طارق منور۔ٹنگمرگ
اللہ تعالیٰ نے ایک کُن سے اس حسین اور دلکش کائنات کو فیکون کردیا۔ اور اس کائنات میں بے شمار اور لا تعداد قسم کے شہکاروں کو مبعوث کیا ہے۔ جیسے انسان ، فرشتے ، جنات، پرندے ، چرندے ، حیوان وغیرہ۔ یہ سب اللہ کا عیال ہے اور اللہ کو اپنا ہر شہکار پیارا ہے۔ اسی لیے اللہ پاک نے اپنے حقوق واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مخلوقات کے حقوق بھی صاف صاف بیان کئے ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جائے۔ کائنات کےامام سرورِ دو عالمؐ کی تعلیمات ہمیں یہی درس دے رہی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔ ضرورت مندوں ، مسکینوں اور حاجت مندوں کا سہارا بنو ۔ تواریخ کی جبین پر اظہر من شمش کی طرح عیاں ہے کہ ہر پیغمبر نے خدمتِ خلق یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلق سے حسنِ سلوک کرنے پر بے انتہا زور دیاہے اور چشمِ فلک نے دیکھا ہے کہ جس انسان نے کسی مخلوق پر رحم کھایا، افسردہ اور غم زدہ لوگوں کے رنج و الم کو دور کیں، اللہ تعالیٰ نے کس قدر اُن کو نوازا۔ خدمت کرنا بہت بڑی عبادت ہے، اس سے مضطرب دل کو سکون ملتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ سفر میں تھے کہ کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے، وہ زیادہ تھے۔ کچھ لوگ جنہوں نے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تھا، انہوں نے سوچا کہ نفلی روزہ ہے، سفر ہے، گرمی ہے۔ روزہ داروں کو مشقت ہوگی اور ان کو خدمت کی ضرورت ہوگی، اس لئے ہم ان کی خدمت کریں گے۔ ایسا ہی ہوا کہ جب منزل پر پہنچے تو روزہ دار تو نڈھال تھے، وہ جا کر لیٹ گئے۔ بھوکے پیاسے جو تھے۔ جن کا روزہ نہیں تھا انہوں نے فوراً خیمے لگائے ، سامان ٹھیک کیا اور ان کو اچھی جگہ پر لٹایا۔ تو نبی اکرمؐ نے فرمایا، ’’آج کے دن افطار کرنے والے روزہ رکھنے والوں سے زیادہ اجر لے گئے۔ ‘‘اس حدیثِ پاک سے پتہ چلتا ہے کہ خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے، بظاہر تو روزہ رکھنے والے ہی اجر و ثواب کے زیادہ حقدار لگ رہے تھے ، مگر رحمٰن خدا نے ہمیں دکھایا کہ جو میری مخلوق پر رحم کرے گا، میں اس پر ضرور رحم کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے حقوقوں کو پورا کرنا الگ بات ہے، لیکن حقوق العباد کو انجام لانا کمال کی بات ہے۔ کل یومِ حساب کے دن اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے یا بندی کو حقوق ِ اللہ کی کوتاہی پر بخش بھی سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی بندے نے دنیا میں کسی فلانی شخص کو پریشان ہوتے ہوئے دیکھا ہوگااور اس میں یہ طاقت بھی تھی کہ وہ اس پریشان کُن انسان کی پریشانی دور کرسکیں،مگر پھر بھی تغافل کیا، اس کی طرف دھیان نہیں دیاتو مسئلہ بہت زیادہ سنگین ہوگا ۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’وہ ہر گز مومن نہیں ،وہ ہرگز مومن نہیں ،وہ ہرگز مومن نہیں، جس شخص کے ہاتھ اور زبان سے اس کا پڑوسی محفوظ نہیں۔‘‘ اب خود ہی دیکھیں کہ ہم کس زمرے میں آتے ہیں، کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے ہمارے پڑوسی محفوظ ہیں؟ کیا ہمارے دل کو کبھی کسی بیمار کو دیکھ کر درد ہوا؟ کیا ہماری آنکھوں میں آنسوں آئے، کسی مفلس کو در در کی ٹھونکریں کھا کر دیکھ کر ؟ اگر نہیںتو پھر ہم نام کے مسلمان ہوسکتے ہیں، کام کے نہیں۔ مشہور عالمِ دین ڈاکٹر اسرار احمدؒ اپنی بیان میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم میں طاقت ہو کسی مجبور انسان کی مجبوری دور کرنے کی ، کسی بیمار کو علاج کرانے کی، کسی غم خوار کا غم مٹانے کی، لیکن اپنے آپ کو وہاں پیش نہیں کیا تو آپ عالم ہوسکتے ہو، صائم ہوسکتے ہو، حاجی ہو بھی ہوسکتے ہو مگر مومن نہیں۔ ایک صاحب تھے جو دن رات نفل نمازوں میں مشغول رہتے تھے تو صحابیوں نے اپنے رہبرِ کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! فلاں شخص ہر وقت نمازوں میں مصروف رہتا ہے اور اس کے دو بیٹے گھر کی خدمت میں لگے رہتے ہیں تو سرورِ دو عالمؐ نے فرمایا، اس کے دو بیٹوں کو اس سے زیادہ اجر ملے گا،کیوں کہ وہ گھر کی خدمت کر رہے ہیں۔
عرض و سما ، شمشو قمر، شجر ہو ہجر ، بحر و بر غرض کہ کائنات کا زرہ زرہ اور سمندر کا قطرہ قطرہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر زمین پر فقط خدائے پاک کی حمد و ثنا بجا لا رہے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آدھے فرشتے قیام کی حالت میں ،آدھے رکوع ، سجود وغیرہ کی حالت میں بس ذکرِ الہٰی میں مگن ہیں اور وہ قیامت تک اسی حالت میں رہیں گے۔ پھر انسان بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟ یہی سوال فرشتوں نے اللہ پاک سے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہيں فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ پھر فرمایا میں انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر مبعوث کروں گا اور خلیفہ کا کام ہوتا ہے، اللہ کا نظام قائم کرنا، اللہ کی مخلوق پر رحم کرنا، وقت وقت پر مسکین ، لاچار، بے سہار کا خیال رکھنا اور بیمار کی خیر خبر لینا،عزیز و اقارب کے ساتھ اچھا برتائو کرنا ہی اچھے خاصے مسلمان کا کام ہے۔ لوگوں کو خوشیاں دو، مغموم چہروں کی مسکراہٹ بنو، درد مندوں کی کلفتوں کو دور کرنے کی وجہ بنو، بے قرار دلوں کو راحت ، چین اور سکون بخشو، پھر دیکھو عطاءِ ٕ الٰہی آپ پر کس قدر برسے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو پھر ان ان نعمتوں سے نوازیں گے، جن کا آپ نے کبھی سوچا کیا بلکہ دل سے ان کا خیال تک بھی نہ گزرا ہوگا۔ اللہ اکبر! حضرت موسیٰ علیہ سلام جب اپنے وطن سے کسی دوسرے شہر میں جا پہنچے، تو دوڑتے دوڑتے تھک کر ایک پیڑ کے سائےمیں بیٹھے جہاں کنواں قریب تھا ،وہی قرار کیا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں نہ کوئی رشتہ دار تھا ، نہ گھر ، نہ دوست اور نہ ہی کوئی جانکار ۔پھر پہاڑ کو ریزہ ریزہ ، سمندر کی موجوں میں تلاطم برپا کرنے والی دعا کی کہ اے میرے پرودگارِ عالم جونعمت آپ مجھے عطا فرمائیں ،میں اس کا محتاج ہوں۔ ابھی یہی وعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں کچھ لوگ آئے، جنہوں نے کنویں سے بھاری چٹان ہٹا کر بکریوں کو پانی پلایا ، پھر اسی جگہ یہ پتھر رکھ کر واپس چلے گئے۔ دو لڑکیا پاس ہی بیٹھی تھیں،بکریاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہ آئیں اور کچھ بچا کچا پانی انہیں پلایا ۔ چونکہ صنفِ نازک ہی تو تھیں، وہ کنویں سے وہ پتھر ہٹانے سے قاصر تھیں۔ تو موسیٰ علیہ سلام کو لگا کہ یہاں میری ضرورت ہے۔ وہ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کیوں نہیں پانی پلا رہیں ؟ تو انہوں نے جواباً میں عرض کیا کہ ہم کمزور ہیں، والد صاحب بھی ضعیف ہیں، اسی لیے یہی بچا کچا پانی بکریوں کو پلاتے ہیں۔ دل میں ان کے لیے رحم آیا اور کنویں کامنھ بھاری پتھر ہٹا کر بکریوں کو پانی پلایا ۔وہ دونوں لڑکیاں گھر کی طرف چل پڑی۔ جب پہنچے تو اپنے ابا جان سے سارا قصہ سنایا۔ تو ابا جان اپنی شہزادیوں سے کہا کہ جاؤ اور اسے یہاں بلائو۔ اب دیکھئے تھوڑی سی خدمت پر بے انتہا اللہ تعالیٰ کی عطا۔ تو موسیٰ علیہ سلام گئے۔ اب کھانے کے لیے اچھے سے اچھا کھانا میسر ہوا، رہنے کے لیے پاکیزہ گھر ، زندگی کے ایام سکون سے گزارنے کیلے بہترین شریکِ سفر اور ساتھ ساتھ اپنے برگزیدہ بندے کی صحبت بھی عطا کی، یعنی حضرت شعیب علیہ سلام ۔ وجہ کیا بنی ، صرف خدمت کہ موسیٰ علیہ سلام کو لگا کہ یہ کمزور ہیں اور انہیں میری ضرورت ہے ،اس وقت بس اپنے آپ کو پیش کیا ۔ پھر جب اپنی بیوی کو شہرِ مدین سے واپس لے کر نکلے، چلتے چلتے موسٰی علیہ سلام کو لگا کہ میری بیوی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ میری بیوی کو سردی لگ رہی ہے۔ اب چونکہ بیوی بھی امید سے تھی تو اس حال میں باہر کا موسم زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ تو موسٰی علیہ سلام کو لگا کہ اس کو میرے مدد کی ضرورت ہے۔ اپنی بیوی سے کہا ، تم بیٹھو مکہ کی جانب مجھے آگ نظر آرہی ہے۔ وہی سے کچھ انگارے لیکر آتا ہوںتاکہ آپ سردی کے تکلیف سے بچ کر گرمی سے اپنے آپ کو راحت پہنچا سکھو۔ وہ اپنی طرف سے آگ لینے گیا تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں وہاں پیغمبری کے انعام سے سرفراز کر دیا۔اس کے پسِ پشت کیا راز تھا۔ نماز نہیں، روزہ نہیں، نفلیں نہیں، حج و عمرے بھی نہیں، بس خدمتِ خلق۔ تم میری مخلوق پر رحم کرو میں تم پر رحم کروں گا۔ اسی لئے دوستو !ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ دوسروں کی تکالیفوں کو دور کر کے ان کو راحت کے دم فراہم کر سکھیں۔ اپنے گائوں میں بیت المال قائم کریں۔ جس کے ذریعہ محتاجوں، مسکینوں اور یتیموں کی پرشانیوں کو خوشیوں بدل سکتے ہیں۔ جہاں لگے کہ یہاں میری ضرورت ہے وہاں خود کو پیش کرو، یہ بہت عظیم دولت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خدمتِ خلق کی نعمت سے نوازے۔ آمین
[email protected]