ہے۔ہم اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سفر کرنے کو مجبورہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن بھی نہیں ہے۔‘‘ ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خطہ چناب کے ہر گائوں کی یہی کہانی ہے۔ وہیں جب ہم نے اس متعلق ایک تجربہ کار اُستاد سے حادثات کو لیکر جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی بتایا کہ’’گاڑیاں بہت اوور لوڈکی جاتی ہیں۔ان میں روز بچے بھی اسکول آتے ہیں جو زیادہ تر کھڑے ہوکرسفر کر تے ہیں۔ دوسری جانب مختلف علاقوں کی سڑکوں کی مرمت عرصہ دراز سے نہیں ہوئی ہے،اگر ان سڑکوں کی مرمت کی جائے تو شاید اس طرح کے حادثات پرکسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ساتھ ہی خطہ چناب میں جتنی بھی کمپنیاں ہیں، ان میں 90 فیصدگاڑیاں ایسی ہیں جو بہت پرانی ہوچکی ہیں،جو حادثے کا ایک بڑا کارن بنتی ہیں۔ جس پر حکومت کو غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اگر متعلقہ محکمہ اور اے تی آر او ااپس میں منصفانہ طریقے گفت و شنید کرکے کوئی بہتر لائحہ عمل بنائیں اور مثبت حکمت عملی کے تحت اس پر عملدرآمد کرائیں تو یقیناً ان حادثات کو کمی آسکتی ہے۔اس کے لئے جہاں اہم ذمہ داری پر عائد ہوتی ہے تو اس پر عمل کرنا عوام کی ذمہ داری ہے۔
چنانچہ ہم نے محکمہ نقل و حمل کے کام کاج پرایک نظر ڈالتے ہوئے محکمہ سے بھی جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیوں آئے روز کوئی نہ کوئی سڑک حادثہ دیکھنے کو ملتا ہے؟ آخر ترقی کی ان شاہراوئں پر کب تک یہ خونی رقص جاری رہے گا؟ کیا اس کی وجہ کہیں اوور لوڈنگ ہی تو نہیں؟اگر ہے تو اس پر قابو کیوں نہیں پا یا جا رہا ہے؟ان سوالوں کے جواب کو لیکر جناب سابق آے آر ٹی آؤ ڈوڈہ کلدیپ سے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ’’محکمہ اپنا فرض پوری طرح سے نبھاتا ہے۔اس کے لئے ہم چالان بھی کاٹتے ہیں۔مگر ان مسائل پر عوام کو بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔انہیں اوورلوڈ گاڑیوں میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اسکے باوجود بھی محکمہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ اوورلودڈنگ نہ ہونے دیں۔‘‘ انہوں نے گاڑیوں کے کرایے پر بھی بات کی اور ایک فہرست سانجھا کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس کے متعلق واقف نہیں ہے اور وہ ڈرائیوروں کو چھوٹ دیتی ہے جس کی وجہ سے ڈرائیور اُن سے دوگنا کرایہ بھی لیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ’’اوور لوڈ گاڑی کو فی سواری 2000روپے تک چلان بھی کیا جا تا ہے۔ مگر افسوس کہ اسکے باوجود بھی گاڑی والے یا ڈرائیور حضرات چند اضافی پیسے کمانے کے چکر میں سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، جسکا نتیجہ ہمیں روز مرہ کی زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘یہ سچ ہے کہ زیادہ پیسے کی لالچ میں ڈرئیور اوورلوڈنگ کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ اپنی گاڑی پر کس کو بٹھاتے ہیں؟ظاہر سی بات ہے کہ ان کی گاڑی بھری ہونے کے باوجود لوگ سوارہونے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے یا اے آر ٹی او صاحب کی باتوں پر غور کیا جائے تو اس سب کے ذمہ دار نہ صرف ڈرائیور ہیں بلکہ عوام بھی ہے۔جس دن عوام اس اوورلوڈنگ کے نقصان کو سمجھ کر بھری ہوئی گاڑیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیگی، اس دن سے یہ مسئلہ ختم ہونا شرع ہو جائے گا۔(چرخہ فیچرس)