تنازعہ جموں کشمیر ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔1947ء سے متواتر تنازعۂ جموں و کشمیر حل کرنے کے بجائے کشمیر ی عوام کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال اور تمام اُوچھے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیں اورانسانی حقوق کی بدترین پا مالیوں کا بازار گرم ہے ۔ ظلم کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں پچھلی ۷؍ دہائیوں سے کشمیری عوام امن سے جینے کے حق سے محروم ہیں ۔ مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہر محاذ پر نا انصافیاں ہو رہی ہیں اوراگر وہ ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف اُف بھی کریں تو فوجی طاقت کے بے تحاشا استعمال اور انتقام گیری کی بھٹیاں گرم کر کے ان کی آواز کو دیا یا جارہاہے۔کشمیری عوام اور مزاحمتی قیادت کو اب مختلف فرضی کیسوں میں ملوث کرنے کا نیا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ ان تمام مصائب و آلام کے باوجود کشمیری عوام پُرامن کشمیر حل کے لئے گفت وشنید اور جیو اور جینے دو کے آفاقی اصول کا دامن پکڑے ہوئے ہیں ۔ کشمیر کسی بھی ملک کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ یہ مسئلہ 1947 ء کو طے پاگئے تقسیم ِہند فارمولے کی باقیات ہے۔ اس فارمولے کو کانگریس اور مسلم لیگ نے باضابطہ طورقبول کیا اور یہ آج بھی ایک تاریخی حقیقت کے طور زندہ ہے ۔ اہل کشمیر کو کیوں اس فارمولے کے مطابق اپنا جمہوری حق نہ دیا گیا تا کہ وہ یہ طے کرسکتے کہ اُن کے لئے کونساسیاسی راستہ مفید اور قابل قبول ہے؟کیا اس فارمولے کے حوالے سے 13 ؍جون 1947ء کو مشترکہ دفاعی کونسل کی میٹنگ زیر صدارت لارڈ موؤنٹ بیٹن نہ ہوئی جس میں پنڈت جو اہر لال نہرو اور قائدا عظم محمد علی جناح نے شرکت کی اور متفقہ فیصلہ لیا کہ ریاستوں کے عوام ہی ہندو ستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر نے کے مجاز ہوں گے؟ (بحوالہ’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘مورخہ 16؍ جون 1947)۔ اس فیصلہ کے تحت ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل ہو گئے جب کہ مسلم اکثریتی والے علاقے پاکستان کا حصہ بن گئے ۔اگر چہ ریاست جموں کشمیر میں اس وقت مسلمان کل آبادی کا پچاسی فیصدی سے زائد تھی مگر اقتداری سیا ست کی عجیب کروٹ اور قیادت کی خود غرضی نے تاریخ کا دھارا الٹا موڑ دیا۔ 25؍ اکتوبر 1947ء کو بھارت نے کشمیر میں فوج کشی کر کے یہاں اپنے قدم جما ئے۔ 26 ؍اکتوبر 1947ء کو اس وقت ہند کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بر طانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کو ایک تار ارسال کر کے یہ قول و قرار کیا تھا کہ ہنگامی حالات میں نازک موقع پر کشمیر میں فوجی امداد و معاونت کرنے سے یہ معانی ہر گز اخذ نہ کئے جائیں کہ بھارت جموں کشمیر میں فوجی مدا خلت کے بل پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا کر کسی جموں و کشمیر کا زبردستی الحاقِ ہند کی کوئی چال چل رہا ہے۔ ہمارا موقف یہی ہے جس پر ہم بلا چوں و چرا کا ر بند ہیں کہ کشمیر کے الحاق کا مسٔلہ وہاں کے عوام کی رائے اور خواہشات کے مطابق کیا جائے گا، ہم اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔اس ٹیلی گرام کی ایک نقل اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو بھی ارسال کی گئی تھی۔31 ؍ اکتوبر 1947ء کو وزیر اعظم پنڈت نہرو نے اپنے ہم منصب لیا قت علی محمد خان کو ایک ٹیلی گرام ارسال کر کے اپنا وعدہ دہرایا کہ ہم آپ کو یقین دِلاتے ہیں کہ جموں کشمیر میں جو نہی امن و امان بحال ہوگا ہم کشمیر سے اپنی فو جیں واپس بلا ئیں گے اور کشمیری عوام کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے جس کسی کے ساتھ چاہیں الحاق کا حتمی فیصلہ کر یں۔ 2 ؍نو مبر1947ء کو پنڈت جواہر لال نے قومی ریڈ یو پر بھارتی عوام سے خطاب کر تے ہوئے اعلان کیا کہ ہم یہ حقیقت ریکارڈ میں لا نا چاہتے ہیںکہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بالا ٓخر کشمیر ہی عوام کو ہی کرنا ہے۔ 26 ؍جون 1952ء کو بھارتی پار لیمنٹ میں پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ اعلان کیا :اگر کشمیری عوام رائے شماری کے تحت بھارت کے ساتھ رہنا پسند نہیں کر یں گے تو ایسا فیصلہ ہمارے لئے قابل قبول ہو گا، اگر چہ ایسا فیصلہ ہمارے لئے تکلف دہ ہی کیوں نہ ہو۔ 1948ء تا 1998ء اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل میں مسلٔہ کشمیر کے حل کے حوالے سے 28؍ قرار دادیں پاس ہوئیں اور ہر قرار داد اپنے پس منظر کے ساتھ قابل مطالعہ اور توجہ طلب ہے۔ تنا ز عہ جموں کشمیر کے حل کے حوالے سے پنڈت جواہر لال نے شیخ عبداﷲ کو اپریل 1964ئمیں پاکستان روانہ کیا مگر بد قسمتی سے پنڈت نہرو مئی 1964ء میں انتقال کر گئے۔ جنوری 1966ء میں ہند پاک سر براہان حکومت کے درمیان کشمیر حل کے حوالے سے روسی سر براہ نے تا شقند روس میں ایک چوٹی کانفرنس کا انعقاد کرایا۔ 1973ء میں ہند پاک سر براہانِ حکومت اندرا گاندھی اور ذ والفقار علی بھٹونے تنا زعہ جموں کشمیر کو حتمی طور حل کرنے کے حوالے سے شملہ میں چوٹی کانفرنس میں شملہ سمجھوتے کی صورت میں تحریراً اتفاق کیا۔ ۹۰ء سے کشمیر میں بہت سارے خون خرابے اور حقوق البشر کی خلاف ورزیوں کے بیچ بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی نے اپنے پاکستانی ہم منصب وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ لا ہور پاکستان میں تنازعۂ جموں کشمیر کے حل کے حوالے سے چوٹی کانفرنس کی ۔ 2001ئمیں پاکستانی صدر جنرل پر ویز مشرف نے وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واچپائی کے ساتھ آگرہ میں کشمیر حل کے لئے ملا قات کی۔ اس کے علاوہ ہند وستانی قیادت وقتاََ فوقتاََ اعلانات کرتی رہی ہے کہ کشمیریوںکے ساتھ مکمل انصاف کیا جائے گا مگر یہ وعدے و عید مسئلہ کشمیر کے ضمن میں آج تک زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ اور ثابت نہ ہوئے۔ بات صاف ہے کہ کشمیر کا قضیہ بھارت اور پاکستان کے لئے ہی نہیں بلکہ سب سے پہلے کشمیریوں اور پھر پورے عالم ِانسانیت کے لئے ایک درد سر ہے۔ ستم یہ کہ اس حل طلب مسئلہ کی وجہ سے برصغیر کے ترقیاتی فنڈ توپ وتفنگ پر اُڑرہے ہیں ، بھوک ، بیماری، ناخواندگی ا ور بے کاری بڑھ رہی ہے اور عالمی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی دلی اوراسلام آباد کو مسلسل ایک دوسرے سے دست وگریبان رکھ کر اپنا اسلحہ انہیں بیچ رہے ہیں ۔ وزیراعظم مودی بھی اگر اپنے ضمیر سے پوچھیں گے تو جواب یہی ملے گا کہ جموں وکشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے جس کے پیچھے70 ؍سالہ تاریخ ہی گواہ نہیں بلکہ ہندو پاک جنگیں ، دو طرفہ مذاکرات اور معاہدے بھی شاہدعادل ہیں ۔ تاریخ نے یہ تماشہ بھی دیکھا کہ نہرواور شیخ عبداﷲ نے دوطرفہ سطح پریہ مسئلہ حل کر نا چاہا بلکہ ا ن کے درمیان 1952ء میں دلی ایگریمنٹ طے بھی ہوا مگریہ سب مسئلے کو نکارنے کی کوشش میں نام کام رہے ۔ شیخ عبداﷲ نے کرسی کے عوض اندرا گاندھی سے 1975ء میں ایکارڈ کیا مگر بے سود کیونکہ مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔ 1980ء میں فاروق عبداﷲ اور راجیو گاندھی نے گھٹ جوڑ کیا لیکن یہ بھی بے ثمر ثابت ہوا۔ غرض مسئلہ کشمیر گذشتہ 70 سال سے یونہی لٹکا ہوا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ تنا زعہ جموں کشمیر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے یا کسی تیسری طاقت کی مخلصانہ ثالثی میں اس کا قابل قبول ،پا ئیدار اور پُر امن حل نکالا جائے ۔ یہ کام فوری طور کیا جائے کیونکہ اب ہند پاک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اگر اللہ نہ کرے ان میں جنگ ہوئی تو کشمیر ہی نہیں بلکہ پورا بر صغیر اس کی زد میں آکر فنا کے گھاٹ اُترے گا ۔ نیز70 سال سے کشمیر میںتمام حدودپا ر کر کے ظلم و زیادتیوں کی انتہاہوچکی ہے مگر ھاصل صفر ۔ بھارت کے حکمرانوں کو از روئے انسانیت ووٹ بنک سیاست سے بالاتر تنازعہ جموں و کشمیر کو سہ فریقی مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہے تاکہ بر صغیر کے ساتھ ساتھ کشمیر بھی سکھ شانتی کا منہ دیکھے اور اس جنت ارضی میںظلم وجبر کا قلع قمع ہوجائے ۔
رابطہ: ریشن ہار ، نواکدل