خزاں کے نقیب

Kashmir Uzma News Desk
7 Min Read
رات———-رات لوگوں کے لئے آرام و آسائش اور راحت و سکون فراہم کرتی ہے ۔دن بھر محنت و مشقت کرنے والے تھکے ہارے مزدور اور دیگر محنت کش طبقے————-دوکاندار——-دفتروں میں کام کرنے والے بابو———–سماج کے مختلف شعبوں میںروزی روٹی سے جُڑے کامگار اور کارکن ——-کام سے لوٹ کر رات کو سکون و اطمینان اور فرحت و تازگی پاتے ہیں ۔دن کے شور و ہنگامے اور چیخ و پکار مدھم پڑجاتے ہیں اور ہر سُو مکمل سکوت و خاموشی چھا جاتی ہے۔ہر ایک شیٔ طمانیت کی سانس لیتی ہے مگر یہی رات بے آرامی اور وحشت کے مہیب سائے میرے وجود پر طاری کردیتی ہے۔
رات———-میرا سکون برباد کرکے مجھے مجروح کرتی ہے اور دل پر کچھوکے لگا دیتی ہے۔
رات———میرے زخموں پرنمک پاشی کرکے مجھے بے چین و بے قرار کردیتی ہے۔میرے لئے رات——–آہوں کا رسنا اور زخموں کی کسک ہے۔
رات——–میرے لئے آنسوئوں کی دھار سے چہرے پر بننے والی لکیر اور ہچکیوں کی نشانی ہے ،یہی رات میرے لئے بجھے دیئے سے اُٹھنے والی سیاہ لکیر کے مانند ہے۔
رات——–میرے لئے قبرستانوں کے بکھرے کتبے اور سنسان صحرائوں کی خاموشی ہے اور یہی رات میرے لئے خزاںمیں درختوں سے جھڑنے والے پتوں کی گمنامی ہے۔
رات——–میرے لئے مسمار اُمیدیں اور دم توڑتی آرزوئیں،ویران بیابانوں او ر گمنام ٹھکانوں کی گریۂ و زاری ہے ۔یہ رات میرے لئے مہیب سناٹا ،گھور اندھیرا ،خواہش ِناتمام اور رقصِ بسمل ہے۔
وہ بھی ایک ایسی ہی سیاہ رات تھی
سرد ،کالی ،سناٹوں سے بھرپور ۔سوئی بھی کہیں گرتی تو دل کی دھڑکنیں لازمی طور پر بے ترتیب ہوجاتیں۔
میں عذاب الٰہی سے زیادہ عذاب ِانسانی کی وجہ سے دیگر اہل ِشہر کی طرح اپنے گھر میں اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ چپ سادھے اور خاموش بیٹھا تھا ،دروازے بھڑے ،دریچے بند اور کواڑ و جھروکے مقفل تھے ۔چھجے ویران،کنگھورے خاموش اور روزن مہر بہ لب تھے۔ہر سُو سناٹا چھایا ہوا تھا ———–مکمل خاموشی ۔اس خاموشی میں صرف دور دور سے کتوں کی بے ہنگم راگنی سنائی دے رہی تھی جو تھوڑی دیر کے لئے وقت کی سانسوں کا احساس دلاتی تھی ،ورنہ ہر متنفس کو لگ رہا تھا جیسے وہ گھر میں نہیں قبر میں سانس لے رہا ہو ۔
دروازے پر دستک ہوئی ۔ہم خاموش بیٹھے رہے ،دل بلیوں اُچھلنے لگا ۔پھر دستک ہوئی ،ہم پھر بھی خاموش ہی بیٹھے رہے ۔تیسری بار دروازہ زور زور سے بجا ۔میں نے دروازہ کھولا اور دروازے کے پٹ کے ساتھ ایک طرف کوہوگیا ۔کچھ نقاب پوش اندر آئے ۔ایک ریلا آیا —–آتشیں ریلا ———-ایک لاوا پھٹا———ایک قیامت بپا ہوئی ۔آتشیں اسلحہ جات کے دہانے رنگین ہوئے اور ہمارے کمرے کا فرش ، کمبل ،شیٹ وغیرہ سب لالہ زار ہوگیا ۔نا معلوم بندوق برداروں نے میرے ہنستے مسکراتے گلشن کو تاراج کیا ۔میرے سارے کنبے کو چٹ کر ڈالا اور مجھے بے یار ومدد گار اکیلا کردیا ———-تن تنہا ——-گھر کی ننگی دیواروں کے ساتھ سر پھوڑنے کے لئے۔
آخر یہ نامعلوم بندوق بردار ہوتا کون ہے؟——کون ہے ؟کون ہے یہ؟———کیا اُسے صرف مارنا ہی آتا ہے ؟گھروں کو تاراج اور کنبوں کو ملیا میٹ کرنا ہی آتا ہے ؟بے گناہوں ،بے قصوروں اور کمسن بچوں کومارنے سے اُسے کیا ملتا ہے ؟ جنونی ذہن کو سکون؟ آتش ِ انتقام کو تشفی ؟ نقد وجنس معاوضہ ؟یا دیش بھگتی کا تمغہ؟ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس پر قتل و غارت کے لئے مذہبی پابندی ہے اور اگر ہندو ہے تب بھی اُس پر اہنسا پر مودھرما کی اخلاقی اور دینی پابندی ہے ۔پھر یہ ہے کون ۔۔۔؟
میرے خیال سے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔جس کے پاس ہے، وہ بتائے گا نہیں۔وہ بتا ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ بھی کسی نامعلوم بندوق بردار کے حکم کا غلام ہے اور اَغلب یہی ہے کہ وہ حکم کا غلام بھی کسی کے آگے حکم کی غلامی کرتا ہے اور علیٰ ہذ القیاس یہ سلسلہ دور تک جاسکتا ہے ۔آخر اس قتل و غارت گری کا مطلب کیا ہے ؟اور وجہ کیا ہے ؟ آگے گھروں میں جاکر مارتے تھے ،اب سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں خون ِناحق بہایا جارہا ہے ۔بچوں کو معذور اور اندھا کیا جارہا ہے ۔بچے تو بچے ،بچیوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے ۔جب قوم کی آنکھیں ہی چلی جائیں گی تو پھر قوم کن آنکھوں سے اپنے گردوپیش کو دیکھے گا۔آگے چلے گا ،آگے بڑھے گا ،سماج کا حصہ بنے گا ؟آزادی کی جلملاتی اور درخشاں صبح کو دیکھے گا ؟
اندازہ تو یہ ہے کہ ا س قتل و غارت گری کا مطلب جنیو سائڈ،نسل کشی او رآبادی میں تخفیف ہے مگر احمق ہیں ایسے پالیسی ساز اور احمقانہ سوچ ہے ایسے تھنک ٹینک کی ۔کیونکہ وہ مارتے رہیںگے۔ہر ایک چیز پر روک لگ سکتی ہے مگر حیات پر کوئی روک نہیں لگا سکتا ۔زندگی کو پنپنے سے کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔زندگی کی نسل کُشی کسی صورت میں نہیں ہوسکتی۔وہ دنیا کے بڑے بڑے انسان دشمن آمروں نے جرمنی،افغانستان، عراق ،لیبیا،شام ،فلسطین اور سوڈان وغیرہ میں آزما کے دیکھ لیاہے۔ایک چٹان کے بیچوں بیچ سے جب ایک پودا پھوٹتا ہے ،کیا اس کی نمو کو جنگل کے شیر ،چیتے اور ہاتھی روک پاتے ہیں ۔جنگلی درندے کتنے دوسرے جانوروں کا شکار کرکے اُن کو اپنی خوراک بناتے ہیں مگر کیا اُن جانوروں کی نسل نابود ہوجاتی ہے ؟ہر سال برسات کے دوران سیلاب آکر کھیتوں سے فصلیں بہا کر لے جاتے ہیں، تو کیا اُس عمل سے کھیتوں سے دانہ یا فصل اُگانے کی شمتا نابود ہوجاتی ہے ؟اس لئے ایسے پالیسی سازوں اور اُلٹی سوچ رکھنے والوں کے لئے یہی ایڈوائزری ہے   ؎   
ہم کو  مٹا سکے  یہ  زمانے  میں  دم نہیں 
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں                       
جگرؔ مراد آبادی
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
 موبائل نمبر:-9419475995 

Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *