Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

خدمت یا شہرت ؟ | فلاحی اداروں کے لئے لمحہ فکریہ! فہم و فراست

Towseef
Last updated: March 4, 2025 11:41 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

شیخ ولی محمد

28فروری 2025 بروز جمعتہ المبارک صبح 9:30 بجے آ ل انڈیا ریڈیو سرینگر ( ریڈیو کشمیر سرینگر) سے ایک معروف غیر سرکاری فلاحی ادارے کا پروگرام ’’ احساس ‘‘سننے کا موقع ملا ۔ پروگرام میں ادارے کا تعارف کراتے ہوئے یہ منفرد پیغام بیان کیا گیا کہ یتیموں ،بیواوں اور محتاجوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ ادارہ آ وارہ یا گھر گھر چندہ جمع نہیں کرتا ۔ بعد میں پروگرام کے دوران اس ادارے سے مستفید ہوئے ان چند مریضوں کے تاثرات بھی سننے کو ملے، جن کو ادارے کی طرف سے معاونت کی گئی تھی ۔یہ محتاج اور مریض ادارے کے حق میں تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کسی فلاحی ادارے کے بجائے کسی کمرشل پرائیویٹ کلینک کا پروگرام تھا، جس کے حق میں شفایاب ہونے مریض کلینک کو سراہتے تھے۔

1990ء سے قبل ریاست جموں و کشمیر میں غیر سرکاری سطح پر خدمت خلق کا وسیع پیمانے پر ادارہ جاتی تصور نہیں تھا۔ انفرادی حیثیت سے کسی حد تک لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے یا مقامی سطح پر کہیں کہیں چھوٹے موٹے بیت المال یا ریلیف کمیٹیاں محتاجوں کی مدد کے لئے کوشاں تھیں۔ بعد میں جب یہاں نامساعد حالات پیدا ہوئےتواس کے نتیجے میں یتیموں ، بیواؤں ، معذوروں اور دیگر محتاجوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس تشویش ناک صورت حال کو دیکھ کر سماج کے حساس اور درد دل رکھنے والےافراد نے متاثرین کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور محتاجوں کی بازآباد کاری کی خاطر کئی رضا کارانہ سماجی فلاحی ادارے قائم ہوئے ۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ بجائے اس کے کہ ان اداروں کو تعاون دیگر مضبوط کرتا، وہ بھی ان کی تقلید میں خدمت خلق کے میدان میں کود پڑا اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے یہاں پر این جی اوزNGO کلچر پیدا ہوا۔ اس وقت بھی ریاست میں فلاحی اداروں کی ایک ایسی بڑی تعداد رجسٹرڈ اور سرکار سے تسلیم شدہ ہیں جن کا زمینی سطح پر کوئی وجود نہیں ہے۔ تاہم ایسے بھی کئی معتبر اور مستند ادارے ہیں جو سماجی خدمت کے میدان میں ٹھوس کام انجام دیتے ہیں اور عملی طور پر اپنے مالی وسائل کے مطابق متاثرین کی امدادی کاروائیوں میں سرگرم عمل ہیں۔ لوگوں کی خدمت کرتے کرتے رفتہ رفتہ این جی اوز کلچر سے ان معتبر اداروں میں غیر محسوس طریقے سے کئی ناپسندیدہ عوامل اور منفی چیزیں داخل ہوئیں۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انفرادی سطح پر اکثر و بیشتر متاثرین اور محتاج کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے کتراتے ہیں ۔ اگر کوئی فرد کسی محتاج کی مدد کرتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہتا ۔ سماج کے مختلف پہلوؤں کی وجہ سے مستحق فرد اور صاحب خیر کے درمیان کسی بھی وقت ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ صاحب خیر کی معاونت ظاہر ہوتی ہے اور جسکی وجہ سے محتاج کی عزت نفس متاثر اور مجروح ہو جاتی ہے۔ اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سارے با غیرت محتاج افراد کسی صاحب خیر سے دست سوال کرنے سے کتراتے ہیں۔ تاہم اگر اجتماعی طور پر یہی سماجی خدمت کسی فلاحی ادارے کے ذریعے انجام دی جائے تو متاثرین اور محتاج لوگ بلا کسی خوف اور جھجک کے اپنی حالت زار ادارے کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ادارہ مستحقین کی غیر محسوس طریقے سے ویریفکیشن / جانچ و پڑتال Verification اور دیگر لوازمات کو پورا کرتے ہوئے متعلقہ مستحق افراد کی مدد کر سکتا ہے ۔ تاہم دیکھنے میں آ یا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے یہ ادارے مستفید ہوئے افراد Benficaries کی تشہیر کر کے ان کی عزت نفس کو متاثر کرنے میں ملوث ہورہے ہیں۔ کسی بھی قسم کی امداد کی تقسیم کاری کا اعلان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کیا جاتا ہے اور مقررہ تاریخ پر تقریب میں حالات سے ستائے ہوئے سماج کے ان کمزور افراد کو عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔ ریلیف کی تقسیم کاری کے وقت ادارے کے ذمہ دار جب انھیں نقدی امدادی رقم یاچکیں یا اشیائے خوردنی کی کٹیں حوالے کرتے ہیں تو اس وقت پرنٹ اور الیکڑانٹ میڈیا کا بھر پور استعمال کیا جاتا ہے ۔ بعد میں اخبارات ریڈیو ، ٹی وی ، ویب سائٹوں یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی اس قسم کی امدادی کارروائیوں کو ظاھر کیا جاتا ہے۔ فلاحی اور امدادی کام کو اُجا گر کرنے کے لئے ڈاکیومنٹریز اور فلمیں تیار کی جاتی ہیں جن میں کھل کر فلاحی اداروں کے حق میں یتیموں ، بیواؤں اور محتاجوں کے تاثرات بیان کیے جاتے ہیں۔ ادارے اپنے تعارفی لٹریچر ، پوسٹرس،کلینڈرس اور سالانہ رپورٹوں میں مستحقین کی فوٹو گرافس کو بھی شائع کیا جاتا ہے۔ جس خاتون کو اسلام نے ’’مستور‘‘ یعنی چھپانے کی چیز سے تعبیر کیا ہے اس کو بر سر عام لایا جاتا ہے ۔ حد یہ ہے کہ شادی کے وقت کسی یتیم یا غریب لڑکی کو معاونت کرنے کے بعد یہ ادارے شادی سے متعلق تصاویر کوبھی اپنی ڈاکیومنٹرٹریز میں شامل کرتے ہیں۔ بیواؤں کی امداد سے لے کر غریب طلبہ کے تعلیمی وظائف اور مریضوں کی طبی امداد تک کی نمائش کی جاتی ہے۔ کئی مواقع پر سمیناروں اور دیگر جلسوں میں مخیر حضرات اور مستحقین کو ایک ہی جگہ جمع کر کے Donors میں خدمت کا جذبہ پیدا کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تو دوسری طرف مستحقین کو ذہنی کوفت اور نفسیاتی پریشانی سے دو چار کیا جاتا ہے ۔ اگر چہ فلاحی ادارے محتاجوں کے تئیں لوگوں میں جذبہ سخاوت اُبھارنے کے لئے سمینار کا نفرنسیں، مباحثے اور بیداری کے پروگرام منعقد کرسکتے ہیں ۔ مختلف مواقع پر مساجد میں خطابات کیے جاسکتے ہیں۔ اخبارات،رسائل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام میں اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور بعد میں آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات سالانہ گوشوارہ کے ذریعے ظاہر کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وادی میں کئی ادارے یتیموں اور مریضوں کو آٹو اور سومو گاڑیوں میں سوار کرا کے ان کے لئے چندہ جمع کرتے ہیں ۔ رمضان المبارک میں یہ کاروبار عروج پر ہوتا ہے اور اس طرح ان محتاجوں کو ذلیل و خوار کر کے لوگوں سے روپیہ وصول کیا جاتا ہے ۔ ایسی تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں جن میں صاحب ثروت کے عطیات و خیرات کو سراہتے ہوئے انہیں انعامات ، اسناد اور ایوارڈس سے نوازا جاتا ہے۔ اگر چہ اسلام کے نزدیک صدقات اعلانیہ طور پر ادا کرنے کی گنجائش ہے تاہم صدقات وخیرات کو ادا کرنے کا بہترین طریقہ پوشیدہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع مت کرو ۔ ( البقرہ :264 ) ۔ بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ سات لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا ۔ سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنا صدقہ اس قدر چھپا کر دے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر نہ ہو۔ ابن حاتم کی ایک اور روایت کردہ حدیث میں ہے کہ پوشیدگی کا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ پوشیدہ صدقہ دینا ستر گنا افضلیت رکھتا ہے ۔ اگرچہ انعامات واکرامات سے کسی صاحب خیر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی چیزوں سے رفتہ رفتہ آدمی غرور، گھمنڈ اور تکبر میں مبتلا ہو کر ریا کاری اور نام و نمود کا شکار ہو جاتا ہے جس کا انجام بہت ہی عبرت ناک ہوتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آخرت میں جن تین قسم کے آدمیوں کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، ان میں ایک آدمی وہ ہوگا جس کو اللہ نے دنیا میں رزق کی کشادگی بخشی تھی اور ہر قسم کی دولت سے نوازا تھا اس کو حاضر عدالت کیا جائے گا۔ اسے سب نعمتیں یاد دلائی جائیں گی اور وہ اقرار کرے گا۔ پھر پوچھا جائے گا کیا کر کے آئے ہو؟ وہ کہے گا جن جن مدات میں تو نے خرچ کرنے کا حکم دیا تھا ان سب مدوں میں تیری خوشنودی کی خاطر میں نے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے جھٹلا دے گا۔ کہے گا تو نے تو اس لئے خرچ کیا تھا کہ لوگ سخی اور فیاض کہیں ، سو یہ لقب تجھے مل چکا۔ پھر خدا کے حکم کے مطابق اسے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)

خدمت خلق کو انجام دیتے ہوئے اگر اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو تو وہ کام اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ لیکن اگر اس کے پیچھے کوئی دنیاوی غرض جیسے نام و نمود اور شہرت مطلوب ہو تو یہی عظیم کام اللہ کے ہاں نا قابل قبول ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو quantity کے بجائے quality مطلوب و مقصودِ ہے ۔

آ خر پر خدمتِ خلق کے شعبہ میں سرگرم عمل اداروں کے ذمہ دار وں سے یہی مؤدبانہ اور مخلصانہ گذارش ہے کہ محتاجوں اور مستحقین کے لیے امدادی سرگرمیوں کو انجام دیتے وقت غیر فطری اور غیر اسلامی طریقوں سے اجتناب کیا جائے ۔ سماجی خدمات کو منظم اور منصوبہ بند طریقے پر انجام دینے کے لیے کسی ایک شعبے کو چنا جائے ۔ فلاحی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہو ۔آمدنی اور اخراجات کا پروفیشنل طریقے پر ریکارڈ رکھا جائے تاہم مستحقین کی شناخت کو کسی بھی صورت میں ظاہر نہ کیا جائے ۔گاڑیوں میں سوار یتیموں ،مریضوں اور محتاجوں کے نام پر چندہ جمع کرکے انہیں رُسوا نہ کیا جائے ۔خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے آ پ تمام موثر ذرائع کا استعمال کریں تاہم یتیم خانوں کے نام (tag ) کااستعمال کرکے غیر محسوس انداز میں ان کا استحصال نہ کیا جائے ۔
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ہم نے پاکستان میں 9 دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، کوئی نشانہ ضائع نہیں گیا:اجیت ڈوول
برصغیر
خواتین کی خود مختاری کے تئیں مادر مہربان کا رول قابل سراہنا ہے:سکینہ یتو
تازہ ترین
کشمیر میں اگلے دو روز کے دوران موسم گرم و مرطوب رہنے کا امکان
تازہ ترین
کپواڑہ کے گاؤں میں آلودہ پانی پینے سے 200 سے زائد افراد بیمار
تازہ ترین

Related

مضامین

بابا نگری وانگت ،روحانیت کا مرکز

July 10, 2025
مضامین

یادِ الٰہی۔روح کی اصل غذا زندگی روح اور قالب دو اجزاء کی اصل صورت ہے

July 10, 2025
مضامین

زبان ،قلوب و اذہان کی ترجمان نقطہ نظر

July 10, 2025
مضامین

قرآن ِمجید عظمت اور سرچشمۂ حیات‎ روشنی

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?