سینکڑوں سال سے ہم راؤن کو مارتے چلے آرہے ہیں ،لیکن بد ذات راؤن ہے کہ مرتا ہی نہیں۔۔۔۔۔ ہر سال ایک خاص موقعے پرہم اس کا پتلا دہن کرتے ہیں اور برائی پر اچھائی کی جیت کا جشن مناتے ہیںلیکن کیا دیکھتے ہیں کہ اگلے سال یہ دُ شٹ پھر اپنے پورے جا ہ و جلال کے ساتھ پر کٹ ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔اور ہم حسبِ روایت اسے دوبارہ مارنے کے لئے پھراسی خاص موقعے کا انتظار کرتے ہیں ۔خدا جانے یہ لیلاکب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گی؟
خالق کائنات نے چونکہ نطق و شعورعطا کر کے تمام مخلوقات میں ہمیں افضلیت بخشی گئی ہے تو ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں، ورنہ کس منہ سے ہم انسان کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔لہٰذا جوں ہی ہمیں اپنی اس ذمہ داری کااحساس ہوتا ہے ہم فورا سوچنے سمجھنے اور پھر اس کے نتیجے میں کچھ بولنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ہماری یہی کوشش جب سوالات کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے تو ہماری خودساختہ رسوم و رواج اور جھوٹی اناکو بہت ٹھیس پہنچتی ہے۔اس صورت میں ہمارا فرعون خصلت دماغ ایسی تمام کوششوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنی بے پناہ قوت اور جاہ و حشمت کے ساتھ ہی اپنے اوچھے ہتھکنڈوں کابے دریغ استعمال کرتا ہے لیکن تجربات و مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ جھوٹ اور جبر کے قلعے مسمار ہو کر رہتے ہیں اور سچ کی بنیاد پڑ کرہی رہتی ہے۔تاریخ میں ایسے اَن گنت واقعات اپنی عبرت ناکیوں کے ساتھ موجود ہیں۔راؤن کے سلسلے میں بھی ہم یہی سوچتے ہیں، اور تب تک سوچتے رہیں گے جب تک ہمارے پاس سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہمارا ذہن سوالات قائم کرتا ہے کہ یہ راؤن کیسی بلا ہے؟ یہ مرتا کیوں نہیں ہے ؟یہ با ر بار کیوں اور کیسے آجاتا ہے ؟آخر کب تک ہم اسے ما یونہی مارتے رہیں گے ؟کیا حقیقت میں ہم راؤن کو مار رہے ہیں یا سب کچھ جانتے ہوئے بھی محض رسما ًایک علامتی پتلے کا دہن کر رہے ہیںتاکہ مذہب یا عقیدے کے نام پر یہ میلے ٹھیلے یونہی چلتے رہیں اور عوام اپنی بنیادی ضرورتوں اور حکمران طبقے کی کارگزاریوںکی طرف دھیان ہی نہ دے سکیں ؟اس کے ساتھ ہی ایک انڈسٹری بھی چلتی رہے تاکہ ہمارے سرمایہ دارانہ مزاج کو جلا ملتی رہے۔کبھی کبھی ہم اتنے شاطر ہو جاتے ہیں کہ غلط صحیح سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے تجربات و مشاہدات کی دِیا روشن کریں تو یقینا یہ احساس ہوگا کہ ہم راؤن کو اب تک نہیں مار سکے ہیں،ہم نے راؤن کو مارا ہی کب تھا؟صرف اس کے دیو قامت نقل کومار کر اپنی روایتی مذہبی قدروں کو زندہ کرتے رہے ہیں۔تلخ حقیقت رہی ہوگی کبھی ،لیکن آج اس میںکوئی تلخی نہیں بچی ہے کہ راؤن آج بھی زندہ ہے، اپنے پورے جاہ و جلال اور ہیبت کے ساتھ ،یہ مرتا بھی کیسے ؟راؤن تو ہمارے دل و دماغ میں بستا ہے۔ہمارے گھروں ادرایوانوں میں بستا ہے،ہمارے دفتروں ڈیرا سچاسودا کے گرمیت سنگھ اور آسام رام میں بستا ہے۔رام راج تو محض چھلاوا ہے۔رام کے نام پر تو ہم نے اپنی سیاسی روٹیاں سینکی ہیں۔ مسجدوں اور مندروں کے نام پر جھگڑے کھڑے کئے ہیں۔خدا کا نام لے کر خدائی خاندان میں بغض و عناد کے بیج بوئے ہیں۔ہمارے سیاہ کارنامے یہیں پر ختم نہیں ہوجاتے بلکہ روزآنہ برقی اور نشریاتی میڈیا میں ہمارے راؤنی جنون کی عبرتناک داستانیں نشر ہوتی رہتی ہیں۔یہی نہیں آج تو مختلف ٹی وی چینلوں میںجرائم پر سلسلے وار ایپی سوڈچل رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود عبرت تو کجا ہم مزید شاطرانہ رویہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔محض روپے کے لالچ میں انسانیت ٹھکرا رہے ہیں،معمولی سی معمولی بات پر آپا کھو دیتے ہیں ،عورت جسے ہم نے دھرتی پر دیوی کا درجہ دے رکھا ہے، وہ بھی ہمارے جنون سے محفوظ نہیں ہے۔حد تو تب ہوجاتی ہے کہ ہمارے گھر بھی ہم سے محفوظ نہیں ہیں۔سماجی خدمات کے اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ صرف دہلی میں عصمت دری کے بیسوں معاملات میں ملزمین متاثرین کے پڑوسی تھے جب کہ کہیوں میں تو رشتہ دا ر اور دوست بھی شامل تھے۔جب کہ بہت سارے ایسے بھی معاملات ہیںجن میںمتاثرین بدنامی یا ملزمین کے با اثر ہونے کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے بھی معاملات کی تعداد بہت ہے جن میں واردات کی ایف،آئی ، آر، متیعنہ وقت نکل جانے کے بعد درج ہو تی ہے یا وقت نکل جانے کی صورت میں درج ہی نہیں ہوتی ہے۔ بعض دفعہ تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جنسی زیادتیوں کے شکار افراد ایسے زہر آلود عناصر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں توتحفظ و ایقان کے ان اداروں میںہوسناکیوں سے بھرے ہوئے راؤنوں کا پھر شکار ہو جاتے ہیں اوریہاں سے جنسی تشدد کا ایک اور سلسلہ چل نکلتا ہے۔اسکولوں میں معصوم بچوں کی درد ناک موتیں،کسانوں کی خودکشیاں،بے قابو بھیڑ کا نہتوںپر قاتلانہ حملے ،حیوانوں کے نام پر انسانوں کی نسل کشی،مذہبی علامات کی بے حرمتی کو بنیاد بنا کر پورے پورے علاقے کو نذرِآتش کر دینا، بے بنیاد معاملات میں پھنسا کر معصوموں کو گناہ گارثابت کرنا ،پھر قید خانوں کی صعوبتیں اور پھرناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ؑمر بھر کے لئے بے کار بنا کر چھوڑدینا وغیرہ جیسے معاملات ہمارے ’’مہذب‘‘ معاشرے کے نمونے ہیں۔ایسے معاشرے میںرام تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتے ہیں ،یہاںرام نظر بھی کیوں آئیں گے؟ بھلا یہاںرام اوتار کا کیا کام ؟معاف کرنا ہم نے ایسے معاشرے کی تعمیر کی ہے جو راؤن کے خوابوں کا توہو سکتا ہے لیکن رام کی مریادوںکا نہیں۔رام کسی اور معاشرے میں ہوں تو ہوں ،ہمارے اس معاشرے میں نہیں ہیں۔ہم رات دن رام نام جپتے ہیں ، رام کی امرت وانی کا پاٹھ بھی کرتے ہیں ، رام راج کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور کہنے کو اس کے نفاذ کی جدو جہد بھی کرتے ہیں لیکن سادھو من سے نہیں ،کیوں کہ ہم خود نہیں چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی بھی نظامِ حیات آئے جس سے ہماری جھوٹی انا کو ٹھیس پہنچے یا ہمارے ڈھونگی من کی چھل کپٹ پر وِرام لگے۔انسانی تاریخ کی ابتدا ء سے ہی ہم نے ہر اس شخص اورہر اس نظریہ حیات کی مخالفت کی ہے جس نے یا جہاں سے امن اور انسانیت کی بات کی گئی ہے۔ ہاں ہم ایسے ہر شخص اور ہر نظام حیات کی آڑ میں اپنی روزی روٹی اور راج پاٹھ ضرور چلانا چاہتے ہیں اور آج تک چلابھی رہے ہیںلیکن ایسا کرتے ہوئے ہم ذرا بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے اس غیر عمل سے کتنے بندوںکی روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ہم اپنی بے جابھوک کے لئے کتنے لوگوں کو بھوکا مار رہے ہیں۔مذہب و عقیدے کے نام پر کتنے لوگوں کے خالص جذبات اور عقیدتوں سے کھیل رہے ہیں۔ہم نہیں سوچتے ہیں ،بھلا ہم سوچیں بھی کیوں؟ہم خاندانی لوگ ہیں۔ہمارے اجدا د جہاں پر تھے وہ ان کے پچھلے جنموں کے اچھے کرم تھے اور آج ہم جہاں پر ہیںیہ سب ہماری ذاتی محنت اور ہمارے اعلیٰ ترین دماغوں کی کار گذاریاں ہیں۔ اس دنیا کا نظام ہی یہی ہے کہ کچھ لوگ حکمراں بن کر جنم لیتے ہیں تو کچھ لوگ ان کے مصاحب بن کر۔یہی فطرت کی گردان ہے تو بھلا ہم کیوں کر سوچیں؟ ایسے اساطیر اسی طبقہ اشرافیہ کے امتیاز و برتری کو قائم رکھنے کے لئے بنائے گئے ہیں ۔اس کی جب بھی ضرورت پڑی ہم نے استعمال کیا ورنہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیوں غور و فکرنہیں کرتے ہیں ؟کیوں بے جا رسوم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں؟آخرکیونکرہماری سوچ و فکر کادائرہ عشق اور عقیدت سے آگے نکل کر معروضیت کی سطح تک نہیں پہنچتا ہے؟ کیوں ہم قدیم زمانے کے توہمات میں جی رہے ہیں؟نطق و شعور اور عقل و خرد جیسی طاقتیں ہمارے جسم کے سب سے بلند ترین مقام پر رکھی گئیں ہیں جو ان کی اہمیت و برتری پر دلالت کرتی ہیں، تو پھربھلا ہم کیوں کر ان نعمتوں کا استعمال نہیں کرتے ہیں؟ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیوں نہیں سوچتے ہیں؟کیوں نہیں بولتے ہیں؟لب آزاد ہیں ، زباں بھی اپنی ہے او رعقل و خرد پر بھی کسی کی اجارہ داری نہیں ہے تو پھر یہ خاموشی کے کیا معنی ہیں؟بلا شبہ خاموشی میںاعلیٰ درجے کی دانش مندی ہے لیکن مجرمانہ خاموشی ناقابل ِمعافی ہے۔اسی طرح بے جا بولنے والوں کے سامنے بجا بولنا بھی اخلاقی واعلیٰ درجے کی جرأت مندی ہے۔جملہ مخلوق میں ہماری افضلیت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم ذرا ٹھہر کر سوچیں، اپنے وجود سے لے کر موجودات ِعالم پر غور وفکر کریں،روح اور مادے کی معنویت کوسمجھیں ،فرد سے افراد اور پھرخاندان و معاشرت کے نظام پر اس پہلو سے غور کریں کہ کسی ایک کی وجہ سے دوسرے کی معنویت مجروح نہ ہونے پائے۔ہمیں ان حدود و قیود کابھی بہ نظر غائر مطالعہ کرنا چاہئے جوفطری ہیں یا جنھیں فطری کہہ کرہم پر مسلط کر دیاگیا ہے۔عقیدت یا عشق کے خول سے نکل کر معروضی سطح پر چیزوں کو سمجھیں اور نتائج اخذ کریں۔ بولنے اورچیخنے چلانے کے درمیان جو فرق ہے ،اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔خاموش رہنے کے فلسفے پر غور کریں لیکن مجرمانہ خاموشی کو قصداًو عملا ًترک کردیں،دوسروں سے سوال کرنے سے قبل خود کواپنی ذات کو انہیں سوالوں کے گھیرے میںلائیں ،کسی بھی صورت میں سوچنے یا غور و فکر کرنے کے عمل کو موخر نہ کریںکیونکہ زندہ سوچ ہے، تبھی تو ہم ہیں ۔ واضح رہے یہ کوئی ذاتی تجربات یا مشاہدات نہیں ہیں اور نا ہی کوئی مشورہ، بس اگلوں سے سنی سنائی باتیں ہیں جو اپنے انداز سے لکھ دی گئیں ہیں۔(واللہ اعلم)
رابطہ :جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی۔
[email protected]/9560877701