اس سال کی غیر متوقع برف باری اور بارشوں سے پہلے سے تباہ حال خط چناب کی سڑکیں حادثات کی منتظر دکھائی دے رہی ہیں اور بٹوت کشتواڑ شاہراہ پر پل ڈوڈہ تک کم سے کم راستہ میں25ایسے مقامات ہیں جہاں سڑک ٹوٹی ہوئی ہے اور نیچے سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ بٹوت سے چند کلومیٹر آگے گزر کرکشتواڑ تک شاہراہ کے کنارے کنارے دریاچناب انتہائی خاموشی سے ’Silent Killer‘کا کام کر رہا ہے۔ اس سڑک سے چناب کے دونوں کناروں پر واقع علاقہ جات پر غور کیجئے تو پتہ چلتا ہے کہ جگہ جگہ زمین کھسک رہی ہے ۔ دریائے چناب کے دونوںاطراف تباہی کی یہ داستان ڈوڈہ سٹی کو بھی خطرات سے دوچار کر رہی ہے کیونکہ یہ بالکل اس کے آگے سے بہہ رہا ہے۔ خطہ چناب یعنی ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع میںتمام سڑکوں پر خستہ حالی کی یہی داستان پھیلی ہوئی ہے۔ ان دو اضلاع کو سرمائی راجدھانی جموں اور گرمائی راجدھانی سرینگر سے جوڑنے والی 110؍بٹوت کشتواڑ واحد شاہراہ ہے۔ کہنے کو تو اسے قومی شاہراہ کا درجہ دیاگیا ہے لیکن عملاً یہ ایک رابطہ سڑک سے کچھ زیاد ہ نہیں ۔ یہ اضلاع دشوار گزار اور پہاڑی علاقہ میں واقع ہیں ،جہاں پر ریل رابطہ خواب وخیال اور فضائی سروس صرف وی آئی پی اور فوجی حکام تک محدود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ڈوڈہ اور کشتواڑ کو قدرتی حسن سے نہ صرف مالامال کیا ہے بلکہ بے پناہ قدرتی وسائل سے بھی نوازا ہے ۔ان میں آبی وسائل، جنگلات، زعفران اورنیلم شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے بہترسڑک رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود قدرتی خزانے لوگوں کی تقدیر نہیں بدل سکے ہیں۔ان دونوں اضلاع میں مذہبی اور سیاحتی مقامات کی اتنی لمبی چوڑی فہرست ہے کہ ان علاقہ جات کو گھومنے کے لئے دو ماہ کا وقت بھی کم ہوگا۔ ہر مقام ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔کشتواڑ مچیل یاترا ، سرتھل یاترا، ہد ھ ماتا اور سندھیہ یاترا،جامع مسجد، زیارت شاہ فرید الدینؒ،کشتواڑ کا دل ماناجانے والا165؍ایکڑ اراضی پرمشتمل چوگان میدان چنار، دیودار اور مختلف قسم کے درختوں سے ڈھکا ہوا ہے، اس کے جنوب کی طرف اسرار الدین بغدادیؒ اور شمال میں گوری شنکرمندر واقع ہے۔ سنتھن ٹاپ اور کشتواڑ کے بیچ چھنگم، پاڈر، 12ہزار فٹ سطح سمندر سے بلندی پرو واقع سنتھن ٹاپ،واڑون، ڈوڈہ میں جائی(ایکوہیلتھ ریزارٹ )،تیلی گڑھ،بھدرواہ قلعہ، سیاحتی استقبالیہ مرکز بھدرواہ اور بھدرواہ سے 41؍کلومیٹر دور پڈری،بنی بسوہلی سڑک پر واقع گردانہ سو ن بائیں گلیشیر، وادی سرتھل، چھترگلہ پاس، سیوج، چنتہ وادی، بھلیسہ،میلہ پٹ، لال درمن جیسے چند گنے چنے انتہائی مشہور و خوبصورت مقامات ہیں ،جہاں ایک مرتبہ جایئے تو بار بار جانے کا من کرتا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان سیاحتی مقامات تک ریاست کے بہت ہی قلیل التعداد لوگ آتے جاتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ بہتر اور آرام دہ سڑک رابطے کا فقدان ہے۔ کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوان جموں سمیت ملک کے دیگر حصوں میں تعلیم، روزگار، سماجی ضروریات کے پیش نظر آتے جاتے رہتے ہیں مگر ان کے لئے بھی سڑکوںکی پتلی حالت کے سبب سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہاں ہر شخص کے لئے یہ خبر کہ ’’بٹوت۔کشتواڑ شاہراہ پر ٹریفک آمدرورفت بحال ‘‘سب سے بڑی خوشخبری ہوتی ہے۔ اگر سڑک خراب ہو تو لوگوں کاجموں، سرینگر یا ملک کے دیگر حصوں میں وقت پر جانا چوپٹ ہو جاتا ہے۔ ۔ بہتر سڑک رابطے نہ ہونے کی وجہ سے ملکی ا ورغیر ملکی سیاحوں کی نظر سے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع اوجھل ہیں،اس لئے یہاں ترقی کی وہ رفتار نہیں جس کایہ خطہ مستحق ہے۔ جب آپ بٹوت۔ کشتواڑ شاہراہ پر گزرکر پیچھے سڑک کی طرف دیکھیںتو ایسا لگے گا کہ آپ کرشماتی طور وہاں سے گذر کر کہیں آئے ہیں۔ بٹوت کشتواڑ شاہراہ پر پل ڈوڈہ تک راستے میں کم سے کم 25ایسے مقامات ہیں جہاں سڑک ٹوٹی اور نیچے سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔
بغلیار ڈیم تعمیر کرنے سے پل ڈوڈہ تو پہلے ہی ڈوب چکا ہے۔ یہاں مندر، مسجد اور کئی ایک گھر اوردوکانیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔ خطہ چناب میں اگرچہ بہت سارے سیاست دان پائے جاتے ہیں جو ریاستی سطح پر ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی نام کما چکے ہیں ۔ان میں سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر غلام نبی آزاد سرفہرست ہیں مگر اس خطے کی طرف ان کی توجہ نہیں جاتی۔کئی مرتبہ خطہ سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کو وزارتِ تعمیرات عامہ کا قلمدان بھی ملا پھر بھی وہ خطے کا کوئی بھلا نہ کرسکے۔ ایک وقت ڈوڈہ و کشتواڑ اضلاع سے 11 عددلیڈر پارلیمنٹ،ریاستی قانون سازیہ اور مرکزی و ریاستی وزارتی کونسلوں میں موجود رہے مگر یہاں کے عوامی مسائل حل کرنے میں یہ کس حد تک کامیاب ہوئے، اس کا اندازہ بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ کی حالت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے ۔50برس تک وقتاً فوقتاً سڑک پر ہوئے کام کی وجہ سے یہ سڑک شاہراہ کہلاتی مگر بغلیارپن بجلی پروجیکٹ کے ڈیم کی تعمیرسے بٹوت۔پل ڈوڈہ جھیل نے گذشتہ چند برسوں کے دوران نہ صرف اس کی حالت بگاڑ کے رکھ دی بلکہ ماہرین کہتے ہیں کہ امکان یہ بھی ہے کہ اگر بروقت توجہ نہ دی گئی تو ڈوڈہ و کشتواڑ اضلاع کو باقی دنیا سے ملانے والی اس واحد شاہراہ کا بہت سارا حصہ دریائے چناب کی نذر ہو نے کا اندیشہ ہے۔ رواں سال اور گرشتہ برس یہاںوقتاً فوقتاً طوفانی بارشوں نے سڑک کا کچومر نکال کے رکھ دیا کہ آج اس شاہراہ کی حالت پچاس سال قبل والی حالت سے بھی بدتر دِکھ رہی ہے۔گذشتہ ایک برس کے دوران جتنی پسیاں یہاںآئیں ،انہیں صرف دو ٹائروں کے لئے جگہ بنانے کی حد تک ہٹایا گیا۔بہت سارے مقامات پر شاہراہ پر میکڈم کے نشانات بھی مٹ چکے ہیں اورجگہ جگہ گڑھے پڑ گئے ہیں ۔ذرا سی بارش سے شاہراہ اکثر مقامات پر تالابوں یا دلدلوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ سڑک پرگاڑیاں پر جھولتے ہوئے چلتی ہیں اور مسافروں پر پورے سفر کے دوران گھبراہٹ اور خوف سا طاری رہتا ہے۔دو گاڑیاں جب شاہراہ پر آمنے سامنے آ ئیں تو کراسنگ کا مسئلہ درپیش آتا ہے جس کے لئے پہلے دونوں ڈرائیور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون پیچھے کی طرف واپس جائے اور پھر کئی سو میٹر اُلٹا سفر کرنے کے بعد کراسنگ ممکن ہوتو ہو۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں سائڈ کے ڈرائیور اَڑ جاتے ہیں کہ وہ پیچھے نہیں جائیں گے کہ آدھے آدھے گھنٹے تک ٹریفک رک جاتی ہے اور سواریوں کو سخت ذہنی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔بٹوت سے پل ڈوڈہ تک شاہراہ متعددمقامات پر آہستہ آہستہ دھنستی جا رہی ہے ۔پل ڈوڈہ سے ٹھاٹھری تک بھی سڑک کی حالت تشویش ناک ہے جب کہ ٹھاٹھری سے کشتواڑ شاہراہ کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے۔گذشتہ ایک برس سے شاہراہ پر اس کے علاوہ کوئی تعمیر ومرمت کاکام نہ ہوا کہ جب کہیں پسی گر نے سے شاہراہ پوری طرح بند ہو جاتی تو ایک مشین آوپریٹ کر کےتھوڑ دو ٹائروںکے لئے ملبہ ہٹائے ہوئے راستہ بنایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ شاہراہ پر کہیں کوئی مزدور اور مشین کہیں بھی کام کرتے نظر نہیں آتے ہیں۔گذشتہ برس مرکزی حکومت کے فیصلہ کی رُوسے بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ ون بی کی دیکھ ریکھ ریاستی محکمہ تعمیرات عامہ کے سپرد کی گئی ۔ قابل ذکر ہے کہ قریب دو دہائی قبل بھی یہ سڑک قومی شاہراہ کا درجہ ملنے کے بعد بھی تعمیراتِ عامہ کے زیر نگرانی تھی اور اس کی کشادگی کے لئے بٹوت، کھلینی اور ٹھاٹھری میں خصوصی ڈویژن قائم کئے گئے تھے لیکن تعمیر کا کام جب تسلی بخش طریقہ سے نہ چلا تو حکومت نے تعمیر کا کام گریف کے ہاتھ دے دیا۔گزشتہ برس مرکزی سرکار نے ایک بار پھر 110؍کلو میٹر طویل اس سڑک کو دوبارہ محکمہ تعمیرات عامہ ،آر اینڈ بی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مئی میں حکومت ہند نے جموں وکشمیر سرکار کو اس بات کی منظوری دی تھی کہ بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ کو براستہ چنینی۔سدھ مہادیو کھیلنی تعمیر کیاجائے کیونکہ جیولوجیکل ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ آنے والے چند سالوں میں موجودہ بٹوت کشتواڑ شاہراہ کا بیشتر حصہ دریاچناب کی وجہ سے دھنس جائے گا۔ ا س سلسلہ میں حکومت ہند نے 1000کروڑ روپے کے جامع منصوبہ کو منظوری دے اس کا مفصل پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت دی تھی کیونکہ خدشہ یہ محسوس کیا جارہاہے کہ ڈوڈہ تک بٹوت کشتواڑ شاہراہ آنے والے چند سالوں میں تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی۔ بٹوت۔چنینی۔سدھ مہادیو کھیلنی سڑک کی کل لمبائی 82کلومیٹر ہوگی۔ سال بھر مجوزہ سڑک کو آمدرفت کے قابل بنانے کے لئے سدھ مہادیو میں 2.5کلومیٹر ٹنل تعمیر بھی کیاجانا مطلوب ہے۔ خطے کے عوامی مفاد میں یہاں کے سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ کم سے کم وہ اس معاملے پر سیاست نہ کریں اور سڑک کی تعمیر کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم پر اپنی تیر بہدف کوششیں کریں، اسی بے لوث خدمت سے خطے میں رہ بس رہی لاکھوں کی آبادی دنیا سے مکمل طور کٹ جانے سےبچ پائے گی۔اس خواب کو حقیقت بنانے کے لئے ہم سب کو انفرادی واجتماعی کوششیں مخلصانہ انداز میں کرنی چاہیے۔
رابطہ 9419154375