نئی دہلی کی طرف سے ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ناہنجار کوششوں کے نتیجے میں ریاستی عوام میں زبردست بے چینی پائی جاتی ہے ۔ جہاں اس سے سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے ،وہیں عام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات اور ناراضگی کا لاواپک رہاہے اور اس بناپر صورت حال دھماکہ خیز رُخ اختیارکر تی نظر آرہی ہے۔ مودی حکومت کے برسرِ اقتدار آتے ہی کشمیر کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے بھاجپا کے عزائم کا اعلانیہ اظہار ہونے لگا تھا ۔ وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندرا سنگھ جن کا تعلق جموں سے ہے ،نے ریاست کی خصوصی پوزیشن کے حوالے سے جارحانہ طرز گفتار کا اپناتے ہوئے کہا تھا کہ دفعہ 370؍کو ختم کرنا (حکمران )بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اور اس پر عمل کرنے میں دیر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ان کے اس بیان پر کافی بوال مچا تھا جس پر ممکنہ طور درون ِ خانہ اس پر ان کی سرزنش بھی کی گئی تھی ۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہوسکتی تھی کہ ابھی مودی سرکار کو اقتدار سنبھالے ہفتہ عشرہ ہی گذرا تھا اور اس موقعے پر کسی کنٹرو ورسی میں پڑنا بھاجپا کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا تھا ۔ اگر چہ اس کے بعد وقفے وقفے سے بھاجپا کی لیڈر شپ دفعہ 370؍کے تعلق سے اپنی بدنیتی کا برملا اظہار بھی کرتی رہی لیکن اس میں سنجیدگی کا عنصر شامل نہیں تھا ۔اب جب وزیر اعظم نریندر مودی کی پوزیشن سیاسی طورمستحکم ہے اور آج کی تاریخ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف مرکز بلکہ بیشتر ریاستوں پر بھی حکمران ہے ، پارٹی کے نیتا ہی صدرِ مملکت اور نائب صدر کے عہدوں پر براجماں ہو چکے ہیں، بھاجپا نے کشمیر کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے کھلم کھلا جارحانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کا من بنا لیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ پارٹی کی سرپرست آر ایس ایس کے مشوروں پر پوری طرح کیا جارہا ہے۔ چنانچہ آئین ہند میں درج خصوصی پوزیشن کو تحلیل کر کے کشمیریوں کو زیر کرنے کی خاطر اب سنگھ پریوار عدلیہ کا سہارا لینے کا آغازکرچکا ہے ۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ آر ایس ایس کی پروردہ این جی او زکی طرف سے دفعہ 370؍اور دفعہ 35اے ؍کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ۔ ایک درخواست گذار نے دفعہ 35A؍کو ہٹانے کا مطالبہ کر دیا اور اس کی یہ وجہ بتائی کہ اس دفعہ کی موجودگی میں ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی مراعات حاصل ہیں جس سے ریاست کو ملک سے ایک الگ حیثیت حاصل ہے۔ دفعہ 35A؍کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا مطلب دفعہ 370؍کو مزید کمزور کرنا ہوگا۔ حالانکہ دفعہ 370؍کو پہلے ہی کھوکھلا کر دیا گیا ہے اور اب اس کی وہ حیثیت ہی نہیں رہی جو اس کو آئین ِہند میں درج کرتے وقت معمارانِ آئین نے ذہانت، دوراندیشی اور تدبر کو بروئے کار لاکر دی تھی ۔ دفعہ 35A؍کوسات دہائیاں گزرنے پر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے خلاف کشمیر میں زبردست ردِ عمل کا اظہار کیا گیا اور مین اسٹریم لیڈر شپ بلکہ اس موضوع پر زیادہ تر خاموش رہنے والی مزاحمتی قیادت نے بھی اس کے خلاف زبردست برہمی کا اظہار کیا۔
ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مرکزی سرکار کو بجاطور متنبہ کیا کہ دفعہ 35A؍کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے ریاست میں آگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں اور دلّی کو امرناتھ ایجی ٹیشن سے زیادہ بڑی بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فاروق عبداللہ کے علاوہ سی پی آئی ایم کے محمد یوسف تاریگامی ، پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین اور ڈی پی این کے غلام حسن میر اور آزاد ممبر اسمبلی انجینئر رشید نے بھی مرکزی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ دفعہ 35A؍کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے بازرہے کیونکہ ایسی کسی بھی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ مزاحمتی قائدین نے اس حوالے سے ایک ایسی ایجی ٹیشن چلانے کی دھمکی دی ہے جس پر قابو پانا حکومت کیلئے ناممکن ہوگا۔ اس کے علاوہ بار ایسو سی ایشن ، سول سوسائٹی ، تاجر انجمنوں اور دوسری جماعتوں نے بھی اس حوالے سے زبردست برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مرکز کو انتباہ دیا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے دور رہے جس کا مقصد دفعہ 35Aسے چھیڑ چھاڑ کرنا ہو ۔
دفعہ 35اے؍ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے حوالے سے احتجاج کا سلسلہ جاری تھا کہ اس دوران آر ایس ایس کے ایک اور پروردہ وکیل نے دفعہ 370؍کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ آئین ہند میں چونکہ یہ دفعہ عارضی طور شامل کی گئی تھی اور اب بقول اس افلاطون کے ا س دفعہ کی ضرور ت باقی نہیں رہی ہے، اور اس دفعہ کی موجودگی سے ریاست کو جو خصوصی درجہ حاصل ہے ، وہ’’ ملک کے مفاد میں نہیں‘‘ اس لئے اس دفعہ کو کالعدم قرار دینے کا حکم صادر کیا جائے۔ دفعہ 370؍اور آرٹیکل 35A؍ کے سلسلے میں آر ایس ایس اور اس کی پروردہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی اب کھل کر سامنے آگئی ہے اور نامراد کوشش یہ کی جارہی ہے کہ سیاسی وآئینی اقدامات کے بجائے عدلیہ کے احکامات کے تحت ان دفعات کو ہٹانے کا عمل مکمل کیاجائے تاکہ پارٹی کو اس عمل میں شریک نہ سمجھا جائے ۔ بی جے پی کو اس ضمن میں ملک کے بہترین قانون دانوں کی خدمات حاصل ہیں اور خزانوں کے منہ بھی کھلے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ معروف قانون دانوں کو کیس کی پیروی کیلئے منتخب کیا جاسکتا ہے جو عدالت کو اپنے ’’دلائل‘‘ سے قائل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست جموں وکشمیر کی حکومت اس حوالے سے مایوسی اور انتشار کامجسمہ نظر آتی ہے۔ طلبائے قانون کا خیال ہے کہ ریاستی حکومت کی حکمت عملی انتہائی کمزور ہے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور ان کی جماعت پی ڈی پی کیلئے اس حوالے سے حالات بالکل بھی سازگار نہیں ہیں۔ کہاں تو وہ سیلف رول کا خواب دکھا کر عوام کے دلوں میں اُمید کے چراغ جلانے کے ایجنڈے پر کاربند تھیں اور کہا ںیہ حالت کہ اس کے اقتدار میں رہتے دفعہ 35A؍اور دفعہ 370؍پر شب خون مارنے کی تیاریاں ہورہی ہیں!!!۔ چونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں محبوبہ مفتی کی ساجھی دار ہیں اور ریاست میں پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت قائم ہے ،اس لئے محبوبہ مفتی کی پوزیشن انتہائی مضحکہ خیز بن گئی ہے۔ اقتدار ان کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے جسے نہ تو وہ اُگل سکتی ہیں اور نہ ہی نگل سکتی ہیں۔ کہنے کووزیر اعلیٰ نے اگرچہ اس حوالے سے دلی میں اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا ، ریاست کی اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقاتوں کے دوران ریاست کی خصوصی پوزیشن بچانے کے لئے صلاح مشورہ بھی کیا ہے ،تاہم لگتا ہے ان کی حلیف اور حکومت میں شریک بھارتیہ جنتا پارٹی کی صحت پر اس کاکوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ہی اس سلسلے میں اُس نے کسی پی ڈی پی موافقانہ ردِ عمل کا اظہار کیا ۔ وزیر اعلیٰ نے دلّی جا کر وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور پارٹی کے دوسرے لیڈروں سے ملاقات کے دوران اس حوالے سے اپنی تشویش کا کھل کر اظہار کیا تو انہیں ایجنڈا آف آلائنس کے نام سے طفل تسلیاں دے کر ٹرخا یا گیا اور ان دفعات کا ’’احترام کرنے کی خوشخبری‘‘ سنائی گئی ۔ حالانکہ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری اور کشمیر معاملے کے انچارج رام مادھو نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ معاملہ عدالت میںہے اور ہمیں عدالت کے فیصلے کا انتظار اور احترام کرنا پڑے گا۔ انہی خیالات کا اظہار ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ اور وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندرا سنگھ نے بھی کیا ۔انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ پارٹی مؤقف اگر چہ 370؍کے معاملے پر واضح ہے اور وہ اس دفعہ کے خاتمے کے حق میں ہیں لیکن ایجنڈا آف الائنس کی رُو سے اس معاملے کو فی الحال چھیڑنے کے حق میں نہیں، تاہم معاملہ چونکہ عدالت میں ہے اس لئے ہمیں فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل پارٹی کے قومی ترجمان نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ دفعہ 370؍کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے۔
سنیچر 12؍اگست کو نہ صرف وادی کشمیر بلکہ جموں کے خطہ چناب اور پونچھ راجوری کے اضلاع میں جو بے مثال ہڑتال کی گئی، اس سے دلّی تک یقینا یہ پیغام پہنچا ہوگا کہ دفعہ 35A؍اور دفعہ 370 ؍ریاستی عوام کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور اس سے چھیڑنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ مزاحمتی قیادت کی کل پر ایک عرصہ بعد اس قسم کی زبردست ہڑتال یہ بات واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ اگر دلّی کے حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں پردے کے پیچھے چھپتے ہوئے عدلیہ کی وساطت سے دفعہ 35A؍اور 370؍کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوئی بھی کوشش کی تو اس کے کس قدر بھیانک نتائج سامنے آئیں گے ، تب ممکن ہے کہ دلّی والوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں لیکن اُس وقت بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
مضمون نگار ہفت روزہ’’ جبروت‘‘ کے مدیر ہیں
9797015597