تلخ حقائق
محمد امین میر
کشمیر کے دل میں جہاں سبزہ زار دھان کے کھیت منظر کو دلکش بناتے ہیں، وہیں کوہلیں — روایتی آبپاشی کی ندیاں — صدیوں سے کاشتکاری کی شہ رگ بنی ہوئی تھیں۔ یہ ندیاں جو کسان نسل در نسل بڑی محنت سے صاف ستھری اور کارآمد رکھتی تھیں، کھیتوں کو سیراب کرتی تھیں اور ایک بھرپور زرعی نظام کا لازمی حصہ تھیں۔ لیکن اب یہ ندیاں بدانتظامی، تجاوزات اور آلودگی کا شکار ہو کر اپنی اصل شناخت ہی کھو چکی ہیں اور — ایک ایسے بحران کی صورت اختیار کررہی ہے، جو وادی کی زرعی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔
تاریخی طور پر یہ روایتی کوہلیں(ندیاں) صرف پانی لانے کا ذریعہ نہیں تھیں، بلکہ یہ ایک سماجی نظام، باہمی تعاون اور فطرت سے جڑے ہوئے طرزِ زندگی کی علامت تھیں۔ میرے مرحوم والد کی طرح ہمارے یہاں کے کسان سالانہ ان کوہلوں کی صفائی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وہ درختوں کی جھاڑیاں کاٹتے، رکاوٹیں ہٹاتے اور پانی کے بہاؤ کو رواں دواں رکھتے تھے۔ اس مشترکہ ذمہ داری نے زمین، پانی اور انسان کے بیچ ایک مضبوط رشتہ قائم کیا تھا، — ایک ایسا رشتہ جو اب تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔
کوہلوں(آبپاشی ندیوں) کا زوال آہستہ آہستہ شروع ہوا۔ ابتداء میں لوگوں نے ندیوں کے کناروں پرچھوٹے چھوٹے تعمیرات کھڑا کیں، جو بعد میں پختہ تجاوزات میں بدل گئیں۔ ان تعمیرات نے ان ندی نالوں کو تنگ کیا، پانی کے بہاؤ کو روکا اور کئی جگہوں پر کوہلیں نالیوں میں تبدیل ہو گئیں، جو زرعی زمین کو سیراب کرنے کے بجائے اب گھریلو گندے پانی کا گزرگاہ بن چکی ہیں۔
ایک دردناک مثال ہے کہ ڈورو اننت ناگ کے منزمین علاقے میں گوچوال کوہل، جو کبھی مختلف دیہات کی زرعی زندگی کا اہم سہارا تھی، آج یہ کوہل تجاوزات، ریت بھرنے اور سرکاری غفلت کے باعث تباہ حال ہے۔ کسانوں کی بار بار کی فریادوں کے باوجود متعلقہ محکمے کوئی موثر قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
کوہلوں کی دیکھ بھال کی اصل ذمہ داری آبپاشی و سیلاب کنٹرول محکمہ کے ساتھ ساتھ محکمہ مال پر عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات ان محکموں نے تجاوزات پر نوٹس جاری کئے، جیسا کہ اننت ناگ میں رہائشیوں کو سات دن کی مہلت دی گئی، لیکن ان اقدامات پر نہ عملدرآمد ہوا نہ ہی کوئی پائیدار اور موثر کارروائی کی گئی۔
مسئلہ صرف نوٹس دینے کا نہیں بلکہ ان کی عدم عمل آوری اور محکموں کے بیچ تال میل کی کمی نے صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا۔ محکمانہ عملہ پہلے ہی بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور ان کے پاس نہ وقت ہے نہ ایسے وسائل،جن کے تحت وہ ہر گاؤں میں جا کر کوہلوں(ندیوں) کی حالت سنواریں یا ان کے کناروں پر کھڑے کئے گئے ناجائز تجاوزات کو ہٹاسکیں۔
کوہلوں کی تباہی کا سب سے بڑا اثر اُن کسانوں پر پڑا ہے جو اپنی فصلوں کو سیراب کرنے کے لئے اب مہنگے متبادل طریقے اپنا رہے ہیں۔ اننت ناگ کے کرالمڑ گاؤں میں کوہل بند ہونے کی وجہ سے کسانوں کو مجبوراً پانی کے پمپ استعمال کرنے پڑتے ہیں، جس کا مالی بوجھ غریب کسانوں کے بس سے باہر ہے۔پلوامہ کے لہلارہ گاؤں میں کسان کئی برسوں سے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ فصلوں کے اہم مراحل میں جب پانی نہ ملے تو پیداوار متاثر ہوتی ہے اور کسانوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ماحول پر پڑنے والے اثرات :
یہ مسئلہ صرف زراعت تک محدود نہیں بلکہ ماحولیات بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ پانی کی قلت اور معیشتی دباؤ نے کسانوں کو دھان کی جگہ باغبانی اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگرچہ پھلوں کی کاشت منافع بخش ہو سکتی ہے، لیکن دھان کے کھیت نہ صرف خوراکی تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ زیرِ زمین پانی کو رِی چارج کرنے اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حل کی راہیںاورایک جامع لائحہ عمل کی ضرورت :
۱۔ سخت عملدرآمد:متعلقہ محکمے فوری طور پر تجاوزات کی نشاندہی کریں اور قانونی کارروائی کے ذریعے انہیں ہٹائیں۔ صرف نوٹس دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔
۲۔ عوامی شرکت:کوہلوں کی دیکھ بھال ایک بار پھر عوامی شعور اور اشتراک کا عمل بننا چاہیے۔ مقامی کسانوں اور نوجوانوں کو اس میں شامل کیا جائے۔
۳۔ محفوظی عملہ:ماہرین کی تجویز کردہ ’’ریور پروٹیکشن فورس‘‘ جیسا کوئی ادارہ تشکیل دیا جائے جو پانی کے ذرائع کی نگرانی اور تحفظ کا کام مستقل بنیادوں پر کرے۔
۴۔ شعور بیداری مہم:عوام کو آگاہ کیا جائے کہ کوہلوں کی تباہی صرف زراعت نہیں بلکہ پورے دیہی نظام کو متاثر کر سکتی ہے۔
۵۔ پائیدار زرعی نظام:ایسے طریقے اپنائے جائیں جو پانی کی بچت کریں، مٹی کی صحت برقرار رکھیں اور کوہلوں پر دباؤ کم کریں۔
کشمیر کی کوہلیں صرف ندیاں نہیں بلکہ ہماری ثقافت، ہماری زمین اور ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ اگر ہم نے انہیں آج نہ بچایا تو آنے والی نسلیں صرف ان کا ذکر کتابوں میں پڑھیں گی۔وقت آگیا ہے کہ ہم سب کسان، افسر، مقامی سماج مل کر ان زندگی بخش نہروں کو زندہ کریں۔ یہی ہماری پہچان بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی۔
[email protected]