ریاست جموں کشمیر میں ہر دور میں حکومت کی جانب سے ہمیشہ محکمہ تعلیم پر ہی تلوار گرتی رہی ہے اور یہی محکمہ حالات کا سب سے زیادہ متاثر رہا ہے۔ ابھی سال 2016ء کی غم زدہ یادیں تازہ ہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے یکم مارچ 2017ء کو اساتذہ کے تبادلوں کے بارے میں حکم نامہ منظر عام پر آگیا۔اگر چہ کسی بھی محکمے کے ملازمین کے تبادلے عوامی مفاد کے پس منظر میں کئے جاتے ہیں لیکن یہاں اس کے برعکس ہوا ، نتیجہ یہ کہ محکمہ تعلیم کے تبادلوں سے عوام کا ایک وسیع حلقہ ناراض ہوگیا۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اگرتبادلے عمل میں لانے ہی تھے تو سرما کی تین مہینوں کی چھٹیوں میں تبادلے عمل میں لائے جاسکتے تھے۔بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو زیادہ شوروغل نہیں اٹھتا،لیکن محکمہ تعلیم نے جن اساتذہ صاحبان کا تبادلہ عمل میں لایا ،ان میں سے اکثر و بیشتر چھ ماہ پہلے ہی نوکری سے سبکدوش ہوگئے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ لیکچرر صاحبان کو ماسٹر گریڈ کے زمرے بھی میں دکھایا گیاہے۔جب یہ معاملہ ناظم تعلیمات کی نوٹس میں لایا گیاتو ان کا کہنا تھا اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کے دفتر کو ساری تفاصیل CEOاورZEO دفتران سے موصول ہوئی ہیں۔جب ceoاورzeoصاحبان سے اس بارے میں وضاحت طلب کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان سے کوئی تفاصیل مانگی ہی نہ گئیں اور ان سے صلح مشورہ کئے بغیر ہی سارے تبادلے عمل میں لائے گئے۔اس پر اپنی بالغ نظری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ریاستی وزیر تعلیم محمد الطاف بخاری نے اساتذہ صاحبان کو ہدایت دی کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر جہاں ان کا تبادلہ ہوا ہے فوراً جوائن کریں۔ان تبادلوں سے اساتذہ برادری میں ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی اور بعضوں نے اپنے تبادلہ رکوانے کے لئے ناظم تعلیمات کشمیر کے دفتر کے چکر کاٹنے شروع کردئے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے سے ہی غیظ وغضب کا نشانہ بنا محکمہ مزید مشکلات میں مبتلا ہو کر بچوں کے تعلیمی کیرٔیر سے کھلواڑ کرگیا۔ تازہ تبادلوں سے جو ذہنی کوفت بچوں کو اٹھانا پڑی ہے،اس سے وہ ابھی جھوج ہی رہے تھے کہ حکومت نے ریاست میں پارلیمانی چناؤ کا بگل بجا دیااور اساتذہ کے لئے ceoاورzeo سے الیکشن تربیتی پروگراموں میں حصہ لینے کے لئے فرمان جاری ہونے لگے ۔چناؤی تربیت کا سلسلہ تقریباً8 ؍ اپریل کو ختم ہوگا۔اساتذہ صاحبان کا الیکشن میں حصہ لینے سے پھر سے بچوں کے تعلیمی کیرئر اثرانداز ہونا طے ہے۔حکومت اگر واقعی محکمہ تعلیم کو مضبوط بنانیمیں سنجیدہ ہے تو پارلیمانی چناؤاور آنے والے کسی بھی چناؤ میں اساتذہ صاحبا ن کو مستثنیٰ رکھاجانا چاہیے تاکہ بچوں کا نصاب وقت پر مکمل ہوسکے۔سب سے اہم بات جو آج کل محکمہ تعلیم میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ یہ ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکولوں میں ریسرچ کی ڈگری لئے ہوئے اساتذہ صاحبان تعینات ہیں ،جب کہ ہائی اور ہائر اسکینڈری اسکولوں میں بارہویں پاس،گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ اساتذہ تعینات ہیں ۔اس صورت حال سے بھی محکمہ تعلیم گوناں گوں مشکلات سے دوچار ہے۔کم از کم اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ صاحبان کو ہائی اور ہائر اسکینڈری اسکولوں میں تعینات کیا جانا چاہیے تاکہ محکمہ تعلیم میں سدھار کی گنجائش پیدا ہوں۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا راقم الحروف کی ان مخلصانہ ومعقول تجاویز پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا یامرزاغالبؔ کے اس شعر کی عملی تفسیر پیش ہوگی ؎
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
رابطہ :پی۔ایچ۔ڈی اسکالر، شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر