گزشتہ دو روز سے ہورہی ہلکی بارشوں سے خشک موسم کے ستائے ہوئے لوگوں کو راحت کا احساس ہوا ہے تاہم خشک سالی کے وہ خطرات برابر درپیش ہیں ، جسکا انتباہ انتظامی سرشتوں بالخصوص محکمہ موسمیات کی طرف سے دیا جا رہا ہے او ر جس کے نتیجے میں محکمہ زراعت نے وادیٔ کشمیر کے کئی علاقوں میں دھان کی فصلیں کاشت نہ کرنے کی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے طفیل فصلی سرگرمیوں کا متاثر ہونا بد یہی امر ہے مگر اس سے نمٹنے کےلئے انتظامی سطح پر بھر تیاریوں کی ضرورت ہے۔ اگر چہ متعلقہ محکمہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ خشک سالی سے پیدا شدہ صورتحال سےنمٹنے کےلئے حکمت عملی تیا ر کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کسانوں کو کاشتکاری کی نئی تکنیکوں سے آشنا کیا جائیگا، جن میں فصلیں کاشت کرنےمیں کم سے کم پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایک احسن اقدام ہوگا کیونکہ اگر خشکی کی موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو یقینی طور پر دھان کی پیداوار میں کمی آکر غذائی درآمدات پر انحصار میں اضافہ ہوگا، جو بالآخر ریاست کی زرعی معیشت کے لئے ایک جھٹکے سے کم نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں کاشتکاری کاکلچر بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہیگا اور ایسی صورت میں یہ پھر زرعی زمینوں کے غیر زرعی امور میں استعمال کے خدشات میں اضافہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ فی الوقت عام لوگوں کو پانی کی قلت کا زبردست احساس ہو رہا ہے اور جابجا خالق کائنات سے بارشوں کےلئے دُعائیہ مجالس بھی منعقد ہو رہی ہیں۔ ایے حالا ت میں ریاست کے طول و عرض میں پانی کی قلت سے ہاہار کار مچنے لگی ہےاوردریائوںوندی نالوں میں پانی کی سطح متواتر گر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں لوگوں پر بھی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو رہاہے۔ اب فی الوقت پانی کے جس قدر بھی وسائل موجود ہیں، انہیں معقول بنیادوں پر استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، جسکے دوران یہ خیال رکھا جائے کہ سبھی صارفین کو بلا ضرورت پانی کی سپلائی میسر ہو اور دوسری جانب عوام پر بھی یہ لازم آتاہے کہ وہ پانی کو معقول طریقےپر استعمال کریں اور اس کی تضیع سے بچنے کا اہتمام کریں۔موسم سرما کے دوران ندلی نالوں میں سطحِ آب میں کمی ہونا ایک معمول کی بات ہے، جس میں رواں برس خشک سالی کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا ہے لہٰذ اتقسیم کاری میں غیر معقولیت ختم کرنے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ سینے کی ضرورت ہے ۔صورتحال اس امر کی چغلی کھاتی ہے کہ صاف پانی کی تقسیم کاری کانظام خامیوں کا شکار ہے اور اسے جدید ضروریات اور موثر بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے قلت کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اگرچہ بعض اوقات کچھ بستیوں میں ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی کو ممکن بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاہم ضروریات کے مقابلے میں یہ کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیںاور متعدد علاقوں میں لوگ سڑکوں پر بالٹیاں ہاتھوں میں لئے پانی کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کئی دیہات میں خاص کر چناب اور پیر پنچال کے خطوں اور وادی کے بالائی علاقوں میں تو لوگ اس غرض سے میلوں کی مسافت طے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ایسی صورتحال میں کئی لوگوں کو ندی نالوں کے ناصاف پانی کے استعمال پر اکتفا کرنا پڑتا ہے، جو بعد ازاں بیماریوں کی افزائش پر منتج ہو کر دوہری پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔ اخبارات میں ان حوالوں سے اگرچہ آئے دن رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ محکمہ اور ذمہ دار افسران کو عوام کی اس شکایت کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنے کیلئے فرصت میسر نہیں آتی۔جہاں تک پانی کی سپلائی کا معاملہ ہے تو چونکہ اس کا براہ راست تعلق انسان کی بنیادی ضرورت سے ہے تو یہاں حکام کو اور بھی زیادہ چاک وچوبند اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کی اس بنیادی ضرورت کو حاصل کرنے کیلئے انہیں دردر کی ٹھوکریں نہ کھا نا پڑیں ۔ لہٰذا حکومت کیلئے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے پینے کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے اور تقسیم کاری میں بہتری لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں ،تاکہ عوام کو زندگی کی اس بنیادی ضرورت سے محرومی کا سامنا نہ رہے۔ موجودہ حکومت اگرچہ عوام الناس کی بنیادی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے کی وعدہ بند ہے، لہٰذا اسے پانی کے وسائل و ذخائر کے تحفظ اور دوران ترسیل و استعمال اس کا ضیاع روکنے کے اقدامات کی نشاندہی کرنے، نیز تقسیم کاری کے نظام کو مزید موثر اور پختہ بنانے کیلئے ایک جامع پالیسی مرتب کرنی چاہئے۔ جب تک یہ امور طے پاتے ہیں،تب تک متاثرہ علاقوں میں عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی کے عمل کو وسعت دے دی جائے۔