طارق اعظم
ابھی شام ہونے ہی والی تھی تو اچانک مغرب کی جانب سے کالے سیاہ بادلوں نے پورے آسماں کو گھیر لیا۔ تاریکی نے اپنے کمال کے جلوے دکھانے شروع کردیئے۔ صبح کے مسافر اپنے اپنے آشیانوں کی طرف تیزی سے لوٹنے لگے۔ بازاروں میں سناٹا چھا نے لگا۔ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹیں اس طرح چمکنے لگیں، جیسے رات کے جگنوئوں کا قافلہ کہیں جا رہا ہے۔ سب کے سب مسافر اپنے عیال کی خاطر بے حد فکر مند نظر آرہیں تھے۔ ایک پھٹے پرانے بس سٹینڈ پر سفید لمبا جبّہ اور پیلا کوٹ پہنا ہوئے ایک خوبصورت جوان شاید گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ سر پر کالا عمامہ اور زرد چہرہ۔ صحت مند بدن اور ایک ہاتھ تسبیح دوسرے میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔اس کی پرسنیلٹی نے میرے دل کو اس طرح مائیل کیا جیسے میگنٹ لوہے کی چیزوں کو کھینچتا ہے۔ میں بار بار اس کی اور دیکھتا رہا ،آخر کار دل کے ہاتھو مجبور ہو کر اس کے پاس گیا ۔اسلام علیکم ۔ جناب کیسے ہے آپ؟ وعلیکم سلام اللہ کا فضلِ عظیم ہے۔ آپ سنائیں بھائی۔ میں نے بلا تاخیر اس نیک جواں سے پوچھا ، جناب کا اسمِ مبارک کیا ہے۔ وہ مسکرا کر بولا، حذیفہ میرے ابا نے مجھے نام رکھا ہے۔ ماشاءاللہ حذیفہ بھائی بہت ہی اعلیٰ نام تو ہے اور بے شک اس نام کی تاثیر آپ کے چہرہ پر عیاں ہے۔ حذیفہ بھائی اب میری طرف پورا رُخ کر کے خندہ پیشانی کے ساتھ کہنے لگے ۔ بھائی یہ در اصل آپ اچھے انسان ہیں۔ جو میرا آئینہ چہرے میں دیکھتے ہو۔ویسے آپ کا نام کیا ہے بھائی؟۔ میں بھول ہی گیا تھا۔ میں نے یک لحظہ میں کہہ دیا۔۔۔جی سالم ہے میرا نام۔ اچھا ہے نا۔۔۔ ارے سالم بھائی کیا بات کر رہے ہو۔ اتنا پیارا نام ہے ماشاءاللہ۔
ہم باتوں میں مصروف ہوگئے تھے کہ اچانک ایک زور دار برق و گرج ہوئی۔ ہم دونوں سہم سے گئے۔ لمحے میں تیز اور نہ ہی تھمنے والی بارش ہونے لگی۔ حذیفہ بھائی، سردی کے مارے مجھ سے کہنے لگے۔ سالم آپکو کہاں جانا ہے میری گاڑی آنے والی ہے۔ میں نے بولا میرا گھر تھوڑی دور ہے۔ آپ جائیں حذیفہ ، میں گاڑی کا انتظار کرتا ہوں۔ وہ جتنا ظاہر میں خوبصورت تھا اس سے دگنا دل کا بھی۔سالم بھائی، میرا مانو آج رات آپ میرے غریب خانے پر گزارو ،بخدا میں اور میرا بیٹا عثمان بہت خوش ہوں گے۔ اور دیر بھی بہت ہوگئی ہے۔ ادھر سے بارش اور سردی۔۔۔ بہتر یہی رہے گا کہ آپ میرے ساتھ چلیں۔ شاید اس نے میرے چہرے پر غم کے آثار کو پہچان لئے تھے۔ کیوں کہ مجھے اندر سے یہ غم کھائی جا رہا تھا کہ اب میرے گاوں کی گاڑی نہیں آنے والی ہے اور میں اتنی رات کو کہاں جاوں۔ میرے دل میں عجیب عجیب خیالات جنم لے رہے تھے۔ بہر حال اصل میں اللہ پاک میرے لئے یہ نظام چلا تھا۔ میں ان باتوں گم ہوا تھاکہ میرے کانوں کے در پر لطیف لفظوں نے دستک دی۔۔۔۔ ارے سالم بھائی آپ خاموش ہو کر کیا سوچ رہے ہو؟۔ وللہ میں آپ کو اپنے بھائی کی طرح دیکھ رہا ہوں ۔ آجائیں اور زیادہ مت سوچیں۔ حذیفہ بھائی نے یہ الفاظ کہہ کر میرا ہاتھ پگڑا اور گاڑی میں بٹھا لیا۔ گاڑی بھی چل رہی تھی اور بارش بھی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد حذیفہ نے مجھ سے کہا ۔ سالم یہ بیگ لو اور اٹھو ہم اب اُترنے والے ہیں۔ گاڑی سے اتر کر حذیفہ میرے آگے چلنے لگا اور میں اسکے نقش قدموں پرآگے بڑھتا گیا۔ ہم ایک تنگ گلی میں پہنچے جس کی دونوں طرف پرانے مکانات تھے۔ وہی پرانی طرز کےچھت اور در و کھڑکیاں۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے وقت کی سواری نے مجھے کسی پرانے زمانے میں ڈال دیا۔ آئو سالم بھائی آئو۔ یہ ہے میرا مکان۔ میں جب اندر داخل ہوا ! تو ایک کم سن نوجواں میری طرف دوڑ کر آیا اور میرے گلے لگا، کبھی ماتھے کو چوما تو کبھی چہرے کو۔ میں یہ ادا دیکھتے ہی دیکھتے دنگ رہ گیا۔ یہ رویہ۔۔۔۔۔۔۔! پھر وہ میری انگلی پکڑ کر کمرے کے اندر لے گیا اور کہا آنکل آج رات آپ یہی رکنا بہت مزا آئے گا۔ میں حذیفہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ یار حذیفہ یہ تیرا بیٹا بالکل تجھ پر گیا ہے۔ ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا۔۔۔ سالم مجھے بتائو کونسی چائے پیو گے۔ میرے خیال سے قہوا بناتا ہوں۔ سردی میں بہت موافق رہتا ہے۔ میں نے بولا ، کوئی بات نہیں حذیفہ بھائی جو آپ کو اچھا لگے۔ میں عثمان کی طرف متوجہ ہوا ۔ عثمان بیٹا کس کلاس میں پڑھتے ہو ۔ماشاءاللہ آپ کے اخلاق بہت اچھے ہیں۔ کس نے سکھائے ہیں۔ وہ ہنستے ہنستے بولا۔ آنکل میں دسویں جماعت میں پڑھ رہا ہوں۔ اور مجھے یہ آداب میرے اُبو نےسکھائے ہیں۔ بے شک آپ کے ابو بہت اچھے انسان ہیں۔ اتنے میں حذیفہ نے قہوا لایا۔ یہ لو سالم بھائی۔ گرما گرم قہوہ۔ اس میں نے کشمیر ی زعفران بھی ڈالا ہے۔ میں نے ایک دو گھونٹ لئے۔ واہ ! حذیفہ بھائی بہت ہی لذیذ قہوا بنایا ہے آپ نے اور اس سے عمدہ خوشبو بھی آرہی ہے۔ ہاہا۔۔۔ہاہا۔۔۔۔ سالم بھائی جھوٹی تعریف نا کریں۔ عثمان کے ابو کو کہاں چائے بنانا آتی ہے۔ یہ لو بیٹا آپ بھی پیو۔ میں نے ایک کپ عثمان کو دے دیا۔ شکریہ آنکل۔
قہوا پیتے پیتے میں نے حذیفہ سے کہا ، یار آپ کا بیٹا آپ کی تعریف کر رہا تھا کہ تم اس کی اچھی تربیت کر رہے ہو۔ امی کا تو یہ کہیں ذکر ہی نہیں کر رہا ہے۔ شاید امی سے زیادہ ابو سے عثمان پیار کر رہا ہے۔ ہے ناں عثمان۔۔۔۔۔۔ابھی اس نے ایک ہی گھوٹٹ لیا تھا۔ اور امی کا نام سنتے ہی چائے کا کپ وہیں چھوڑ کر دوسرے روم میں چلا گیا۔ میں اس کے پیچھے چلا لیکن اس نے دروازہ بند کر دیا تھا۔ میں بہت پکارا عثمان ۔۔۔۔۔عثمان ۔۔۔۔۔بیٹا میں مذاق کر رہا تھا۔ آجائو میرے ساتھ چائے پی۔ وہ میری ایک صدا کو شاید جواب دینے کو تیار نہیں تھا۔ بلکہ کمرے کے اندر سے کچھ شدید چیخیں آنے لگیں امی ۔۔۔۔امی۔۔۔۔ تم کہاں چلی گئی ،آجائو نا میں آپ کو بہت یاد کر رہا ہوں۔ تمہارے جانے کے بعد میرا ابو بھی اداس اداس رہتا ہے۔ میں نے ہاتھ اپنے افسردہ ماتھے سے لگایا۔ ہاے ! سالم تم نے یہ کیا کر دیا۔ ایک بھرے ہوئے زخم کو کھروچ دیا۔ تیرا بھلا ہو سالم ۔۔۔۔میں اُلٹے پائوں حذیفہ کی طرف شرمندہ جسم کو افسوس کی چارد اوڑھ کر جانے لگا۔ لیکن وہاں کمرے میں تیں کپ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں زور زور سے پکارا ۔۔ حذیفہ ۔۔۔۔حذیفہ ۔۔۔۔بھائی آپ کہاں چلے گئے۔ میں نے ساتھ والے روم میں نظر ماری ۔ حذیفہ۔۔۔۔۔ یہاں بھی نہیں۔ میں تھوڑا آگے چلا تو باہر والے ورنڈا پر ، سامنے پہاڑ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوا تھا۔ جیسے کسی عزیز کے لوٹ آنے کا منتظر تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دھیمے لہجے میں کہا ، حذیفہ۔۔۔ بھائی ۔۔۔آپ یہاں ۔۔۔۔۔۔۔ میں اس کے روبرو ہوگیا ۔ تو اس کے آنکھوں سے تارِ باراں برس رہا تھا۔ وہاں عثمان کی زوردار چیخیں اور یہاں حذیفہ کی خاموش چیخوں نے میرے دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ میں نے ہاتھ جوڑلئے اور حذیفہ سے معافی مانگے لگا۔ یار حذیفہ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں نے آپ کا زخم تازہ کیا۔ وللہ مجھے اسکی بالکل بھی خبر نہیں تھی۔ لیکن وہ با ظرف انسان تو تھا ہی جوں ہی اس نے مجھ ہاتھ جوڑتے ہوے دیکھا ۔تو کہنے لگا۔ سالم آپ کی کیا غلطی ہے۔ بس عثمان کی امی کے ہجر نے مجھے چور چور کیا ہے۔میں نے حذیفہ سے پوچھا ۔یار اسکی موت کیسے ہوئی۔۔۔۔ مطلب وہ بھی ابھی جوان ہی تو تھی۔ حذیفہ نے اپنا دایاں بازو میرے کندھے پر رکھا اور بوالا۔ آجائو سالم یہاں سردی ہے۔ اندر بیٹھ کر بولتا ہوں۔ ہاں ہاں بھائی حذیفہ ، کمرے میں بیٹھتے ہیں۔
کچھ مہینے پہلے کی بات ہے سالم۔ عثمان کی امی، ظریفہ شام کا کھانا بنا رہی تھی۔ ہائے! تو کچن سے ایک دلدوز چیخ نکلی ۔ میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ظریفہ کو فرش پر بے ہوش پایا۔ میں نے آوازیں دیں ۔ ظریفہ ۔۔۔۔۔ ظریفہ ۔۔۔۔ کیا ہوا۔ اٹھو عثمان کی امی اٹھو۔ میں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے مگر اس کا ہوش بحال نہیں ہورہا تھا۔ میں تھوڑا سا گھبرا گیا۔ عثمان دروازے پر یہ سب دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اسکو جیسے شاک لگا تھا۔ میں نے ظریفہ کو گود میں اُٹھایا اور پاس ہی ایک چھوٹے سے ہسپتال پہنچا دیا۔ ڈاکٹروں نے علاج کرنا شروع کر دیا۔ میرے دل میں بھیانک ہول اٹھ رہے تھے کہ اگر ظریفہ کو کچھ ہوا تو میں اور عثمان کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال سالم میں نے صدقہ اور دعا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مجھے ظریفہ کی وفائیں یاد آنے لگیں۔ جو اس نے میری غربت میں مجھ سے نبھائی تھیں۔ ہاے۔۔۔۔ سالم میں کیا بتائوں تمہیں ۔ ظریفہ کیا تھی۔ حذیفہ کے چہرے سے مجھے یہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ اب اُس کی برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ میں نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن حذیفہ کہانی کو پورا کر کے ہی دم لینا چاہتا تھا۔ میں بولا اچھا ٹھیک پھر کیا ہوا۔ سالم پھر دو گھنٹے کے بعد اسے تھوڑا ہوش آیا ۔ ہم دونوں باپ بیٹے اس کے پاس گئے۔ بس وہ جو کہتے ہیں ناکہ ۔۔۔۔ باتیں جو زبان پر آ نہ سکیں ۔۔۔ آنکھوں نے کہیں اور آنکھوں نے سنی۔ ہوش آنے کے بعد ظریفہ کا پہلا جملہ تھا۔ عثمان کا ابو کیسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اماں ہم ٹھیک ہیں۔ آپ ٹھیک تو ہو نا اب ۔ عثمان رو رو کر ماں سے بولا۔ پھر اس نے میرا ہاتھ تھاما سالم اور آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کو۔۔۔۔۔۔ ابھی حذیفہ کا یہ جملہ پورا نہیں ہوا تھاکہ اس کج آنکھوں سے قلزم بہنے لگا۔ میں لے بہت تسلی دی لیکن اس کے دل سے خاموش چیخیں نکل رہی تھیں۔ آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ میں عثمان کی طرف چلا اس نے امی کی تصویر سینے سے لگا رکھی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ ایک گھروندے پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ درد کی حرارت نحیف بدنوں کو جلا رہی تھی۔ شاید یہ وہ غم تھا جس کا ازالہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ یہ حالتِ زار دیکھ کر میرا نازک جسم لرزیدہ ہوا اور خیالوں کا سمندر منجمد ہوا۔ بے بس ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کار ہمت کر کے میں حذیفہ کو چپ کرانے گیا۔ میں نے حذیفہ کو صدا دی ۔۔۔ حذیفہ ۔۔۔۔ بھائی اٹھو ایسا نہیں کرتے۔ ہمت سے کام لینا ہوتا ہے۔ میں دیر تک آواز دیتا رہا لیکن کسی صدا کا جواب نہیں آرہا تھا۔ میں نے حذیفہ کا سر تھوڑا اوپر کیا۔ اس کی سانس چیک کی۔ ہائے ۔۔۔۔۔۔خدایا۔۔۔۔۔ حذیفہ۔۔۔۔۔ اس کے سینے سے اپنا کان لگایا مگر اس کے دل سے زندگی کی دھڑکن کے بجاے خاموش چیخیں نکل رہی تھیں۔ عثمان دوڑتے ہوا ابو کی طرف آیا اور اس کے بدن سے لپک گیا۔ انکل ۔۔۔ انکل ابو کو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چھوٹا کم سن عثمان پاگلوں کی طرح چیخیں نکالنے لگا۔ میں نے عثمان کو گلے لگا کر کہا۔ بیٹا، حذیفہ آپ کی امی کے پاس چلا گیا۔ عثمان کم فہمی کے باعث مجھ سے کہنے لگا۔ کیوں انکل ابو اس کے پاس کیوں گئے۔ میرے پاس اس کے اس سوال کا جواب تو نہیں تھا لیکن اتنا بول دیا۔ ۔۔کہ بیٹا خاموش چیخیں انسان کو بہت دور لے جاتی ہیں۔ بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔
���
ہردوشورہ ٹنگمرگ
[email protected]