خامۂ حق بیان!

Kashmir Uzma News Desk
11 Min Read
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر دور میں پیغمبر ان کرام علیہم السلام مبعوث کئے تا کہ دنیا میں انسان اپنے ہم جنس انسان کی غلامی سے نکل کر اللہ رب عز ت کی غلامی میں آجائیںاور دنیا امن و سکون کا گہوارا بن جائے۔اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کے لئے پیغمبر آخر الزماں نبی ٔمہرباں صلی ا للہ علیہ و سلم کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ ؐ کی بعثت سے پہلے عرب کے معاشرے میں جہالت عروج پر تھی، سماج گند خانہ تھا، قتل و غارت گری معمول تھا، سماجی ،سیاسی اور معاشی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ۔آپ ؐ کی بعثت سے ان سارے مسائل کا تیر بہدف حل ہو ا۔اس کے لئے آپؐ نے اپنے لوگوں کو صالح تعلیم دی ۔اللہ تعالیٰ کی طرف کی آپؐ کی رہنمائی کے لئے وحی آتی تھی جو آپ ؐمن و عن لوگوں تک پہنچاتے رہتے، چاہے وہ اسے سنتے یانہ سنتے ۔پھر ہم نے دیکھا کہ اس رُبانی تعلیم سے صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایسی کایا پلٹ گئی کہ وہ شرق وغرب کے رہنما ہوگئے ، قیصرو کسریٰ کی کفریہ سلطنتیں زمین بوس ہو گئیں ، ظلم و ستم کی آندھیاں مٹ گئیں، توحید وانسانیت کا پرچم لہرایا، تعمیرو ترقی ا ور عدل و امن کا بول بالا ہو ااور اسلامی دنیا میںہر طرف امن و امان کا قائم ہو گیا۔ یہ قرآنی تعلیم کا معجزہ تھا جسے اللہ نے آپ ؐ کی وساطت سے قلم کے ذریعے پھیلانے کا اہتمام کیا۔اس کی گواہ قرآن حکیم کی یہ آیت ہے: ترجمہ ’’ جس نے قلم کے ذریعے (علم)سکھایا‘‘ ( سورہ العلق۵) ۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مولانا شمس پیرزادہ یوں رقم طراز ہیں ’’قلم علم کی اشاعت کا محفوظ اور اہم ترین ذریعہ ہے ۔یہ ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ قرآن کو ضبط تحریر میں لایا جائے ۔ چونکہ قرآن ایک ایسی قوم پر نازل کیا جا رہا تھا جو اُمی تھی ،اس لئے قلم (کتاب)کی اہمیت واضح کی گئی کہ اسے اشاعت ِقرآن کی جو خدمت انجام دینے میں تحریر و کتابت کا جو مقام ہے، اسے وہ محسوس کرے اور اس کے لئے مستعد  ہوجائے ۔چناںچہ آگے چل کر تعلیمی میدان میں ملت اسلامیہ نے جو ترقی کی اور پیغام ا سلام کی تحریر اورتقریری اشاعت میں جو بیش بہا خدمات انجام دیں ،وہ اسی ہدایت رُبانی کے اثرات و نتائج تھے ‘‘۔
اسی آیت کی تفسیر میں صاحب تفسیر’’ احسن البیان‘‘ فرماتے ہیں :’’قلم کے معنی ہیں قطع کرنا،تراشنا۔قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر بنائے جاتے تھے ۔ اس لئے آلۂ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا گیا ۔کچھ علم تو انسان کے ذہن میں ہوتا ہے، کچھ کا اظہار زبان کے ذریعے سے ہوتا ہے اور کچھ انسان قلم سے کاغذ پر لکھ لیتا ہے۔ذہن اور حافظے میں جو ہوتا ہے ،وہ انسان کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے ۔زبان سے جس کا اظہار کرتا ہے وہ بھی محفوظ نہیں رہتا۔البتہ قلم سے لکھا ہوا ہمیشہ محفوظ رہتا ہے ۔ اسی قلم کی بدولت تمام علوم، تاریخ اور اور اسلاف کا علمی ذخیرہ محفوظ ہے حتی ٰ کہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کا بھی ذریعہ یہی ہے ۔اس سے قلم کی اہمیت محتاج ِوضاحت نہیں رہتی۔اسی لئے اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس کی تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے کا حکم دیا‘‘۔ معلوم ہوا کہ قلم میںا للہ نے عظیم طاقت رکھی ہے جس کی وجہ سے آسمانی کتابیں بھی محفوظ ہوئیں ۔زبان سے اظہار کی ہوئی باتیں تو ہواؤں تحلیل ہو جاتی ہیں لیکن قلم ہی وہ چیز ہے جس سے تحریر کی ہوئی باتیں صدیو ں زندہ رہتی ہیں ۔قلم کی زبان کی طاقت دنیا کے تمام ایٹمی طاقتوں سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ صالح قلم ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی وجہ سے انسان کا باہری وجود ہی نہیں بلکہ اندر کی دنیا کا شیطان بھی اچھائی کے خلاف جنگ بہرحال ہار جاتا ہے ۔ قلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے انعام ہے ا ورجتنا ہم اسے مثبت انداز میںاستعمال کریں ، اُتنا ہی انسانیت کو امن و سکون میسر ہوگا۔ افسوس ہم نے زیادہ تر قلم کا صحیح استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا جب کہ عالمی طاغوت اسی قلم کو ہم سے چھین کر اسے اسلام کے خلاف بے دریغ استعمال کررہاہے۔ عالم کفر قلم بشمول میڈیا اپنی ساری طاقت اسلام کے بنیادی عقائدیا صحیح تر لفظوں میں آفاقی حقائق کو مسترد کر نے میںا ستعمال کر کے کبھی ڈارؤن ازم کے نام سے انسان کو جانور بتا تا ہے ، کبھی فرائڈ کے ذریعے ہر چیز شہوت کی عینک سے دیکھتا ہے اور کبھی مارکسزم کے عنوان سے فکری انتشار اور امیر وغریب کی کشمکش کا فرضی خاکہ کھینچ کر لوگوں کو آپس میں لڑواتاہے ۔ ان سارے الحادی فلسفوں نے دنیا میں اپنی جڑیں مضبوط کر کے ایک ایسی حیوانی تہذیب کو جنم دیا جو آج انسانیت کا کچومر نکال رہی ہے ۔ البتہ دنیا میںایسی علمی شخصیات بھی پیدا ہوئیں جنہوں نے قلم کے ذریعے سے ان الحادی نظریات اور فلسفوں کا توڑ کر کے صالح نظریاتی انقلاب بر پا کر دیا۔برصغیر میںخصوصاً جن دو ہستیوں نے اپنے قلم کے ذریعے بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھی راہ پر لایا اور الحادی فکر کا طلسم خاک میں ملا دیا،وہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ا ور مفکر اسلام مولانا مودودیؒ ہیں ۔انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنے قلم کا استعمال اسلام کی سربلندی کے لئے غیر اسلامی نظریات کا توڑ دلایل اور حقائق کی بنیاد پر کیا ۔ان کے فعال وفکر انگیز قلم سے باطل لرزہ براندام ہو گیا ۔یہ ان کے خداداد قلم کی غیر معمولی طاقت ہے کہ برصغیر میں ا نہوں نے کروڑوں زندگیوں میں انقلاب برپاکیا۔اسی طرح عالم عرب میں ایک ایسے مرد مجاہدسید قطب شہیدؒ نے جنم لیا جس نے کفر وزندقہ کو اپنے قلم سے تہس نہس کر کے اسلام کی مشعل کو دنیا کے اندھیاروں میں فروزاں کر دیا۔انہیں بے باک وبے لاگ قلم کی پاداش میں وقت کے فرعون مصری آمر جمال ناصر نے بدجہ ٔ شہادت پہنچا دیا۔آپ کی شاہکار تفسیر’’فی ظلال القرآن‘‘ مردہ روح انسان میں بھی روحِ عمل پھونکتی ہے اوراسے ظلم ،ناانصافی، جبر ،قتل و غارت گری ، جھوٹ اور جھوٹوں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے ۔ عصر حاضر میں ایک طرف دنیا ئے کفر ہے جو اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے میں آرا یس ایس کی طرح مسلمانو ں کے خلاف لٹھ لئے کھڑا ہے اور ودسری طرف اللہ تعالی کا شکر ہے کہ امت مسلمہ کو ایسے منجھے ہوئے مفکر ، مدبر ،اہل علم اور صاحبِ دانش اسکالر ملے ہیں جن کے دم قدم سے دنیا میں علم اور فکر وفلسفہ کے نام پر قائم طاغوت کے سارے بُت خانے ڈھ گئے ہیں۔ان شخصیات میں باطل نظریات کی بیخ کر نے کی علمی صلاحیت ہی موجود نہیں بلکہ ان میں یہ جذبہ اور ہمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ یہ ببانگ دہل کفر کے افکار و نظریات کو للکاریں ۔ اسلام کی حقانیت اور صداقت کواجاگر کر نے میں یہ اسی طرح اپنے قلم استعمال کر رہے ہیں جس کی تعلیم تربیت گاہ ِ نبوت ؐ میں ہرزمانے کے تمام جید علماء ، صلحاء ، فقہا اور صاحبانِ قلم کو ملی ۔الغرض قلم کے ذریعے سے سماج میں امن کا گلستان بھی مہک سکتا ہے اور شر کی بدبو بھی پھیل سکتی ہے ۔ یہ ا س بات پر منحصر ہے کہ صاحب ِ قلم کس زاویہ ٔ نگاہ سے قلم کا استعمال کر رہاہے ۔جب قلم کو خوف ِ خدا ، درد ِ انسانیت اور غم خواری ٔآدمیت کی روشنائی میں ڈبو دیا گیاہو تو یہ لازماً ظلم ، جہل ، بدی، فریب کاری اور خدافراموشی کے خلاف چلے گا اور اسے حق وانصاف کی طر ف داری، روشن ضمیری کی حمایت ، دین دکھیوں کی امداد اور بے سہاروں کی راحت رسانی میں استعمال ہونا ہی ہوناہے ۔ احسا س ذمہ د اری اور فرض شناسی سے مملوایسا ہی قلم ہمارے سامنے کبھی فلسطین کا دُکھ لائے گا ، کبھی کشمیر کے درد پر خون کے آنسو رُلائے گا ، کبھی میانمار کی لہو رنگ تصویر کشی سے انسانیت کے اجتماعی ضمیر کو جنجھوڑدے گا ، کبھی شام کی کربلائیں اُچھال کر مظلوموں کی ادستان سرائی کر ے گا، لیکن جب ضمیر فروش لوگ قلم کی زبان کو اپنے حقیر مفادات کی خاطر گنگ کرتے ہیں تو ہم کنن پوشپورہ،شوپیاں ،اور گجرات جیسے دلوں کو چھلنی کر دینے والے حوادث، گاؤ رکھشکوں کی دھما چوکڑیوں اور خون ریزیوں پر قلم کی مجرمانہ خاموشی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ اللہ ہمیں وہ باضمیر وہمدرد قلم دے کہ جو ہمیں سماج کی بھلائی اوراسلام کی سربلندی کے سفر میں ہمیشہ زادِ سفر بنارہے تاکہ قلم کی محنت سے دنیا کی بد امنی اورظلم و ستم دفعتاً خوشحالی اور امن و سکون میں بدل جائے ۔ آمین 
رابطہ 8492862632
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *