مقصود احمد ضیائی
نفس کی اصلاح اور روحانی بیماریوں کے خاتمہ کے متعدد طریقے ہیں، منجملہ طریقوں میں ایک طریقہ متبعِ شریعت لوگوں کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں’’یا ایها الذین اٰمنوا اتقوا اللّٰه وکونوا مع الصّٰدقین‘‘ (التوبة) میں حکم بھی دیا گیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص متبعِ سنت و شریعت ہو اور علماء کے یہاں مقبول بھی ہو تو اس کی صحبت میں خانقاہ میں ٹھہرنا اور مستفید ہونا بلا شبہ مفید ثابت ہوتا ہے، نیز ان کے دئے ہوئے وظائف پڑھنے اور اذکار کی پابندی کرنے سے ترقی کا حصول بھی مشاہدے سے ثابت ہے۔ اہلِ حق کے یہاں رائج اصلاح کے تمام طریقوں کی بنیاد سنت سے ثابت ہے۔ صحابہ کرامؓ میں سے جہاں بہت سے حضرات روزانہ کی بنیاد پر یا وقتاً فوقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے، وہیں بعض صحابہ کرام کچھ عرصے کے لیے رسول اللہ ؐکی صحبت میں مستقل قیام بھی رکھتے تھے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی خانقاہ فیضِ احمد جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ بھی ہے، جس کے روح رواں استاذ گرامی قدر حضرت الاقدس مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ کے نقش جمیل صاحبزادے قاری جمیل احمد ضیائی صاحب مدرس جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ ہیں۔ آں موصوف اپنے والد عظیم کی طرح فکر و عمل کی ایک روشن مثال ہیں، بطور خاص نوجوان نسل کو مرکز توجہ بنائے ہوئے ہیں جو وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔سچ یہ ہے کہ سماج میں منشیات کے بڑھتے رجحان نے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہر طرف بے چینی و بے سکونی اور مایوسی کا عالم ہے ، لوگ سکون کی خاطر بے سکونی والے کاموں میں مگن ہیں۔ بطور خاص جموں و کشمیر جو فطری خوبصورتی کی وجہ سے جنت نظیر کہلاتا ہے، خطہ میں منشیات نے جو تباہی مچا رکھی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔منشیات کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد قابل رحم ہے۔ افسوس گاؤں کی فضا بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ بعض جگہوں پر عورتیں بھی شراب اور سیگریٹ نوشی کے معاملے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ ایسے میں حقیقی خانقاہی نظام منفرد نظام ہے کہ جس کے ذریعے سماج کو برائیوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ خانقاہ فیضِ احمد جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ روز اول سے بندگان خدا کی صلاح و فلاح کی آماجگاہ رہی ہے۔ اس کے متبع سنت ذمہ داران کی جاں سوزی اور فکرمندیوں نے خاموش انقلاب بپا کیا ہے۔ مختصر مدت میں نوجوان نسل کا جماعت در جماعت روحانی سلسلہ کی جانب رواں دواں ہونا قابل تعریف و صد تحسین ہے،سال بھر کی مجالس میں ماہ صیام کے آخری عشرہ کا اعتکاف اور شب و روز کے معمولات زمانہ قدیم کی خانقاہوں کی خوبصورت یاد دلاتے ہیں۔ خانقاہ فیضِ احمد کے روح رواں قاری جمیل احمدضیائی صاحب مفتی اعظم گجرات شیخ طریقت ، شبلی دوراں، جنید وقت شیخ المشائخ حضرت اقدس مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم العالیہ کے صحبت یافتہ ہیں اور اپنے شیخ مکرم کی نقش قدم پر خلوص کے ساتھ روبہ منزل ہیں، مرکز توحید و سنت مرکزی جامع مسجد بگیالاں جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ میں ماہ صیام کے عشرہ اخیرہ کے اعتکاف کی تیاریوں کا عمل جاری ہے اور منتظمین و خادمین معتکفین کی خدمات کے لیے سراپا کوشاں ہیں۔ بڑے ہی نصیبہ ور ہیں وہ لوگ کہ جن کے شب و روز اس روحانی و عرفانی مجلس میں بیتیں گے۔ جاننا چاہیے کہ مقصد زندگی اللہ رب العزت کی بندگی اور مقصد حیات اللہ رب العزت کی یاد ہے۔ اہل نظر فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کا دل معصیت سے پاک نہ ہو، اس میں دقائق و اسرار سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی نہیں اور دلوں کے اندھیروں کو اُجالے میں تبدیلی کرنے کے لیے متبع سنت مشائع کی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسی مجالس میں کثرت سے شرکت کی جائے جن میں شرکت سے تعلق مع اللہ پیدا ہو۔
پیوستہ رہ شجر امید بہار رکھ
غرضیکہ انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد اللہ رب العزت کی بندگی ہے۔ جس کو مولانا جلال الدین رومیؒ نے یوں بیان کیا ہے کہ
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی
اور کسی شاعر کے صداقت آمیز یہ اشعار بھی ذہن کے روشن دان کھول دینے والے ہیں کہ
کیا کیا دنیا سے صاحب مال لے گئے
دولت نہ گئی ساتھ نہ اطفال گئے
پہنچاکے لحد تک آئے سب کو لوگ
ہمراہ اگر گئے تو بس اعمال گئے
آخری بات : بروز جمعة المبارک ١٤٤٦ھ ماہ صیام آخری عشرہ کے اعتکاف کے لیے خوش نصیبان ازل بیٹھیں گے بہ طور خاص خانقاہ فیضِ احمد کے معتکفین سے التماس ہے کہ اس سیاہ کار کو بھی اپنی مستجاب دعاؤں میں شامل رکھیں، اللہ رب العزت زندگی میں بار بار ماہ مبارک مقدر فرمائے اور ہمیں قدر دانی کی توفیق دے۔ آمین۔