اللہ تعا لیٰ نے قرآنِ مجید میں فضول خرچی کرنے پر سختی سے منع کیا ہے حتیٰ کہ یہاں تک فرمایا کہ "فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا بڑا نا شْکرگزارہے" ۔گویا ہم یہ کہ سکتے ہے کہ فضول خرچی کرنے والا اللہ کے دربار میں گنہگار کی حیثیت سے روزِ محشر میں پیش ہوگا۔ انسان کے سوا جو کائنات ہے وہ نہایت محکم قوانین پر چل رہی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کا ایک مقرر ضابطہ ہے۔ وہ ہمیشہ اس ضابطہ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے تکمیل کے مرحلہ تک پہنچتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کے لئے بھی قدرت کا ایک مقرر کیا ہوا ضابطہ ہے جو انسان اس ضابطہ کی پیروی کرتا ہے ہے وہ اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے اور جو آدمی اس مقرر ضابطہ حیات سے انحراف کرتا ہے وہ یہاں ناکام و نا مراد ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب ہم خرافات کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں کہ ہم کس چیز کو صحیح قرار دیں او کس چیز کو غلط سمجھیں جبکہ نیکی اور بدی کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے بلکہ شعور آدمی کی فطرت میں ہے۔ قرآن مجید اس حقیقت کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے فَاَلھَمَھَا فْجورَھا وَتقواھاَ یعنی نفسِ انسان خْدا نے بھلائی اور بْرائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔
سماج میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیںیعنی امیر، غریب متوسط طبقہ، وغیرہ۔ ہر کوئی اللہ کے مقرر کئے ہوئے رزق و استطاعت کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے معمولات میں ہر طبقہ اپنی حیثیت کے مطابق آپنی آمدنی کا استعمال کرتا ہے تاہم استعمال کے طریقے ایسے ہونے چاہئیں جس سے نہ تو کسی کی دل آزاری ہو اور نہ یہ معاشرے میں ایک نئی رسم بن کر رائج ہو، یا یوں کہیے کہ ہمیں اسراف سے پاک و صاف معاشرہ قائم کرنے کی پہل کرنی چاہئے۔ اگر ہم ایسا کرنے سے قاصر رہے تو سماج میں ہم بے راہ روی کا شکار ایک تو خود ہونگے اور آنے والی نسلوں کی نظروں میں ہمیں جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔
ہمارا معاشرہ غیر اسلامی رسوم ورواج میں بری طرح جکڑچکا ہے۔کہیں شادی بیاہ پر رسمیں تو کہیں بچے کی ولادت پر رسمیں،کہیں موسمیاتی رسمیں تو کہیں کفن ودفن کی رسمیں۔الغرض ہر طرف رسمیں ہی رسمیں نظر آتی ہیں۔اسلامی تہذیب وثقافت کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ہے۔انہی رسوم ورواج میں سے شادی کے مواقع پر ادا کی جانے والی رسوم ہیںجن کا اسلامی تہذیب کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ان رسوم ورواج میں اسلامی تعلیمات کا خوب دل کھول استخفاف کیا جاتا اور غیر شرعی افعال سر انجام دیئے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسان کے لئے بے شمار اور بیش بہا نعمتیں پیداکی گئی ہیں۔ پس انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان سے نہ صرف بھرپور فائدہ اٹھائے بلکہ اس پر اللہ رب العزت کا شکریہ بھی ادا کرے۔ اب اگر یہ مسئلہ پیدا ہو کہ سب سے عظیم ترین اور اعلیٰ ترین نعمت کونسی ہے تو اس کا قطعی اور دو ٹوک جواب یہ ہے کہ صراط مستقیم ہی ایک ایسی منفرد نعمت ہے جس کا درجہ دیگر سب اشیاء سے بلند تر ہے۔ہر انسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور آخرت میں بھی جنت اس کا مقدر بنے۔ دنیا وآخرت میں کامیابی کا حصول صرف تعلیمات اسلامی میں ہے۔ یہ واحد دین ہے جو انسان کی ہر ضرورت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کی کامیابی کا راز اتباع رسول اللہؐ میں مضمر کیا ہے۔ موجودہ دور میں سنت کے مقابلے میں بدعت کی اس قدر اشاعت ہو رہی ہے کہ عام آدمی دین حنیف کے متعلق متزلزل اور شکوک و شبہات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی کے لئے سنت کو پہچاننا انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے جبکہ خوشی ہو یا غمی اسلام نے ہر موڑ پر بنی آدم کی راہنمائی فرمائی ہے۔
انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات ، عقائد وعبادات ، اخلاق وعادات کیلئے نبیؐ کی ذات مبارکہ اسوہ حسنہ کی صورت میں موجود ہے ۔مسلمانانِ عالم کو اپنے معاملات کو نبی کریم ؐکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سرانجام دینے چاہئیں۔لیکن موجود دور میں مسلمان رسم ورواج اور خرافات میں گھیرے ہوئے ہیں بالخصوص برصغیر پاک وہند میں شادی بیاہ کے مواقع پر بہت سے رسمیں اداکی جاتی ہیں جن کاشریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ان رسومات میں بہت زیادہ فضول خرچی اور اسراف سے کا م لیاجاتا ہے جوکہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
نبی کریمؐ دین کامل لے کر آئے اور آپؐ نے اسے کامل و اکمل ترین حالت میں امت تک پہنچا دیا۔آپ ؐنے اس میں نہ تو کوئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی کی بلکہ اللہ نے جو پیغام دیا تھا، اسے امانت داری کے ساتھ اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا۔اب اگر کوئی شخص دین میں ایسی نئی چیز لاتا ہے جو آپ ؐسے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت ہوگی ،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔امت مسلمہ آج بے شمارسنتوں کو چھوڑ کر من گھڑت رسوم ورواجات اور بدعات میں پڑی ہوئی ہے۔اور اس امر کی بڑی شدید ضرورت ہے کہ بدعات کی جگہ مردہ ہوجانے والی سنتوں کو زندہ کیا جائے،اور لوگوں کی درست طریقے سے راہنمائی کی جائے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی بے شمار بدعات کا اسلام ،شریعت ،نبی کریمؐ ،صحابہ کرامؓ،تابعین اور تبع تابعین ومحدثین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ نبی کریم ؐکی وفات کے بعد گھڑی گئی ہیں۔
نکاح اور شادی میں رائج خرافات کا ایک دینی نقصان یہ ہے کہ ان سے بے حیائی، بداخلاقی اور بے پردگی عام ہورہی ہے۔ نکاح ایک مقدس تقریب ہے اور سنت ِ رسولؐ ہے۔ اسے ہر قسم کی خلافِ شرع باتوں سے پاک ہونا چاہئے لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ کئی علاقوں میں مسلمانوں کی شادی تقریبات میں نہ صرف بینڈ باجے کا اہتمام ہوتا ہے بلکہ خواتین کا رقص بھی ہونے لگا ہے۔کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رقص وسرود اور ناچ گانے کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ در اصل دشمنان خدا ورسولؐ کی تہذیب ہے۔ہماری شادی بیاہ کی تقریبات کو ان ساری خرافات سے پاک ہونا چاہئے۔موسیقی،بینڈ باجا، ڈی جے اور نیم برہنہ رقص جیسی چیزیں خدا کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔
شادی بیاہ کی خرافات کا ایک اور نقصان فضول خرچی اور اسراف ہے۔ نمائش اور دکھاوے کے لئے لوگ نکاح کی دعوتوں میں لاکھوں روپئے لٹاتے ہیں، لاکھوں کے شادی خانے حاصل کیے جارہے ہیں اور کھانے میں دسیوں آئٹموں کا اہتمام کیا جارہا ہے، پرشکوہ تقاریب کو سماج میں عزت اور انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے،جب کہ اسلام میں شادی کو سادہ بنانے کا حکم ہے۔ نبی رحمت ؐنے اس نکاح کو سب سے بابرکت قرار دیا ہے جس میں کم سے کم مالی خرچ ہو۔ شادی میں صرف ولیمہ مسنون ہے۔نکاح کے موقعہ پر کسی قسم کا کھانا مسنون نہیں ہے۔ مال ودولت اللہ کی امانت ہے، اسے حقوق کی ادائیگی اور دینی کاموں میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ نکاح کے تعلق سے عامۃ المسلمین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ نکاح عبادت ہے اور عبادت کے لئے ہرمسلمان نبی رحمتؐ کے طریقہ کا پابند ہے۔ کسی بھی عمل کے عبادت بننے کے لئے اسے منہج رسولؐ پر انجام دینا ضروری ہے۔ بیشتر مسلمان نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے جس کانتیجہ یہ ہے کہ انھوں نے نکاح کے معاملہ میں خود کو شریعت سے آزاد سمجھ رکھا ہے۔
اسلام میں غیروں سے مشابہت کی سخت ممانعت ہے حتیٰ کہ جو شخص کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے کل قیامت کے دن اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔ شادی بیاہ میں رائج ساری خرافات در اصل غیر مسلم سماج سے مسلمانوں میں آئی ہیں۔جہیز اور دیگر رسومات غیر مسلم معاشرہ کی دین ہیں۔ عام مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں غیروں سے مشابہت کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
شادی بیاہ کی خرافات کے خاتمہ کیلئے برسوں سے آواز اٹھائی جارہی ہے لیکن بظاہر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خرافات کے سد باب کے لئے سماجی بائیکاٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ خوفِ خدا اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بغیر آدمی خلافِ شرع چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتا۔لازم ہے کہ ائمہ وخطباء اور دعوت واصلاح کے ذمہ دار عام مسلمانوں میں خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کی روح پیدا کریں۔ بقول اقبال ؒ ؎
یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند
گو اس کی خدائی میں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
تو برگ گیا ہے نہ وہی اہل خرد را
او کشت گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گلگوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کے غاروں میں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے، نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
پتہ۔ پاندریٹھن سرینگر، حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی
فون نمبر۔ 9205000010