معراج زرگر
موسموں کی ہمہ وقت بے رخی اور گہری بے التفاتی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ پھر چاہے وہ سچ مچ کے موسم ہوں یا رشتوں اور حالات کے ہر آن بدلتے موسم ہوں۔ اس کے وجود میں بھی ہر طرح کا تغیرہوتا رہتا ہے۔ ٹھنڈی یخ بستہ راتوں میں جب موسم سرما میں خاموشی سے برف باری ہوتی ہے تو اس کے چپٹے وجود پہ بھی جیسے کوئی سفید چادر بچھ جاتی ہے۔ اور جب بہار میں جمی برف پگھلنے لگتی ہے تو اس کی رگوں میں جما خون جیسے کسی آبِ جوئے کی طرح زمین کی رگوں میں اتر کر رینگنا چاہتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں اسکی اپنی روح جیسے بھاپ بن کر اڑنا چاہتی ہو اور خزاں میں سوکھتے ہوئے اور گرتے ہوئے پتوں کے ساتھ ہی اسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے جسم سے اعضا ایک ایک کرکے گر رہے ہیں اور راکھ ہورہے ہیں یا دھول بن کر ہواوں میں تحلیل ہورہے ہوں۔ وہ موسموں کا مارا ہوا ایک انسان ہے۔
ایک اور ستم ظریفی اس کے ساتھ یہ تھی کہ وہ ہر وقت محسوس کرتا ہے جیسے وہ اپنے محکمے میں ایک “مِس فِٹ” ہے۔ اس کے اندر سے ایک آواز ہمیشہ سے آتی تھی کہ اسے تعلیم و تدریس سے وابستہ ہونا چاہیے تھا, مگر تقدیر کے تھپیڑوں نے اُسے فائنانس ڈیپارٹمنٹ میں پہنچا دیا۔ اگرچہ وہ وہاں ایک آفیسر ہے مگر وہاں لوگوں کا بہت زیادہ رش رہتا ہے۔ اور اس رش اور اس کے نتیجے میں اُس کا دماغ اور اعصاب ہر دن جیسے ماؤف سے ہو جاتے ہیں۔
دفتر سے آکے وہ گھر میں ہی قید ہوجاتا ہے۔ اُسے جیسے اپنے ہی وجود کی بیڑیوں نے جکڑا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ پیر بچوں کے شور، گھر والوں کی بے مطلب چِک چِک اور باہر کی دنیا کے شور کی ہتھکڑیوں سے بندھ چکے ہوتے ہیں۔ جانے کیسا انسان ہے وہ۔ خاموشی کا جیسے کوئی ہیولا ہو یا جیسے پتھر میں ڈھلا ہوا کوئی ساکت وجود۔ جب بھی گھر میں یا آفس میں یا کسی بھی بھیڑ والی جگہ پہ کوئی تیز کلامی یا شور ہوتا ہے تو وہ پھٹی پھٹی اور پتھرائی ہوئی آنکھوں سے انسانوں یا انسانوں کے چھوٹے بڑے مجمع کو دیکھتا رہتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔؟ ان کے چیخنے چلانے اور اپنی بات کو منوانے کے لئے یہ لوگ دوسروں کی زندگیوں سے سکون کیوں چھین لیتے ہیں۔؟ یہ جانوروں سے بھی گئے گذرے کیوں ہیں کہ انسانوں کی بستیوں میں، اسکولوں اور کالجوں، اسپتالوں، دفاتر یہاں تک کہ صحت افزاء مقامات پر بھی چنگاڑتے رہتے ہیں۔؟
اسے کبھی کبھی مذہبی مقامات اور سیاسی اور دیگر پارٹیوں وغیرہ کے مقامات سے لاؤڑ اسپیکروں سے رات کے اور صبح کے قیمتی اوقات میں نشر ہونے والے وعظ و تبلیغ اور اعلانات و تقاریر سے بھی جیسے تضاد تھا کہ گھروں اور اسپتالوں میں مہلک امراض میں مبتلاء بیماروں، امتحانی طالب علموں اور بزرگوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو کس قدر تکلیف ہوتی ہوگی۔ وہ اگر کہیں اس بات کا زکر کرتا بھی ہے تو اس بات کو لیکر لوگوں کے رد عمل سے بھی اس کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے اب کئی ماہ سے خود کو تکلیف دینے والے عمل سے بھی روک لیا ہے۔ وہ نہ اب سوال کرتا ہے اور نہ کسی بات کا جواب ہی دیتا ہے جو اس کی دانست میں مثبت نہ ہو یا جس کا جواب کارآمد نہ ہو۔
پچھلے کچھ دنوں سے سرکاری چھٹیوں کی وجہ سے وہ گھر پہ ہی ہیں اور ان کا اکثر وقت اپنے کمرے کے ایک کونے میں گذرتا ہے جہاں ان کی زندگی کی ساتھی کتابیں اور اس کا لیپ ٹاپ ہے، جس پر وہ اکثر لکھتا رہتا ہے۔ آج ہوا میں عجیب خنکی ہے اور جیسے کائنات کا سارا نظام بھی بے قرار سا ہے۔ اُسے مگر عجیب سکون نے گھیرا ہوا ہے۔ وہ ایک نئی کتاب پڑھ رہا ہے جس کا مرکزی کردارایک پروفیسر ہے جو ایک حادثے کے بعد نہ کچھ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے۔ دس سالوں میں پروفیسر نے اشاروں کی زبان سیکھی ہے اور اب ایک ماہرخاتون اس کے اشاروں کو ڈی کوڈ کرکے ایک کتاب لکھ رہی ہے۔ اکاؤنٹس آفیسر بھی پروفیسر کی طرح خود کو محسوس کر رہا ہے۔
اچانک اس کے سکون کی کیفیت بالکل اسی طرح کھسکنے لگی جس طرح ڈھیلی کنکریاں کسی بھی چھیڑ چھاڑ سے بکھرنے لگتی ہیں اور پوری طرح بکھرنے کے بعد دوسری جگہ جم جاتی ہیں۔ گھر میں مزے سے کھیلتے ہوئے بچوں کو گھر کا کوئی بڑا فرد زور زور سے ڈانٹنے لگ گیا اور اس ڈانٹنے کے عمل میں ناشائستہ الفاظ کا استعمال بھی ہورہا تھا۔ اس نے کتاب کو ایک طرف رکھ دیا۔ اور بے چین ہونے لگا۔
کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کی زوجہ نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا اور اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔ اس دیکھنے کے عمل میں بے التفاتی، بے رغبتی اور احساس کا ٹھنڈا پن تھا۔ اس نے کپ اٹھایا اور ابھی پہلی چسکی لینے ہی والا تھا کہ زوجہ نے سوال کیا،
’’آپ اب کئی مہینوں سے بات ہی نہیں کرتے۔ مسئلہ کیا ہے تمہارا‘‘۔۔؟
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے ہلکا پھیکا سا جواب دیا۔
“نہیں۔۔۔۔۔۔کچھ تو ہے نا۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ارد گرد بھی لوگ ہیں۔۔۔بچے ہیں۔۔۔اور بھی لوگ ہیں اس بڑے گھر میں۔۔۔رشتے دار اور ہمسائے بھی آتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔آپ تو بات ہی نہیں کرتے کسی سے۔۔۔” زوجہ نے تیز کلامی کرتے ہوئے وہی لہجہ اپنایا جس لہجے نے اکاؤنٹس آفیسر کا سکون غارت کیا ہوا تھا۔
وہ بدستور خاموش رہا۔ اس نے چائے کا کپ ایک طرف رکھ دیا اور لیپ ٹاپ آن کرکے اس پر کچھ لکھنے لگا۔ مگر زوجہ نے پھر سے قدرے چلاہٹ کے ساتھ اور اس کا کندھا زور سے ہلاتے ہوئے کہا،
’’تم جواب کیوں نہیں دیتے۔۔۔؟ کیا مرگئے ہو۔۔۔؟ زندہ رہنے کے لئے کچھ تو کرنا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
اکاؤنٹس آفیسر کو ایک دم جیسے اندر ہی اندر اچھا لگا۔ وہ جیسے اس بات سے خاصا مطمئن اور خوش نظر آنے لگا کہ کسی نے اسے مرا ہوا سمجھا۔ اُس نے ایک عجیب اور با وقار لہجے میں اپنی زوجہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
“ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔محترمہ۔۔۔۔میں مر گیا ہوں۔۔۔۔اور موت کی حالت میں پُر سکون رہنے کے لئے لکھتا رہتا ہوں۔۔۔”
���
ترال، پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛ 9906830807